تحریر: ڈاکٹر جویریہ سعید
انتخاب : مہرا النساء ڈی آئی خان
آج کل کی بلیاں اس قدر مٹیریلسٹک ہوگئی ہیں کہ کیا بتاؤں؟ کھانے کے سوا انہیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ ایک ہمارا زمانہ تھا۔ پاکستان کی جوگی بلیاں، فاقہ زدہ، ہڈیوں پر فر والی کھال منڈھی ہوئی۔ گلیوں میں پھرا کرتی تھیں۔ فاقہ کشی کے سبب ، نرم فر جھڑ کر استعمال شدہ ٹوتھ برش کے ریشوں جیسا ہوچکا ہوتا تھا ۔ چہرے پر ایسی ملاحت، شوق اور حسرت ہوتی تھی۔ منہ اٹھا اٹھا کر تاکا کرتی تھیں کہ کوئی کھانا دے دے ۔
سارا سارا دن رزق حلال و حرام کی فکر میں لوگوں کے باورچی خانوں، قصابوں کے تھڑوں، اور بدبو دار مچھلی مارکیٹوں میں بے گار کرتی تھیں۔ کسی کی پتیلی سے دودھ پی کر ہٹیں ، تو خاتون خانہ کی فلک شگاف چیخ کے ساتھ چپل پڑتی، قصاب کے بغدے اور مچھلی فروش کے چاقو کا خوف ہر وقت طاری رہتا۔ محنت سے خون پسینہ کرکے حصول رزق کی تگ و دو کسے کہتے ہیں، یہ ان مصروف بلیوں سے پوچھتا کوئی۔ آرام کرنے کو کوئی جگہ میسر نہیں ہوتی۔ ادھر کسی ٹھیلے یاکسی گاڑی کے نیچے پیر پھیلا کر دم سمیٹی اور ادھرکسی گلی کے کتے نے دانت نکوس کر نیند برباد کردی۔ وہاں سے بھاگ کر کسی کے دالان میں جھپکی لینا چاہی تو کسی بچے نے دم پکڑ کر گھسیٹ لی۔ سخت گرم دوپہروں میں کسی کے صحن میں پانی کی ٹنکی کی پیچھے سائے اور ٹھنڈی زمین پر بستر لگایا تو گھر کی خاتون نے شور مچا دیا کہ دیکھنا کہیں یہ موئی ہمارے گھر میں اپنا گھر نہ بنالے۔
عورت ہونے کے ناتے، ان بلیوں کی عزت نفس اور پرائیویسی برباد ہونے کا غم بھی میں سمجھ سکتی ہوں۔ جہاں کسی کے صحن سے سہج سہج گذریں، گھر کی عورتوں نے مردوں تک کے سامنے باتیں بنانا شروع کردیں۔ “دیکھ لینا، دھیان رکھنا، بچے نہ دے دے۔ دے دیے تو جان چھڑانا مشکل ہوجائے گی۔”
بے چاریاں دوپٹے کا پلو منہ میں ٹھونسے سسکیاں روکتے وہاں سے بھاگ جاتیں ۔ عورتوں کے حقوق پر آواز اٹھانے والی عورتیں تک، نئے بلونگڑوں کو دودھ پلاتی بلی کو دیکھ کر آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتیں۔
“ارے! اس کو کھانا کیوں دیا؟ اب دیکھ لینا ، یہی ٹک جائے گی۔ ارے نکالو، کہیں دور پھینک آؤ بچے۔” بے چاری کے آنسو! دل پر گرتے۔ اور ڈبڈباہئ ہوئی نگاہوں سے میاؤں میں کہتی!
“اگر ایک عورت بھی عورت کا غم نہیں سمجھے گی تو غیر سے کیا گلہ کریں؟”
کیا کیا کہیں صاحب ! کیا زمانہ تھا؟ اب تو حال یہ ہے کہ بازار سے ان کے لیے کیٹ فوڈ لے کر آؤ تو اس کے بعد بھی گھر کے پکے کھانے کا اصرار کرتی ہیں۔ اب کچھ ہمیشہ کی منفی سوچ رکھنے والے کہیں گے کہ کیٹ فوڈ عیاشی اور فضول خرچی ہے۔ ارے صاحب! گھر کا سودا، گوشت وغیرہ اس قدر مہنگا ہے ، کہ یہ فوڈ ہی سستا پڑتا ہے۔ مگر انہیں اسی مہنگے گھر کے کھانے کی لت لگی ہے۔ کچھ نہیں چھوڑتیں، روٹی، پراٹھا تک کھاتی ہیں۔ اپنا کھانا کھا لینے کے بعد ہمیں کھاتا دیکھ کر باقاعدہ ہمارے ہاتھ اپنے مٹنز والے ہاتھوں سے تھپتھپا کر گذارش کرتی ہیں کہ انہیں بھی بریانی، پاستا، پراٹھے، ڈبل روٹی میں سے کھلایا جائے۔
ایک روز ہم نے سوچا جو ہاٹ ڈاگ بچوں نے نہیں کھائے اور بچ گئے ان کو دے دیتے ہیں تو محترمہ نہ جانے کیا سمجھ کر اس کو ہاتھ تک نہیں لگارہی تھیں۔ پھر ہم نے اسے توڑ کر نوالے بنا بناکر کھلایا تو ہمارے ہاتھوں سے نوش جان فرمایا۔حد ہے! فاسٹ فوڈ نہیں کھائیں گی، گھر کے کھانے پر اصرار ہے۔ ارے بھائی ! ہم اپنے لیے پکا لیں تو بڑی بات، ان کو بھی تازہ روٹی ڈال کر کون کھلائے؟
ویسے ہم تو گلی میں چھوڑ دیتے ہیں کہ جاؤ بی بی، ہم کھانا دیتے ہیں ، مگر اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے کا لطف بھی اور ہے، اس سے تمہاری حیوانی شخصیت کا وقار اور خود انحصاری بھی نشوونما پائے گی اور تمہاری مینٹل ہیلتھ بھی بہتر رہے گی۔
لہٰذا محترمہ دن رات گلی میں پھرنے، درخت پر چڑھنے، چھپکلیاں وغیرہ پکڑنے میں مصروف رہتی ہیں ۔ بلکہ کبھی کبھی ہم سے خوش ہوں تو ہمارے لئے بھی بڑے شوق سے چھپکلیاں پکڑ کر لاتی ہیں۔پیش کرتے وقت ان کے چہرے پر کچھ محبت اور کچھ غرور کے اثرات ہوتے ہیں جیسے کہہ رہی ہوں۔
“آپ لاکر کھلاتی ہیں تو احسان ہم بھی نہیں رکھتے۔ یہ لیجیے۔ عیش کیجیے ۔ کیا یاد کریں گی۔” ہم نے تو اپنی بلی کی پھر بھی اپنے تئیں اچھی تربیت کرنے کی کوشش کی ہے، مگر دوسروں کی بلیوں کو دیکھتے ہیں ، تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ ایلیٹ گھرانوں کی سگھڑ اور کلچرڈ خواتین کی طرح ہم بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔ “توبہ توبہ! ان سے نہ اپنے بچے کی تربیت ہوسکی اور نہ بلی کی۔ لاڈ پیار میں بگاڑ دیا ہے”۔ ایک آدھ مرتبہ تو یہ پوچھتے پوچھتے رک گئے
“آپ کی بلی کا ائر ایٹ میں کون سا گریڈ آیا؟” خیر جو بھی ہو! قرب قیامت ہے۔ ایسی فربہ، نرم و ملائم گھنے فر والی بلیوں کو شان بے نیازی سے لوگوں کے غالیچوں پر پھرتا دیکھتے ہیں ، نہ چہرے پر حسرت ہے، نہ کھانے مانگنے کی التجا ہے، نہ قصائی کا خوف ہے، نہ کسی آئے گئے کی تمیز کہ سلام کرلیں ۔۔
ہمارا مطلب ہے کہ ذرا دیکھ کر میاؤں کردیں۔ نہ صاحب! ان اقدار و روایات پر تو فاتحہ پڑھ لیجیے۔ وہ شاعر نے کیا کہا ہے؟
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا !!