گل ارباب

” سنو جانو ! صبحِ  سے انتظار کر رہی ہوں  کہ تم  کب اپنی میٹھی آواز سناؤ گے ؟ “

مراد نے واٹس ایپ میسج پڑھتے ہی ڈیلیٹ کر دیا

” مراد ! دیکھیں نا  منے کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے اور حکیم صاحب  والا  چورن بھی ختم ہے ۔“ اس کی بیوی شگفتہ نے   جو اسم با مسمی بالکل بھی نہ تھی ، روتا ہوا منا اس کی گود میں لٹا تے ہوئے کہا تو مراد کا منہ جو شانو کے میسج سے شیرے میں تر ہوا ہی تھا کڑوا زہر ہوگیا ۔

” جب دیکھو منحوس کو کوئی بیماری لگی ہوتی ہے، گھر میں  قدم رکھتے ہی ماں کی بک بک اور بچے کی جھک جھک آگے بڑھ کر استقبال کرتی ہے ۔“ وہ منے کو تھپکتے ہوئے بے زاری سے سوچ رہا تھا ۔

” منے کے گلے میں شائد سائرن فٹ تھا اور یقینا یہ سائرن کسی ایمبولینس سے اتارا گیا تھا جو چیخ چیخ کر لوگوں کو رستے سے ہٹا نے کے کام آتا تھا ۔

” تو بھی مجھے رستے سے ہٹا کر چھوڑے گا الو کے پٹھے ۔“

منے کو شاید ابھی الو کے پٹھے کا مطلب نہیں آتا تھا، اس لیے رونے کی رفتار میں تیزی نہیں آئی ۔۔۔یہ بھی ممکنات میں سے تھا کہ  مزید تیزی کی گنجائش نہ بچی ہو ۔

” مراد لائیں آپ سے نہیں سنبھالا جائے گا “

دو سال کی بیاہی منے کی اماں  کے کپڑوں سے  اٹھتی ادرک لہسن کی بساند  پسینے کی بدبو سے مل کر کچھ زیادہ ہی دو آتشہ ہوچکی تھی اسی لیے تو مچھر مکھیاں بنا سپرے کے  اس بدبو کی کاک ٹیل کے زہر کے زیر اثر ان سے   دور رہتی تھیں ۔

” کیا سوچ رہے ہیں مراد ؟“

اس نے منے منحوس کو چپ کرا ہی لیا تھا تبھی تو اسے سوچوں میں گم دیکھ کر سوال پوچھ لیا تھا

” اگر تجھے بتا دوں کہ کیا سوچ رہا ہوں تو تیرا ہارٹ فیل ہو نہ ہو دماغ کی رگ پھٹے نہ پھٹے  گردے ضرور فیل ہو جائیں گے ۔“  بے چاری  گردے میں درد کی شکایت اکثر شوہر کے سامنے  کرتی  رہتی تھی ۔

” مجھے ایک ضروری کام سے جانا تھا، اس لیے اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔“ اس کا منہ بن گیا

” کبھی تو میرے پاس بیٹھ کر دو  میٹھی باتیں بھی کر لیا کریں ۔“

اس نے بہت دنوں سے دل میں چھپایا  شکوہ شوہر  کے سامنے رکھ دیا تھا

” تم منے کو دیکھو، میں شام تک واپس آتا ہوں “ وہ  اس کا شکوہ سراسر نظر انداز کر کے نکل گیا تھا  ۔

٭٭٭٭

” کتنے کٹھور ہو آپ ۔۔۔ اور میرا   انتظار کتنا بے قیمت ہے آپ کی  قیمتی نظروں میں ۔“ مراد نے اپنی دلی مراد کو جی بھر کر دیکھتے ہوئے اور  اس کے ریشمی  لباس سے اٹھتی خوشبو کے جھونکے کو اپنے اندر اتارتے ہوئے سوچا ” تمہیں کیا خبر کہ

میں تشنہ لب ہوں اور تم میٹھا پانی

زندگی مشکل تر ہے اور تم ہو  آسانی

” کیا کروں بیوی اور بچے کے وہی مسئلے مسائل ،جان چھڑانا مشکل ہوگئی ہے ۔“

 وہ خواب ناک لہجے میں بولی:

” جانو! تمہاری زندگی صرف کمانے اور ان  دونوں پر  خرچ کے لیے ہی وقف ہوچکی ہے ۔۔۔ یہ تمہاری بیوی ذرا دل نہیں دکھاتی تم پر ۔۔۔دیکھو اپنے لیے بھی وقت نکالا کرو ۔۔۔تم فقط پیسوں کی مشین نہ بنو ورنہ یہ لوگ تمہیں اندر سے خالی کر دیں گے ۔“

وہ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے جو کہہ رہی تھی وہ سیدھا اس کے دل میں اتر رہا تھا

” گھر میں گھستے ہی اپنے رونے شروع کر دیتی ہوگی اور بیویوں  کی یہ بات  مجھے بہت بری لگتی ہے کہ دروازہ کھولتے ہی ہاتھوں کو دیکھنے لگتی ہے جس دن ہاتھ میں شاپر ہوتے ہیں اس دن مسکرا کر دیکھتی ہے اور جس دن ہاتھ خالی ہوں وہ دن عذاب جیسا بنا دیتی ہے بے چارے  شوہر کے لیے ۔۔۔۔ میری امی بھی ایسی ہی تھیں، اسی لیے تو ابو نے دوسری شادی کر لی تھی ۔“  اس کی باتیں سونے کے قلم سے لکھنے کی تھیں، وہ اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا جس کی مہربانی سے  ایسی محبوبہ  کا تحفہ ملا تھا  ” تو پھر کچھ سوچا تم نے ؟“ 

” یار ابھی بہت وقت پڑا ہے ہم دونوں کبھی نہ کبھی تو ایک ہو  ہی جائیں گے ۔“ وہ جانے کس کو بہلا رہا تھا  شانو کو یا خود کو ؟ “ اگلے ہی پل وہ اس کے بالکل قریب  آکر بیٹھ گیا ۔

” شگفتہ کو طلاق دو گے ناں ؟“ اس نے نفی میں سر ہلایا  ” ابھی وقت لگے گا اس میں۔۔۔ منا ذرا سا بڑا  تو ہوجائے “  شانو اسے گھورنے لگی

” سیدھی سچی  بات کرو میں کسی دھوکے میں نہیں رہ سکتی “  اس کی آنکھوں میں نمی تھی

”  ارے جان من! اگر تم  کہتی ہو تو ابھی طلاق دے دیتا ہوں  منے کو تم بڑا کر لینا  “ وہ اپنے   ناز و ادا سے سیدھا اس کے دل پر وار کر رہی تھی اس کے اصرار نے مراد کو مجبور کر دیا کہ وہ اب نکاح کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں دیر نہ کرے

               ٭٭٭٭٭٭

 

” جانو کب آؤ گے صبحِ سے ملنے کی تیاریاں اور امید بھری آنکھوں میں دید کے خواب سجائے تمہاری راہ تک رہی ہوں ۔“  مراد نے پھولے ہوئے پیٹ اور پیلے زرد چہرے والی ادرک لہسن کی مہک میں بسی  دوسری بیوی  شانو کی طرف بے زاری سے دیکھتے ہوئے چپکے سے  گلنار بانو  کا  میسج پڑھ کر  ڈیلیٹ کر دیا