آئیے آئیے محترمہ ،" ہم نے پھر یاداشت پہ زور ڈالا کہ ہم نے خواب غفلت میں کوئی محبت نامہ تو قاصد کبوتر کی چونچ میں نہیں پکڑا دیا تھا جو چونچ میں فٹ نہیں بیٹھا اور ہمارے ہی آنگن میں گر گیا یا ابھی اس ناقص قاصد نے اڑان بھرنے کی سعی ناکام کی ہوگی
ارم رحمٰن لاہور
امن کے عالمی دن پر ہمارے گھر کہرام مچااور ہمارا نام لے کر زوردار طریقے سے پکارا گیا کہ "کہاں ہیں صاحبزادی صاحبہ !ذرا تشریف تو لائیے "
ہمارا نام جب بھی اتنے ادب سے لیاجاتا،ہے اس کا مطلب ہوتا ہے، ایک دھواں دار بے عزتی ہماری شدید منتظر ہے، اباجی کی مترنم آواز کی موسیقیت ہمارے سارے انجر پنجر ہلا کے رکھ دیتی ہے اور اس دن بھی یہ ہوا ،ہم آواز سنتے ہی فرماں بردار اولاد کی طرح چہرے پر انتہائی متانت سجائے دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترنے لگے لیکن پہلی سیڑھی سے ہی ٹانگیں کپکپانے لگیں کیوں کہ ابا حضور کے ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھا، ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں ایسالگاجیسے کوئی "نامہ بر "پکڑا گیا ،پھر ایک بجلی سی کوندی کہ ہم نے تو کبھی اپنی دوست کو خط نہیں لکھا تو ہاتھ میں کیا ہے ،" ابا میاں ہماری سست روی پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے فرمانے لگے : "آئیے آئیے محترمہ ،" ہم نے پھر یاداشت پہ زور ڈالا کہ ہم نے خواب غفلت میں کوئی محبت نامہ تو قاصد کبوتر کی چونچ میں نہیں پکڑا دیا تھا جو چونچ میں فٹ نہیں بیٹھا اور ہمارے ہی آنگن میں گر گیا یا ابھی اس ناقص قاصد نے اڑان بھرنے کی سعی ناکام کی ہوگی اور ابا جی نے اس کی چونچ سے چھین لیاہوگا، اس کے کون سے دانت ہیں جو کھٹے ہوتے ، اس نے منہ پھلا کر ابا جی کو دیکھاہوگا اور یہ جا وہ جا۔
ان سوچوں میں گم ہم آخری سیڑھی پر پہنچ چکے تھے
"یہ دیکھیے آپ کے کارنامے "۔ ابا جی بآواز بلند بولے
"جی کیا ہے " حلق سے آواز ایسے نکلی جیسے کنویں سے نکلی ہو ، "جو آپ تحریریں بھیجتی رہتی ہیں جگہ جگہ"" جملہ ادھورا چھوڑ دیا "اوہ ۔۔"سکھ کا سانس آیا
"جی جی" ۔۔۔بھیجی تھیں
ہم نے مسکرا کر کہا
کیوں کہ ہم ابا جی سے کیاکہتے کہ ان کی فی میل اولاداپنی تحریریں اخبار میگزین کے دیے گئے ہر پتے پر ہر متعلقہ میل کو ایمیل کرتی رہتی ہیں بلکہ ایک جگہ سے تو ترنت جواب بھی آگیا تھا "محترمہ ،ہم صرف ضرورت رشتہ کے اشتہار شائع کرتے ہیں " اب ہمیں پتا ہوتا تو کہہ دیتے
کہ بھائی جی،تحریر چھوڑیں تصویر تو رکھ لیں کیوں کہ
"تحریر کنندہ ہنوز دوشیزہ است "
اور شائع کی جگہ شوہر بھی چلے گا
خیر اباجی کے پاس موودبانہ کھڑے ہوگئے "کھولیے اسے "ابا جی بدستور اسی لہجے میں بولے جیسے بم سکواڈ میں ہوں "آپ کھول لیجیے " ہم نے آہستہ سے کہا اباجی نے فورا" اس کو احتیاط سے ایک طرف سلیقے سے پھاڑا "لیجیے دیکھیے
کہاں ہے تحریر "
لہجہ مسلسل تفتییش اور تشویش ناک تھا "جی بہتر "
اب ہم نے فہرست میں اپنا نام ڈھونڈا نظر ہی نہیں آکے دے رہا تھا کہ اچانک آخر سے تیسرے نمبر پر ہمارا نام اور تحریر شائع تھا 200 صفحات پہ مبنی رسالے میں ہمارا نام 190 صفحے پر تھا
یوں لگا جیسے ہم اپنا رزلٹ دیکھ رہے ہیں وہ بھی ہمیشہ نیچے سے ہی تیسرے چوتھے نمبر پہ ہوتا ۔۔جیسے تیسے ماسٹرز کی ڈگری تو لے لی تھی مگر میگزین والوں کو ہمارے ماضی کی رپورٹ کا کیسے پتہ لگا ،ہم متعجب ہوئے "جی یہ ہے "
ہم نے انگشت شہادت رکھتے ہوئے ابا جی سے کہا "اتنا آخر میں"
ابا جی نے شکایتی انداز میں کہا
ہم نے دل ہی دل میں سوچا کہ نام اور تحریر کم از کم رسالے کے اندر تو شائع ہوئی ہے شکر ہے
باہر کے صفحے پہ تو نہیں کہ
",ہم معذرت خواہ ہیں، آپ کی تحریر قابل اشاعت نہیں لکھنے کا معیار بدلیے یا
پھر اخبار بدلیے " اباجی نے پھر دہرایا "یہ کیا بات ہوئی اتنا آخر میں ۔۔۔" ان کا خیال تھا حمد باری تعالٰی اور نعت شریف اور منقبت کے بعد ہمارا نام نامی ہی لکھا ہوتا ۔۔۔ ہم دم سادھے کھڑے رہے اور ابا جی نے ایک ہی سانس میں افسانہ پڑھ ڈالا پھر اچانک اٹھے اور فرمایا "یہیں ٹھہرئیے "
ہم آتے ہیں اور پھر اچانک ایک ایک ہزار کے دو کڑکتے نوٹ ہمارے ہاتھ میں تھما دیے۔ اس وقت ہماری حالت دیدنی تھی لگ رہا تھا جیسے ہم ان سے ادھار مانگنے آئے ہیں یا چندہ۔۔
"نہیں نہیں اس کی کیا ضرورت ہے" ہم نے بھی رواروی میں کہنا مناسب سمجھا حالانکہ اشد ضرورت تھی
"رکھیے رکھیے آپ نے اچھا لکھا ہے " اور پھر سانس بحال ہوا
"اور کہاں کہاں تحریریں بھیجتی رہتی ہیں آپ" ابا جی پولیس میں نہیں تھے مگر ان کے تایا انسپکٹر تھے جینیاتی نہ سہی ددھیالی حوالے سے توسایہ پڑا تھا "جی ہر جگہ" ہم نے بھی فخریہ تین چار نام گنوا ڈالے بس غلطی سے پڑوسی ملک کا نام نکل گیا ہم نے کہا اور نماز پڑھنے کا کہہ کر بھاگ نکلے اور اپنے کمرے میں جاتے ہی نوٹوں کے نمبر نوٹ کیے تاکہ ابا جی واپس مانگ لیں تو یہ ہی واپس کریں کیونکہ ابا جی کی ڈائری میں نمبر درج ہوں گے اگر ہم نے اپنے پاس سے نوٹ دے دیے تو وہ سمجھ جائیں گے کہ مابدولت کچھ دولت رکھتے ہیں اور پھر وہ واپس یہ کہہ کر مانگ لیتے ہیں آپ کی امانت ہے جب چاہے مانگ لیجیے گا۔۔ اور اس کی نوبت کبھی نہیں آئی ہم شام کو بڑے اعتماد سے نیچے اترے تو پھر وہی آواز گونجی ۔۔۔ نام پکارا گیا
"جی فرمائیے "
سعادتمندی ہم پہ ختم تھی
انھوں نے ہماری طرف دیکھا تو ان کے چہرے کے تاثرات نامناسب سے تھے غصے اور پریشانی کے ملے جلے سے آثار ،پھر گویا ہوئے
"مت بھیجیے پڑوسی ملک میں کہیں کچھ غلط نہ ہوجائے , اور ملک نہیں کیا وہاں بھیجیں " دل چاہا کہہ دیں
"جی بالکل کمبوڈیا، تنزانیہ اور صومالیہ بہترین رہیں گے ہماری تحریروں کے لیے ہم نے حسب عادت کہا
"جی بہتر نہیں بھیجیں گے"
پھر اپنا جاہ و جلال کمرے میں جاکر اپنی آپا پہ نکالا کہ "سمجھا لیجیے سب کو، یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ساری دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اب اچھی تحریریں ساری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں اور ہم اچھا لکھتے ہیں ، اللہ اللہ کرکے ہماری کنڈلی سے شنی اور راہو کی دشا ٹلی ہے اور ہم سنکھٹ کے چکرویو سے نکلے ہیں ، اور اب راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے، تو براہ کرم ہماری کہکشاں کے راستے میں رکاوٹیں مت کھڑی کریں "
اباجی کی حالت تو ایسی تھی جیسے واہگہ بارڈر میں فوجیں اپنے سارے فرائض چھوڑ کر ہمیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے موجود ہیں،
ہم تو سمجھتے تھے کہ ہم انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ہم دشمن کی پہنچ سے بالکل دور ہیں، جب دشمن نے کہا تھا کہ ان کے پاس وہ میزائل ہیں جو تین سو میل تک مار کرتے ہیں تو ہم قہقہ لگا کر ہنسے تھے کہ لوجی تین سو میل دور جاکر گرے گا ہم تو واہگہ بارڈرسے صرف 20 میل کے فاصلے پر قیام پذیر ہیں، ہم تو بس سر سے گزرتا ہوا دیکھیں گے، لیکن پڑوسی ملک بھی تو اردو ادب کے حوالے سے زرخیز ہے
بے شک وہ ہمیں دل میں جگہ نہ بھی دے مگر ہماری تحریریں تو ان کے اخباروں میں جگہ لے رہی ہیں !!