بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد، کراچی
حکومت نے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے اسکولوں کے معصوم بچوں کو موسیقی کے ساز سکھانے کے لیے موسیقی کے اساتذہ بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم حکومتِ سندھ کے اس غیر اسلامی فیصلے کی پُر زور مذمت کرتے ہیں۔ تعلیمی مقامات پر غیرنصابی سرگرمیاں ضرور ہونی چاہیے لیکن موسیقی کو نصاب کا حصہ بنانا درست نہیں ہے۔ اسے کسی صورت نافذ نہیں ہونا چاہیے۔

اس سے قبل 2019ء، 2022ء میں بھی محکمہ تعلیم سندھ نے اسکولوں کی سطح پر موسیقی کی کلاسیں شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل کا مظاہرہ ظاہر کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں محکمہ تعلیم نے اس فیصلے کو مؤخر کر دیا تھا۔ مگر امسال اس فتنے نے پھر پوری قوت سے سر ابھارا ہے۔ اسے کچلنے کے لیے خصوصی دعاؤں کے اہتمام اور عوام کے بھرپور تعاون ، پُرامن مظاہروں کی اشد ضرورت ہے۔ اسلامی معاشرے میں نمودار ہونے والا ہر نیا فتنہ امتِ محمدیہ کو برائی کی دلدل میں دھنساتا جا رہا ہے۔ دور پُرفتن میں نئی نسل کی اچھی تربیت وپرورش ایک ہمہ وقت مسئلہ بن چکا ہے۔ ایسے نازک وقت میں سندھ حکومت کا حالیہ قدم جس کے مطابق تعلیمی اداروں میں موسیقی سکھانے کے لیے میوزک انسٹرکٹرز کی تعیناتی کا فیصلہ ہم سب مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
معزز قارئینِ کرام!
میوزک یا موسیقی کے سلسلےمیں بعض کتابوں میں ایک عجیب قصہ درج کیا گیا ہے، گو اس کی روایتی حیثیت کچھ ایسی نہیں ہے تاہم قرائن بتاتے ہیں کہ اس قصے میں جس بات کی نشاندہی کی گئی ہے، بالکل صحیح اور بجا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ابلیس کو دھتکار دیا تو ابلیس نے کہا: ”الٰہی! تو نے مجھے دھتکار تو دیا ہے۔ اب میرے کام کیا ہوں گے؟
فرمایا: ”شعبدہ بازی اور جادوگری۔”
پھر ابلیس نے پوچھا اور میر ا کلام؟
فرمایا: ”اشعار۔”
پھر اس نے پوچھا: میری کتاب؟
فرمایا: ”گودنا!“
پھر پوچھا اور میرا کھانا؟
جواب ملا: ”ایسا مردار جس پر خدائے واحد کا نام نہ پڑھا گیا ہو۔“
ابلیس معلون نے پھر پوچھا اور میرا پینا؟
فرمایا: ”ہر نشہ آور شے!“
پھر پوچھا اور میرا ٹھکانا؟
فرمایا: ”بازار۔“
پھر پوچھا میری آواز
کہا :گانا
کہا، میرا شکار؟
فرمایا: ”عورتیں۔“
موسیقی، گانا بجانا اور سننا شریعت میں حرام ہے، قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
ترجمہ: ”اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تاکہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گمراہ کرے اور اس کی ہنسی اڑائے ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔“(لقمان) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ "لهو الحدیث" سے مراد گانا ہے۔
اب ذرا اس ذاتِ گرامی محبوبِ ربی معزز و مکرم سیدی و مرشدی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی چند وہ باتیں ملاحظہ فرمائیں جن سے "رد موسیقی“ کے سلسلہ میں ہمیں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
*حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: ”گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔“ (مشكاة المصابيح-(3 / 43))
*حضرت اشعری فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ: ”میری امت میں کچھ لوگ ہوں گے جو بدکاری، ریشم، شراب پینے اور گانے بجانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کریں گے۔“ (بخاری)
*پیارے رسولﷺ نے فرمایا کہ: ''مجھے دو احمقانہ اور بد نہاد آوازوں سے منع کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک آواز گانے، شغلِ بے قابو اور شیطانی مزامیر کی آواز ہے۔'' (ترمذی، حدیث حسن)
آپﷺ نے فرمایا کہ: "میں گانے باجے کے آلات توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔" یعنی آپﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد گانے باجے کو ختم کرنا ہے۔
*حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں ایک جگہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ایک طرف ہوکر چلنے لگے، دور ہو جانے کے بعد مجھ سے کہا :”اے نافع! کیا تم کچھ سن رہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کان سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں رسولﷺ کے ساتھ جارہا تھا، نبئ کریمﷺ نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا جیسا میں نے کیا۔“ (رواه أحمد و أبوداود".)
ان دلائل سے یہ بات واضح ہوئی کہ موسیقی سراسر حرام ہے۔ اور یہ ساری تمہید فی زمانہ اس موئی موسیقی کے رائج کرنے کی نفی میں باندھی گئی ہے جو دور نبویﷺ میں مروج تھا نہ کہ اس دور کی روایت ہے جو اب نام نہاد موسیقی کے نام پر ہلا مچا رہا ہے۔ پاک دَور میں اس کی شکل ''شعر گوئی'' کے قریب تھی اور اگر دَف یا کوئی ساز بھی ساتھ تھا تو وہ بھی حد درجہ سادہ ہوتا تھا۔ یقین کیجئے! اللہ والے اپنے طبعی انقباض کی دوا آسمانی نسخۂ شفا سے کرتے تھے۔ یعنی نغمہ وسُرور کے بجائے تلاوتِ قرآن، نماز اور ذکرو ثناء سے کیا کرتے تھے، کیونکہ جس ذات پاک کے قرب و وصال کی تڑپ ان کو بےچین رکھتی تھی۔ اسی پاک ذات کے کلام، عبادت اور اس کی حمدو ثنا میں وہ قلبی سکون اور چین پاتے تھے۔ ایشیا ہیومن رائٹس کمیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سیکنڈری اسکولوں کے طلبہ نے اپنا آدھا سال بغیر درسی کتب کے گزار دیا ہے، درسی کتب کی عدم فراہمی کے نتیجے میں طلبہ نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ سرکاری اسکولوں میں سائنسی آلات کا فقدان ہے۔ استاتذہ کی کمی ہے اور جو اساتذہ موجود ہیں ان کی قابلیت و صلاحیت دور جدید کے مطابق نہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پانچ ہزار سے اساتذہ کی تعداد ایسی ہے جنہیں گھوسٹ ٹیچرز کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ وہ ٹیچرز ہیں جن کی تنخواہ اور واجبات سرکاری خزانے سے ادا ہو رہے ہیں لیکن ان کا عملاً کوئی وجود نہیں۔ 49 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں میں سے پانچ ہزار اسکول فنکشنل نہیں۔ یا وہ وڈیروں کے اصطبل ، اوطاق یا گودام بنے ہوئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد 29 لاکھ ہے لیکن اس تعداد کے علاوہ 40 فیصد بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے یعنی وہ اسکول میں eroll نہیں ہیں۔ سندھ کے 47 فیصد اسکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک ٹیچر موجود ہے۔ ان 29 لاکھ بچوں کے لیے ناقابل استعمال کلاس رومز کی تعداد 76 ہزار ہے ،ہر سال تعلیم کے بجٹ میں مناسب ترین اضافہ کیا جاتا ہے لیکن کرپشن کی وجہ سے وہ سارا بجٹ ضائع ہو جاتا ہے۔
80 فیصد اسکولوں میں بنیادی سہولیات یا ضروریات کی کمی ہے۔ ان بنیادی ضروریات میں پینے کا صاف پانی، چار دیواری، بیت الخلاء ، بجلی اور بیٹھنے کے لیے مناسب فرنیچر شامل ہے جو اسکولوں کی ایک بڑی تعداد میں موجود نہیں۔ بچوں کی ان شکایات کے سبب والدین بھی اسکول بھیجنے میں دلچسپی نہیں لیتے بلکہ وہ بچوں کو کسی جگہ کام پہ بٹھا دیتے ہیں اور غربت کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ بچے بھی ان کے لیے کچھ آمدنی کا ذریعہ بنیں۔
ستم ظریفی یعنی مرے ہوئے پہ سو درے نصاب کی بار بار تبدیلی ، اساتذہ کی رہنمائی کے لیے کسی قسم کی تعلیمی ورکشاپس کا منعقد نہ کیا جانا ، سیاسی بنیادوں کے اساتذہ کی بھرتی اور پورے صوبے میں نقل کے بڑھتے ہوئے رجحان نے تعلیمی نظام تباہ کر دیا ہے حکومت کو چاہیے کہ ان ایشوز پر فوری توجہ دے۔ اور موسیقی کے اساتذہ بھرتی کرنے کی بجائے ان تمام مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ دے۔
ان تمام حقائق و دلائل کے تناظر میں موسیقی موسیقی کا راگ الاپنے والے اپنی مذہبی، روحانی،اخلاقی، جسمانی اور نفسیاتی حالت کا بغور جائزہ لیں، اپنا محاسبہ کریں اور ایمانداری سے بتائیں کہ قانونِ خداوندی کی علانیہ حکم عدولی کرنے کے بعد کیا آپ خود کو روز محشر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عدالت میں کھڑے ہونے کے قابل پاتے ہیں؟