فاطمہ مفتی محمد حنیف لاکھاروڈ،نوشہرو فیروز
وہ دعائیں سنتا ہے، آہ وزاری کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔ تم اپنے مسائل کی الجھی گتھی کسی روز اس کی رحمت سے سلجھتا پاؤگی۔ خواب میں گونجتی ان آوازوں سے وہ چونک کر اپنے ارد گرد نظریں گھماتی بیدار ہوئی۔ ابھی صبح صادق کی سفیدی کی اوڑھنی فلک نے نہیں اوڑھی تھی۔ اس کے قدم منٹوں کی مسافت لمحوں میں طے کرتے بیت الخلا کی طرف جارہے تھے۔ مختلف سمتوں سے آتی اللہ مان جائیے،
اللہ آپ راضی ہو جائیے کی صداؤں نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ اب اس کی چال میں مزید تیزی آگئی تھی۔ کوئی حالتِ قیام میں رب کے حضور کھڑی تھی، تو کوئی سجدے میں سسکیاں لے کر شکر اور توبہ کے اشکوں سے اپنے خالق کی طرف ہمہ تن متوجہ تھی۔
سردی کی ٹھٹھرتی رات میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا اسے پر سکون کر رہا تھا، وہ بغیر آبِ وضو پونچھے، چہرے سے چھلکتے موتی کی مانند وضو کے قطرے لیے اللہ اکبر کہہ کر دنیا وما فیہا سے بہت دور چلی گئی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر نا معلوم زیر لب کچھ کہتی،کبھی مسکراتی اور کبھی ہچکیوں سے رو دیتی، کبھی سجدے میں گڑگڑاتی تو کبھی دوزانوبیٹھ کر اپنے اوپر سجی سیاہ چادر کی جانب طلب و شکر کی نگاہیں اٹھاتی۔
فقط وہ ہی نہیں اس کے گرد رب کو مناتی ہر صنفِ نازک اس جہانِ فانی سے مکمل بے زار رب تعالی سے ہم کلام تھی، جہاں سے دھتکارے جانے اور رسوائی کا اندیشہ نہ تھا۔
بالاخر اذانِ سحر نے انہیں ایک اور خوب صورت قیام کا حکم دے دیا، اور ہر چہرہ یوں پرسکون اور منوّر تھا گو کہ اسے یقین ہو کہ ان میں سے ہر ایک کی دعا، خواہش اور ارمان پر علیم بذات الصدور نے کُن فرما دیا ہے۔ یہ دینی جامعہ کا بے حیائی اور عریانی سے پاک ایک حسین اور پرسکون ماحول تھا، جس میں اس نے اپنے ہر کٹھن راستے کو تہجد کے سجدوں سے ہم وار کرلیا تھا ۔