:" بیٹا عالیہ شاید اب آپ اسکول نہ جا سکو کیوں کہ اس مہینے میں آپ کی فیس نہیں دے سکتا، میں نے جو پیسے آپ کی فیس کے لیے اکٹھے کیے تھے ان سے میں آپ کی والدہ کی دوائیں خرید کر لایا ہوں اب میرے پاس اور پیسے نہیں ہیں کہ میں آپ کے اسکول کی فیس دے سکوں
روحِ محمد سکھر
نہیں،نہیں مجھے اس مرتبہ اپنی سالگرہ منانی ہے-
بابا جان آپ سمجھائیں نا امی جان کو-
منال میری پیاری پری اس طرح ضد نہیں کرتے,آپ تو میری پیاری بیٹی ہو اور پیاری بیٹیاں اپنے بابا جان سے ضد نہیں کرتیں- (دانیال صاحب اور آمنہ بیگم کے دو بچے تھے حمزہ اور منال: دونوں اپنے والدین کے فرماں بردار بچے تھے ان سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی ہر بات مانتے تھے -
منال کبھی بھی اپنے والدین کو کسی بات کے لیے تنگ نہیں کرتی،وہ ایک سلجھی ہوئی سمجھدار بچی تھی- مگر پھر بھی تھی تو بچی ہی ،اس لیے کبھی کبھی کچھ باتوں میں الجھ جاتی تھی اور ضد کرنے لگتی تھی- مگر جب اٌس کے والدین اٌسے سمجھاتے تھے،تو سمجھ جاتی تھی- اور والدین تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ اپنے بچوں کو صحیح اور غلط میں فرق بتائیں،ان کی مدد کریں صحیح راستے پر چلنے میں-اب بھی یہی ہوا تھا: دراصل دو دن پہلے منال کی چچا زاد بہن کی سالگرہ تھی،جسے اس کے والدین نے بہت دھوم دھام سے منایا- اب منال کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے امی ابو اس کی سالگرہ منانے سے انکار کیوں کر رہے تھے،سب بچوں کے والدین ان کی سالگرہ مناتے ہیں- اس نے کوئی ایسی خواہش تو نہیں کی جس سے گناہ ہو (منال ہر چیز میں ثواب اور گناہ کو سامنے رکھتی تھی جس کام میں گناہ ہو وہ نہیں کرنا اور جس میں ثواب ہو وہ کرنا ہے اور یہ طریقہ اسے اس کی امی جان نے سکھایا تھا)
دانیال صاحب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کون سا طریقہ اختیار کریں! جس سے منال کو بات بھی سمجھ آجائے اور وہ خوش بھی ہو جائے،کیونکہ وہ اپنی لاڈلی بیٹی کو بالکل اٌداس نہیں دیکھ سکتے تھے- جبکہ منال کو بہت رونا آرہا تھا،وہ کل سے اپنی امی جان کو منانے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ نہیں مان رہی تھیں- منال کو لگا کہ وہ بابا جان سے بات کرے گی تو وہ مان جائیں گے مگر………………
ارے میرا بچہ میری پیاری پری ایسے رو مت- دانیال صاحب اپنی بیٹی کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر تڑپ گئے تھے- "چلو ٹھیک ہے ہم اس بار آپ کی سالگرہ منائیں گے-"
آخر دانیال صاحب بیٹی کے آنسوؤں کے سامنے ہار مان گئے تھے- سچی!منال کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا-
جی بالکل !دانیال صاحب نے اپنے جیب سے کچھ نوٹ نکال کر منال کے ہاتھ میں رکھے تھے- یہ لو پیسے:جیسے ہی آپ کے بھائی اکیڈمی سے واپس آتے ہیں،تو ہم سب چلیں گے بازار آپ کی سال گرہ کے لیے خریداری کرنے- جی بابا جان ٹھیک ہے،ارے ہاں!میں عالیہ کو بتا کر آتی ہوں-
:جیسے ہی منال کو اپنی سہیلی کی یاد آئی وہ باہر کی طرف بھاگ گئی- آمنہ بیگم کمرے کے دروازے میں کب سے کھڑیں دونوں باپ بیٹی کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں،وہ جانتی تھیں کہ آخر میں ایسا ہی کچھ ہوگا-
فکر نہیں کرو بس اس بار بچی کی خوشی ہے منا لیتے ہیں اس کے بعد نہیں منائیں گے- :دانیال صاحب نے اپنی بیگم کی طرف دیکھ کر کہا تھا-
اس بار بھی نہیں منائیں گے،ہم نے اپنی کوشش کر لی- اب سب کچھ اللہ تعالی کے حوالے ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرا رب ہمیں کبھی یوں اغیار کی رسموں کی اتباع کرنے نہیں دے گا،وہ بھی تب جب ہم کرنا ہی نہ چاہتے ہوں- ہم نے اپنی کوشش کر لی اور اللہ تعالی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہیں ":ہوگا وہی جو میرا رب چاہے گا-" آمنہ بیگم یقین سے کہہ رہی تھیں اور دانیال صاحب اپنی بیگم کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے- منال اپنے گھر سے نکل کر سیدھا عالیہ کے گھر پہنچی تھی:منال اور عالیہ دونوں ایک ہی جماعت میں پڑھتی تھیں، دونوں کے گھر بھی زیادہ فاصلے پر نہیں تھے اور دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا، اس لیے دونوں کی دوستی بھی بہت گہری تھی-
منال نے ابھی دروازہ بھی نہ کھٹکھٹایا تھا،کہ اندر سے عالیہ کے ابو کی آواز سنائی دی جو عالیہ سے "مخاطب" ہو کر کہہ رہے تھے کہ:" بیٹا عالیہ شاید اب آپ اسکول نہ جا سکو کیوں کہ اس مہینے میں آپ کی فیس نہیں دے سکتا، میں نے جو پیسے آپ کی فیس کے لیے اکٹھے کیے تھے ان سے میں آپ کی والدہ کی دوائیں خرید کر لایا ہوں اب میرے پاس اور پیسے نہیں ہیں کہ میں آپ کے اسکول کی فیس دے سکوں (عالیہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس کے والد مزدور تھے اور والدہ زیادہ تر بیمار رہتی تھیں،عالیہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی، عالیہ کے والد اسے اچھے سے اچھا پڑھانا چاہتے تھے ،اس لیے بہت محنت بھی کرتے تھے جبکہ منال ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس کے والد ایک کاروباری آدمی تھے) عالیہ:کوئی بات نہیں ابو جان آپ میرے لیے بہت محنت کر رہے ہیں لیکن میرے لیے تعلیم سے زیادہ امی کی صحت اہم ہے جب امی صحت مند ہو جائیں گی تب میں بھی اسکول چلی جاؤں گی-"
یہ سن کر منال دروازہ کھٹکھٹانا بھی بھول گئی تھی- وہ وہاں سے ہٹ کر فوراً اپنی استانی صاحبہ کے پاس پہنچی تھی، جن کا گھر منال کے گھر کے ساتھ ہی تھا-جو پیسے اٌسے دانیال صاحب نے سالگرہ کی خریداری کے لیے دیے تھے وہ پیسے منال نے عالیہ کی فیس کے لیے دے دیے- اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی لیا کہ وہ اس کا نام "پوشیدہ" رکھیں گی کیونکہ اس کی امی جان کہتی تھیں کہ:اللّٰہ تعالی محبت کرتے ہیں "احسان" کرنے والوں سے،مگر احسان بھی ہو جو جتایا بالکل نہ جائے "پوشیدہ" ہو- استانی صاحبہ کے گھر سے نکل کر منال سیدھا اپنے گھر آئی اور اپنی امی جان سے لپٹ گئی- آمنہ بیگم نے اٌسے پیار کیا- منال کا چہرہ خوشی سے گلاب کے پھول کی طرح کھل رہا تھا-
کیا بات ہے!آپ بہت خوش لگ رہی ہیں- آمنہ بیگم نے منال سے سوال کیا تھا-
جی امی جان کل آپ نے میری سالگرہ منانے والی ضد پر کہا تھا نا کہ": ہمیں وہ کام کرنا چاہیے جس سے ہمارا دل خوش ہو اور اللہ تعالی راضی ہو،
نہ کہ وہ کام کرنا چاہیے جس سے شیطان خوش ہو اور ہمارا نفس راضی ہو-" میں تب نہیں سمجھ سکی تھی مگر اب مجھے سمجھ آگئی ہے،سالگرہ منانا فضول خرچی(اسراف) ہے اور اللّٰہ تعالی فضول خرچ (اسراف) کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے-
بلکہ ا للہ تعالی دوسروں کی مدد کرنے والوں کو اور احسان کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں- میں نے بھی وہی کیا ہے،اور پھر منال نے اپنے والدین کو سب کچھ بتا دیا- جسے سٌن کر ان کے چہرے پر خوشی اور آنکھوں میں تشکر کے آنسو آگئے- دونوں میاں بیوی نے بیک وقت الحمد للہ کہا تھا اور منال کو ڈھیر سارا پیار کیا تھا- ماں باپ کا ﷲ تعالی کی ذات پر یقین ان کی اولاد کے بہت کام آتا ہے,انہیں ہمیشہ بٌری عادتوں سے دور رکھتا ہے-