بیگم صاحبہ چلا رہی تھیں :”پکڑو پکڑو! ارے یہی تو ہے وہ نامراد جو میرے فالسئی رنگ کے جوڑے کا ستیا ناس مار گئی ۔
ام محمد سلمان
"یا اللّٰہ! کتنی زور سے چلاتی ہیں یہ آج کل کی لڑکیاں! دل دہلا کے رکھ دیا میرا ۔۔۔۔ دیکھو تو سہی کیسے دھڑ دھڑ کیے جا رہا ہے، قابو میں ہی نہیں آ رہا۔ "وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے گہری گہری سانس لینے لگی۔
"توبہ ہے! ذرا سا باورچی خانے میں ہی تو گئی تھی، بس ذرا پھدک رہی تھی۔ سوچا تھا کچھ بچا کھچا ہوگا تو اپنا بھی پیٹ پوجا کر لوں گی اور بچوں کے لیے بھی لیتی جاؤں گی۔ مگر نہیں۔۔ اس لڑکی نے مجھے دیکھتے ہی وہ دھمال ڈالی کہ پورا گھر اکٹھا ہو گیا۔ اِدھر کود اُدھر پھلانگ ۔۔۔ توبہ توبہ لڑکی ہے یا چھلاوہ ۔۔۔! پاؤوں میں تو گویا بجلی بھری تھی۔ کوئی پوچھے ذرا اس گز بھر کی چھوکری سے! کہ بی بی میں تمہارے پاؤں کے انگوٹھے بھر معمولی سی چوہیا ہوں کوئی دہشت ناک درندہ تو نہیں جو تمہیں چیر پھاڑ کے رکھ دیتا۔ اور تم نے یوں سیاپا ڈال دیا پورے گھر میں! بڑی مشکل سے جان بچا کے بھاگی ہوں بھئی۔۔۔ اللّٰہ اللّٰہ!! "
"اے میں ننھی سی چوہیا بھلا کسی کا کیا بگاڑ لیتی! کبھی کبھار باورچی خانے کا رخ کر لیتی ہوں کہ چلو کچھ کھانے پینے کو مل جائے گا۔ ہاں بس باورچی خانے میں گھوم پھر کے ذرا پاؤں سیدھے کرنے کے لیے کمروں کا بھی چکر لگا لیتی ہوں۔ تو یہ سب گھر والے میرے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں۔ جو ہاتھ لگے اٹھا کے دے مارتے ہیں۔ مجھے گھر سے بھگا کے ہی دم لیتے ہیں ۔ اور میں اکیلی تھوڑی ہوں! پاس کے گھروں سے تین چار چوہیاں اور بھی آتی ہیں یہاں۔ اب ظاہر سی بات ہے وہ آکے صوفوں پہ تو براجمان ہونے سے رہیں۔ کونے کھدروں میں ہی پھدکتی پھریں گی نا!! آخر کو چہل قدمی کرنے آئی ہیں فٹنس کے لیے۔۔۔! شیخ صاحب کی بیگم کی طرح تھوڑی ہیں کہ اپنا عظیم الجثہ وجود لے کے صوفے میں دھنس جائیں اور چار گھنٹوں سے پہلے اٹھنے کا نام نہ لیں۔ ارے بھئی زندگی چلتے پھرتے رہنے سے اچھی گزرتی ہے۔ پوستیوں کی طرح پڑے رہنے سے بیماریاں ہی لگتی ہیں۔ لیکن یہ بات موٹی بیگم کو کون سمجھائے ۔ "
"اس دن بھی میں گھر کے پچھواڑے والے بل میں آرام کررہی تھی کہ بھوک ستانے لگی۔ بڑی بیگم الماری کھولے کھڑی تھیں تو میں بھی چپکے سے گھس گئی کہ چلو کونے میں رکھے پستے بادام کھا لوں گی۔ مگر نہیں۔۔۔ آج تو پستے بادام کی تھیلی ہی غائب تھی۔ بڑی کائیاں ہے یہ بڑی بیگم بھی۔ چھپا کر رکھ دی ہو گی کہیں کہ میرے منہ نہ پڑ جائے۔ توبہ! نیت خراب کہیں کی! ابھی میں الماری میں ادھر ادھر گھومنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ بڑی بی کھٹ سے دروازہ بند کر کے چلی گئیں۔ "
"اے لو! میں نگوڑی قسمت کی ماری تو بڑی بُری پھنسی۔ یہ کوئی پرانے زمانے کا ٹین کا صندوق تھوڑی تھا جو کسی کونے کھانچے سے نکل بھاگتی۔ آئے یہ تو بھئی چیڑ کی لکڑی سے بنی بڑی مضبوط الماری تھی۔ میری تو بیٹھے بٹھائے کم بختی آ گئی، سٹی گم ہو گئی۔ "
"پہلے تو چاروں طرف کدکڑے لگاتی پھری کہ چلو کوئی راہ ملے، لیکن نہیں ملی۔ اب بھلا بتاؤ میں غصے میں اور کیا کرتی ۔۔۔ بیگم کا چکن کاری والا سوٹ اور جارجٹ کا دوپٹا خوب دانتوں سے چبایا۔ کہیں کوئی جگہ نہ چھوڑی۔ ہر جگہ چھید کر دیے۔ پتا تو چلے بڑی بیگم کو کہ مجھ سے ٹکر لینے کا انجام کیا ہے۔" ننھی چوہیا نے سینہ پھلایا
"ہمممم! اب نکلوں کیسے یہاں سے؟ کپڑے کتر کتر کے کب تک گزران ہوگی بھلا ۔۔۔! آخر کو ایک نہ ایک دن تو اس قفس سے باہر نکلنا ہی ہے۔ مگر کیسے ۔۔۔ ؟ "چوہیا نے سر کھجایا ۔
"پھر ایک ترکیب سمجھ آئی۔۔۔ میں نے زور زور سے اپنے دانت کٹکٹانے شروع کر دیے اور بار بار بھاگ کے الماری کے دروازوں سے ٹکرانے لگی۔ ایک نیا سوٹ جو کڑک سے شاپر میں پیک تھا اس پر خوب اچھلی کہ کڑ کڑ کی آواز پیدا ہو اور کوئی الماری کھولے تو اس قید سے میری جاں خلاصی ہو ۔ "
"آخر کو ترکیب کام دکھا ہی گئی اور بڑی بیگم کی بہو کو جو انھیں دودھ کا گلاس دینے آئی تھیں، الماری میں کچھ کھٹ پٹ محسوس ہوئی۔ جیسے ہی انھوں نے دروازہ کھولا، میں بجلی کی تیزی سے باہر نکلی اور بھاگ گئی۔ اس دن کسی کے ہاتھ نہ لگی ۔ سب کے چپل جوتے ڈبے اور کھلونے ۔۔۔ کچھ بھی نشانے پر نہ لگا۔ آخر کو میں چوہیا رانی پھرتی میں بھلا مجھے کون ہرا سکتا ہے۔ "
"پھر اگلے دن میں نے خود بڑی بیگم کے کمرے کا رخ کیا ۔۔ چلو دیکھوں تو سہی انھیں سوٹ کترنے کا پتا چلا کہ نہیں! وہ چشمہ لگائے بیٹھی تھیں اور مانو میرے ہی انتظار میں تھیں۔ مجھ پہ نظر پڑتے ہی چلائیں۔۔۔ "
”پکڑو پکڑو! ارے یہی تو ہے وہ نامراد جو میرے فالسئی رنگ کا جوڑا کھا گئی کم بخت ماری۔ مارو اسے جانے نہ پائے۔“ اور بڑی بیگم کے پوتے کو اور کچھ نہ ملا تو اپنی باٹا سروس کی چپل اتار کے اس زور سے میری طرف پھینکی کہ اگر لگ جاتی تو دل گردے کلیجے سب وہیں موقع پر ہی پھٹ جاتے۔ وہ تو شکر ہے پیدا کرنے والے کا جو میں نے پھرتی دکھائی اور چپل کے خطرناک وار سے بچ گئی۔ ورنہ چیل کوے آج خوب میری دعوت اڑا رہے ہوتے۔
٭٭٭٭
اس دن کیا ہوا کہ بڑی بیگم کی چھوٹی بہو اپنے بچے کا فیڈر بنا رہی تھی۔ اتنے میں بچے کے رونے کی آواز آئی تو وہ جلدی میں دودھ کا ڈبا کھلا ہی چھور گئی۔ اب یہ بتاؤ کہ دودھ کا ڈبا سامنے کھلا پڑا ہو تو کون کافر ہے جس کا جی نہ للچائے گا! سو میرا بھی للچا گیا۔ اور کود گئی ڈبے کے اندر۔ خوب جی بھر کے کھایا۔ اور جیسے ہی چھوٹی بہو کے آنے کی آواز سنی، چھلانگ مار کے یہ جا وہ جا ۔ پیچھے سے بہو بیگم چلانے لگیں کہ ہزاروں روپے کا ایک دودھ کا ڈبا آتا ہے اور یہ منحوس چوہیا پورا ڈبا خراب کر گئی۔
اب مجھے یہ بتاؤ کہ ہم بھی تو اللہ میاں کی مخلوق ہیں نا ۔۔ تو ہمیں بھی کھانے پینے کو چاہیے ہوتا ہے۔ اب ضروری تھوڑی ہے کہ ہم زندگی بھر تمہارا بچا کھچا کھانا اور پیاز ٹماٹر ہی کھائیں گے۔ کبھی تو ہمارا بھی جی کرتا ہے نا کہ راشن کے ڈبے میں گھس کر اپنی مرضی سے دالیں اور چاول کھائیں۔ بڑی بیگم کے پستے بادام کھائیں۔ آخر کو ہمارا بھی دل ہے۔ لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔
ایک دن چھوٹے صاحب گھر پر نہیں تھے۔ ہم تینوں چوہیاں ان کے کمرے میں گھس گئیں اور کتابوں، کاغذوں کو کتر کتر کے ڈھیر لگا دیے۔ رات چھوٹے صاحب واپس آئے تو خوب چیخے چلائے ۔۔۔ مگر اب کیا فائدہ! بعد از مرگ واویلا ۔۔۔ مجھے خوب ہنسی آئی۔
ذرا سی کتابیں کتر ڈالیں تو کیا ہوا! بھئی ہمارا بھی تو مستی کرنے کو جی کرتا ہے نا۔۔۔ اب ہم پلے لینڈ تو جانے سے رہے۔ سو گھر میں ہی کریں گے جو کریں گے۔ ویسے بھی ہم چوہوں کی اس برادری سے ہیں جو گھروں میں رہنا پسند کرتی ہے۔
بس یوں ہی سیدھی سادی سی زندگی چل رہی تھی کہ ایک دن یہ حادثہ ہو گیا.....
ہوا کچھ یوں کہ ہاٹ پاٹ کا ڈھکن تھوڑا سا کھلا رہ گیا۔ میں نے سوچا مدتیں ہو گئیں گندم کھائے ہوئے ۔ چلو دو چار لقمے لے لیتی ہوں۔ ہاٹ پاٹ میں چار پانچ روٹیاں رکھی تھیں۔ میں نے سب میں سے تھوڑی تھوڑی کتر ڈالی۔ لیکن یہ میری ذرا سی شرارت بھی ان لوگوں سے برداشت نہ ہوئی اور جھاڑو لے کر میرے پیچھے بھاگے۔ مجھے اس قدر دوڑایا کہ اللّٰہ جھوٹ نہ بلوائے کم از کم بھی اٹھارہ سو کیلوریز جل گئی ہوں گی میری۔ اتنی بھاگ دوڑ کرنے کے بعد ننھی منی جان میں بچا ہی کیا۔ سو دو دن تک اپنے پیارے چوہستان یعنی بل میں آرام کیا۔ بچے ہاتھ پیر دباتے رہے۔ جو کچھ جمع شدہ تھا وہی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔
دو دن بعد بڑی امید لے کر نکلی تھی کہ آج کچھ اچھا کھانے پینے کو ملے گا۔ برابر والی بھوری چوہیا کو بھی ساتھ لے لیا۔ اور وہی ہوا ۔ باورچی خانے میں گھستے ہی ایک طرف نظر پڑی تو تلی ہوئی مچھلی کا ٹکڑا پڑا تھا دوسری طرف بھی کچھ کھانے کی چیز تھی، بھوری چوہیا اس پہ جھپٹی اور میں مچھلی کے ٹکڑے پر ۔۔۔۔ لیکن ہائے شامت! یہ کیا کر دیا ظالموں نے ۔۔۔ اپنی بہادری اور پھرتی کے زعم میں ہم نے یہ تو دیکھا ہی نہیں تھا کہ یہ نت نئے کھانے دستر خوان پر نہیں بلکہ شکنجے میں لگے تھے۔ جیسے ہی منہ مارا اس کے کنڈے نے ہمیں کھٹ سے جکڑ لیا۔ ہم دونوں بری طرح پھنس چکی تھیں۔ ایک دوسرے کی طرف بے یقینی اور درد سے دیکھا۔ کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی، دل پھٹ گیا، گردے فیل ہو گئے ۔۔۔ اور لبوں پہ دم آگیا۔ مگر مرنے سے پہلے میں یہ دیکھ چکی تھی کہ دو تین جال ابھی اور بچھے ہوئے تھے جو یقیناً نمو اور شالی کے لیے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر میں وہ بھی یہاں آئیں گی اور ظالموں کا شکار ہو جائیں گی۔ ۔۔۔۔
ہائے ہائے ۔۔۔ کوئی ہمیں بچائے ان سنگ دل انسانوں کے شر سے ۔۔۔ ذرا سی شرارت ہی تو کی تھی! ایسا کیا کیا کہ جان ہی لے لی کم بختوں نے۔
اے نمو! اے شالی! اے بھوری! ۔۔۔ ادھر دیکھو میں مر رہی ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر میں تمہارا بھی یہی انجام ہونے والا ہے۔ کوئی میرے بچوں تک میری آخری وصیت پہنچا دے کہ بچا کھچا کھانے پر ہی اکتفا کرنا اور کبھی ان ظالم انسانوں کی الماریوں میں گھس کر ان کے کپڑے، کتابیں اور کاغذات خراب مت کرنا ورنہ یہ یوں ہی دھوکے سے مار ڈالیں گے تمہیں۔۔۔ ارے کوئی ہے جو میرے بچوں تک میری وصیت پہنچائے۔۔۔ کوئی ہے؟ ارے کوئی ہے؟
اے لو ۔۔۔ میرا دم نکل رہا ہے سانس اکھڑنے لگی۔ ہائے میں مر گئی ربا ۔۔۔۔۔!!!