ارسلان اللہ خان
ہم نے ہر حال میں اے یار ہیں کھائے برگر
غم بھی کیا کیا نہ اُٹھائے ہیں برائے برگر
ایسی محفل سے ہم اُٹھ کر ہی چلے جاتے ہیں
جس جگہ کوئی بھی ہم کو نہ کھلائے برگر
آج تو اپنی لُگائی سے بھی میں لڑ بیٹھا
سب ہڑپ کرگئی جتنے تھے چھُپائے برگر
جو بھی بیمارہو ہم اُس کودُعا دیتے ہیں
اور نُسخہ یہ بتاتے ہیں وہ" کھائے" برگر
کیسا یہ دوست ہے بس چائے پہ ٹرخاتا ہے
اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ لے آئے برگر
جب سے پھیلی ہے وبا فرقتِ برگر ہے فقط
ہم تڑپتے ہیں کہیں جو نظر آئے برگر
اُس کو بریانی سے فُرصت ہی نہیں ملتی ہے
جو میرے واسطے اک روز بنائے برگر
نہ نہاری، نہ کڑھائی،نہ پُلاؤ نہ حلیم
ہم تو کچھ بھی نہیں کھائیں گے سوائے برگر
ارسلاں ؔ! وہ تو ہے نازک نہ بناپائے گی
فوڈ پانڈا سے سہی ، کاش منگائے برگر
شاعر: ارسلان اللہ خان
کراچی