- التفاصيل
-
پڑھنے والوں کی تعداد : 541
دونوں خواتین دنیا و مافیہا سے بے خبر باتیں کرنے میں مگن تھیں،جوں ہی بس نے ہارن بجا کر تمام مسافروں کو ہوشیار کیا، مسافر جلدی جلدی بس میں سوار ہونے لگے۔ میں بیگم کی طرف لپکا۔ ہم بس میں سوار ہو گئے۔ بیگم میری بے صبری بھانپ کر بولیں :
"صاحب! یہ لڑکی گھر سے بھاگی ہوئی ہے۔"
بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد کراچی
سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ بس کی میزبان خاتون نے مائیک سنبھال لیا اور مسکراتے ہوئے تمام مسافروں کو خوش آمدید کہا۔ ضروری ہدایات دینے کے بعد میزبان خاتون اپنی نشست سے کمر ٹکا کر کھڑی ہوگئی، اب وہ تنقیدی نظروں سے بس میں سوار مسافروں کا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔ وہ 14 گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے دوران بمشکل ہی گھڑی دو گھڑی ٹک کر بیٹھی ہوگی۔ جسمانی تھکن غالب تھی۔ مگر ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ چسپاں۔ ہوس پرست مردوں کی آر پار ہوتی ناپاک نگاہوں سے چھلنی ، چپ چاپ لفظی تشدد سہتی اس مجبور بےبس اور لاچار مخلوق پر مجھے بے انتہا ترس آیا۔ میں اپنی بیگم کے ساتھ محوِ سفر تھا۔ ویسے مرد ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں نظروں ہی نظروں میں اسے ٹٹول چکا تھا، پھر بھی گاہے گاہے میری نگاہ سامنے پڑ جاتی تو اسے ٹک ٹک اپنی جانب مبذول پاکر چھینپ جاتا۔
مزید پڑھیے۔۔