تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
طاہرہ کلثوم

یہ تو خیر دل کے آئینے کی بات ہے مگر میں آج بات کر رہی ہوں اپنے گھر میں لگے قدِ آدم آئینے کی، جو میری نظر میں ایک بہترین ایجاد ہے۔ جس سے میں اپنی ظاہری شخصیت کو، اپنے خد و خال کو دیکھ سکتی ہوں۔ میں آئینے کو ایک دوست ایک رازدار مانتی ہوں، جو کہ بیشک ایک بےجان شئے ہے، مگر میرے عکس سے وہ زندہ ہو جاتا ہے۔ یہی آئینہ میری جوانی، میرے بالوں میں اترتی چاندی، میرے سجنے سنورنے، میری مسکراہٹ اور میرے آنسوؤں کا گواہ ہے۔ میں اکثر اس کے سامنے کھڑے ہو کے خود سے باتیں کرتی ہوں۔ اپنا دکھ سکھ خود ہی سے بانٹ لیتی ہوں۔ کبھی بہت سنور کے بھی آئینہ مجھے خوبصورت نہیں دکھاتا کیونکہ وہ میرے اندر کی اداسی کو محسوس کر لیتا ہے۔ جو انسان نہیں کر پاتے، کبھی عام حلیے میں بھی خود پہ پیار آ رہا ہوتا ہے، جو میرے اندر پھوٹتی خوشی کا عکس ہوتا ہے۔ جو آئینہ دکھاتا ہے۔ اسی لیے شاید کہنے والے کہتے ہیں کہ آئینہ جھوٹ نہیں بولتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں آئینہ بہت سفاک ہوتا ہے کیونکہ وہ ہمیں حقیقت سے روبرو کراتا ہے جو کہ تکلیف دہ امر ہے۔ مگر میرا خیال ہے یہ آئینہ ہی تو ہے جو مجھے دیکھتا ہے، برداشت کرتا ہے اور مجھے مجھ سے ملواتا ہے۔ مجھے میری خوبصورتی اور بدصورتی دکھاتا ہے۔ خاموشی کی زبان میں سمجھاتا ہے، بال ایسے نہیں ایسے بنا لو، ایک آنکھ میں کاجل ہلکا ہے اور ایک میں تیز ہے۔ سرخی پھیلی ہوئی ہے ٹھیک کر لو۔ یہ رنگ تو تمہارے لیے بنا ہے۔ یا ایسے رنگ نہ پہنا کرو عجیب لگ رہی ہو۔ جھمکے نہ پہنو بالیاں پہن لو، اچھی لگو گی۔ اور ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو میرے اور آئینے کے درمیان ہوتا ہے۔ اسی لیے مجھے آئینے اچھے لگتے ہیں، دوست لگتے ہیں۔ اپنا آپ لگتے ہیں۔ جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ اور جڑتے نہیں، اگر جوڑ بھی لیے جائیں تو دراڑ ہمیشہ رہتی ہے۔ طاہرہ کلثوم