دسترخوان

٭دسترخوان ایک بے جان چیز ہوتے ہوئے بھی جانداروں کے درمیان محبت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

٭جتنی آب و تاب سے مختلف اقسام کے پکوڑے ہمارے دسترخوان پر موجود ہوتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمارا نفس "پکوڑوی خواہشات" کا غلام بن گیا ہے

ہانیہ محمود
قرآن پاک میں ایک سورۃ "سورۂ مائدہ" ہے۔ مائدہ عربی میں "دسترخوان" کو کہتے ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔

نکاح

یہ مختصر تحریر والدین کے لیے  ایک درس  اور سبق ہے  اور اپنے بچوں کو بےحیائی   اور گناہوں سے ان کی حفاظت کا ذریعہ ہے  

انتخاب : ام ایشاع

٭اگر بارہ تیرہ سال میں بچے بچیاں بالغ ہورہے ہیں اور 25، 30 سال تک نکاح نہیں ہورہا تو یہ جنسی مریض بھی بنیں گے اور گناہ بھی کریں گے..

 ٭وقت پہ نکاح اولاد کا حق ہے۔ اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار کرتی ہے

مزید پڑھیے۔۔

کتاب بینی

کوئی مسافر بس اسٹاپ پہ بیٹھا بس کا انتظار کر رہا ہو اور اس کی نگاہیں کتاب پر جمی ہوں جس کی لکھائی میں وہ خود کو گم کیے ہوئے ہے اور ارد گرد سے بے گانہ ہے، اسے منزل سے نہیں اپنے سفر سے محبت ہونے لگتی ہے کیونکہ وہ اس  سفر کے خوبصورت ساتھی سے محبت کرنے لگتا ہے

 حمنہ کامران اسلام آباد

 قصہ خواں کا محبوب کتابیں ہوتی ہیں۔ وہ کتابیں پڑھتا ہے اور ایک وقت میں کئی زندگیاں جی رہا ہوتا ہے۔ انہی زندگیوں کے بکھیڑوں سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ نئے کردار تخلیق کرتا ہے، انہیں صفحے پر اتارتا ہے اور ان میں جان پیدا کر دیتا ہے۔ کتابیں حقیقی زندگی اور تخیل کے درمیان پل کا کام سر انجام دیتی ہیں،

مزید پڑھیے۔۔

قیمتی اثاثہ

میں کافی دیر وہاں بیٹھی رہی وہ سب لوگ بہت خوب صورت گفتگو کر رہے تھے۔ لب و لہجہ آداب سے گندھا ہوا ۔۔۔ چھوٹے بچے بھی اسی انداز میں بات کررہے تھے۔ لڑ رہے تھے تو بھی اتنی تمیز سے ۔۔۔ ”آپ ہماری پینسل واپس کر دیجیے ورنہ ہم بابا جان سے آپ کی شکایت کر دیں گے۔“

 ام محمد سلمان

 ” خالہ جان...! “

کسی کی میٹھی آواز سنائی دی۔ میرے کان کھڑے ہو گئے لیکن بولی کچھ نہیں.. بدستور برتن دھونے میں مصروف رہی۔ اتنے میں دوبارہ وہی آواز سنائی دی

مزید پڑھیے۔۔

دستر خوان

اب چونکہ زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے اور ہمارے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے تو دسترخوان کی روایت ناپید ہوتی جا رہی ہے ۔ گھر کے کسی فرد کے پاس وقت نہیں کہ وہ سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکے۔ ہم جتنا مصروف ہوتے جارہے ہیں ، اتنا ہی گھر والوں سے دور ہوتے جارہے ہیں

منیبہ  ادریس

دسترخوان کا مطلب وہ چوکور یا مستطیل کپڑا ہے جسے بچھا کر اس پر کھانا چن دیا جاتا ہے اور گھر کے سب افراد ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں ۔ دسترخوان بچھا کر کھانا کھانے کا عمل بہت قدیم ہے اور ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ بھی ہے ۔ دسترخوان بچھا کر کھانا کھانے کا عمل نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ کھانا کھانے کے دوران تمام افراد ایک دوسرے کو وقت دیتے ہیں، ایک دوسرے کی بات توجہ سے سنتے ہیں۔ اس طرح کرنے سے تمام افراد کے دل میں ایک دوسرے کے لیے خلوص، انسیت اور قربت پیدا ہوتی ہے ۔

مزید پڑھیے۔۔

الحمدُللہ

عظمی ظفر

 دوپہر کے سارے کاموں سے فارغ ہو کر جب نماز کا خیال آیا تو دیکھا وقت کافی ہوچکا تھا۔ اول وقت تو کب کا گزر چکا... کام والی کو ڈانٹنے،سبزی والے سے بحث کرنے، پڑوسن سے محلے والوں کی بریکنگ نیوز لینے کے بعد اب میں فارغ تھی نماز کے لیے ،مگر بھوک بھی لگ رہی تھی۔

مزید پڑھیے۔۔

فیملی ڈانس

جسے آپ فیملی ڈانس کہہ رہے ہیں اس طرح کے ناچ کے لیے پہلے باقاعدہ کوٹھوں یعنی ریڈ لائٹ ایریا سے طوائف زادیاں بلائی جاتی تھیں، البتہ اب لوگ گھروں میں  اپنی ہی شہزادیاں اس کام کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ اپنی ہی بیٹیوں کو ان کاموں پر سراہتے ہیں، خود بھی دیکھتے ہیں، دوسروں کو بھی دکھاتے ہیں، ویڈیوز بنا بنا کر وائرل بھی کرتے ہیں۔

 مہوش کرن

 نئی اصطلاح لگ رہی ہے۔ آج کل کافی in ہے۔

مگر آپ اتنا سنجیدہ کیوں ہوتے ہیں۔؟ دراصل شادی میں جب مہندی، مایوں، ڈھولک کی رسم ہو اور گھر کی بچیاں، بچیوں کی کزنیں، دوستیں ذرا سا ہلا گلا کر لیں تو اسے کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے تو آپ بھی مت بنائیے۔

مزید پڑھیے۔۔

زندگی کا سفر

ہم لڑکیوں کو لگتا ہے کہ شادی کوئی جادو کی چھڑی ہے اسے گھماتے ہی ہمارے سارے مسائل حل ہوجائے گےاور ہماری زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی ایسا فلموں اور ڈراموں میں تو ممکن ہے مگر حقیقی زندگی اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے شادی ایثار اور قربانی کا دوسرا نام ہے گھر آباد کرنے اور گھر بنانے کے لیے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہے

 زویا علی

حریم نے عصر کی نماز کا  سلام پھیرا تو اس کی والدہ اسے ہی محبت پاش نظروں سے دیکھ رہی تھی، ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا اکثر اسے دیکھتے دیکھتے وہ نہ جانے کن خیالوں میں کھو جاتی تھی اور ہمیشہ اس کے پوچھنے پر ٹال دیتی تھیں۔ سلیم صاحب کی اولاد میں حریم کا پہلا نمبر تھا اس کے بعد ایک بھائی اور تین بہنیں تھیں

مزید پڑھیے۔۔

انتہا پسند

مما میں کب سے آپ کا ویٹ کر رہی تھی کہ جب آپ فری ہوں توآپ کو عاتکہ سے ملواوٴں، مماآئی کانٹ بےلیو داٹ شی از آور فیملی فرینڈ.مما کل جس کامپیٹیشن میں ،میں نے سیکنڈ پرائز ون کیا ہے عاتکہ اس کامپیٹیشن کی ونر ہے

 جویریہ شعیب،انگلینڈ

مزید پڑھیے۔۔

ممتا کی ماری

سونے کی طرح چمکتی دمکتی وفا شعار خدمت گزار بیوی کا ملمع اتر گیا تھا۔ اندر سے ممتا کی ماری ماں نکل آئی تھی۔ احمد صاحب کے  احسانات کا اچھا بدلہ چکایا تھا ان احسان فراموشوں نے۔ خیر دو کشتی کی سوار ان کی مسرت آراء ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر رہ گئیں تھیں۔ ایک طرف مجازی خدا اور دوسری طرف جوان ہوتے بیٹے۔۔۔

بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد  کراچی

مسرت آراء کے شوہر جواد الرحمن ایک کار حادثے میں انتقال کر گئے تھے۔ بچے چوچھوٹے تھے، کرائے کا مکان، پھر بیوگی کا دکھ الگ۔ انہوں نے بوڑھے والدین کو مزید پریشانی سے بچانے کی خاطر دوسری شادی کی حامی بھر لی۔ مگر اس شرط پر کہ ان کے بچوں کی تعلیم و پرورش کی ذمہ داری میں ان کے ہونے والے شوہر پورا پورا ہاتھ بٹائیں گے۔

مزید پڑھیے۔۔

ماڈرن بھکاری

ام محمد سلمان کراچی

مجھے نہیں معلوم کہ کب اور کیوں مجھے جہیز کے نام سے چڑ ہونا شروع ہوئی۔ شاید جہیز کی مذمّت میں کوئی ڈرامہ دیکھا ہو یا کوئی کہانی پڑھی ہو ۔۔۔ بس نو عمری کے زمانے سے ہی جب لڑکیاں جہیز کا نام سن سن کے خوش ہوتیں اور شرماتی تھیں، میں ان سنہرے دنوں میں بھی جہیز کے ذکر پر بدک جایا کرتی تھی اور اس کے خلاف دھواں دھار تقریر کیا کرتی۔ جہیز مجھے کسی گالی کی طرح لگتا تھا۔ پھر میری شادی طے ہوئی تو اماں نے میرے جہیز کے لیے بھی چیزیں جمع کرنا شروع کردیں۔ کاش وہ سب چیزیں میرے لیے ہوتیں ، مگر مجھے پتا تھا وہ میرے لیے نہیں ہیں بلکہ وہ دنیا کا منہ بند کرنے کے لیے ہیں تاکہ کوئی ان کی بیٹی کو جہیز نہ لانے کے طعنے نہ دے اور لوگ ان کے لیے بھی باتیں نہ بنائیں کہ بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت کر دیا ۔ ہر چیز میں دوسروں کا معیار تولا جاتا تھا۔

مزید پڑھیے۔۔

کراچی یا کچراچی !!!

محمد حمزہ صدیقی

کچراچی وہ مظلوم ترین شہر ہے جو ہر ایک کو ٹھکانا دینے کے لیے تیار، ہر مصیبت زدہ کی مدد کرنے میں پیش پیش، قدرتی آفات میں متاثرین کا ایک بہت بڑا سہارا لیکن یہاں کے اپنے باسیوں کا حال یہ ہے کہ بجلی، گیس، پانی، صحت، تعلیم، جانی و مالی تحفظ، ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کے بد ترین نظام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

مزید پڑھیے۔۔

حیا میں ہے حیات

ام وقاص نیو یارک امریکا

 عربی گرائمر کے مطالعے سے پتا چلا کہ حیا اور حیات کا روٹ ورڈ ایک ہی ہے”ح ی ی “ حیات کے لیے اردو میں زندگی کا لفظ بولا جاتا ہے گویا کہ زندگی حیا کے  اندر چھپی ہوئی ہے حیا جتنی زیادہ ہوگی زندگی اتنی طویل لمبی اور پرسکون ہوگی جب حیا بڑھتی ہے تو زندگی بھی طویل ہوتی ہے چاہے افراد کی ہو یا قوموں کی 

مزید پڑھیے۔۔

ٹرینڈ

''پتا ہے ہماری زندگی اسی دودھ  کی مانند سفید، شفاف اور بے داغ ہوتی ہے ،اور پھر ہم جب مغربی تہذیب کے ٹی بیگ اپنے اندر ڈالتے ہیں نا تو گناہوں سے پاک دودھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سہیمہ احمد ۔ڈی آئی خان

 وہ آئینے کے عکس میں اپنےبنائے گئے ہیر اسٹائل کو ہر زاویے سے دیکھتی اور پھر بالوں کو کھول کر اگلا اسٹائل بنانے لگتی،اب کی بار میں اس نے اسٹائل بنانے کی خاطر ساتھ پڑی قینچی سے کچھ بالوں کوکاٹ ڈالا جو اسٹائل میں رکاوٹ بن رہے تھے ۔

مزید پڑھیے۔۔

موبائیلے

ادھر اسکرین آن ہوتی ہے، ادھر بچوں کا منہ کھل جاتا ہے، جو مرضی جتنا مرضی ریڈی میڈ فوڈ بھر دیں، بچہ کھانا نگلتا جاتا ہے، ماں بھی اپنی ادھوری قسطیں مکمل کرلیتی ہے۔

عظمی ظفر

پہلے زمانے میں بچے یا تو ننھیال پرجاتے تھے یا ددھیال پر، فی زمانہ تو آپ کو ایسے بچے ملیں گے جو نا ننھیالی ہیں نا ددھیالی، اب تو وہ بس موبائیلے ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔

عورت کا حق

اتنے تجربے کے بعد مجھے یہ اندازہ تو ہو گیا ہے کہ ایسی جگہوں پر پانی کے علاوہ سب کچھ موجود ہوتا ہے ۔ اس لیے میں اب پانی ہمراہ رکھتی ہوں

سمیہ شاہد لاہور

بے ہنگم ناچ گانے سے گھبرا کر اس نے ایک کونے میں پناہ لے لی۔ تیز موسیقی اور اس پر اچھل کود  فضا کو شدید کوفت میں مبتلا کر رہی تھی۔وہ اس وقت کو کوسنے لگی، جب اس نے وہاں آنے کی حامی بھری تھی، تاہم اب پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا تھا۔ اس نے نیم اندھیرے میں  کونے والی میز پر بیٹھ کر موبائل نکالا اور سالار کو کال ملانے لگی۔ لیکن سالار کو موبائل کا ہوش کہاں تھا۔ ایسی دعوتیں، پارٹیاں تو اسے بے حد عزیز تھیں ، اور ان میں موجود لوازمات بھی ، جن تک رسائی عام دنوں میں ناممکن تھی۔

مزید پڑھیے۔۔

اب پچھتائے کیا ہوت!!!

دونوں خواتین دنیا و مافیہا سے بے خبر باتیں کرنے میں مگن تھیں،جوں ہی بس نے ہارن بجا کر تمام مسافروں کو ہوشیار کیا، مسافر جلدی جلدی بس میں سوار ہونے لگے۔ میں بیگم کی طرف لپکا۔ ہم بس میں سوار ہو گئے۔ بیگم میری بے صبری بھانپ کر بولیں :

"صاحب! یہ لڑکی گھر سے بھاگی ہوئی ہے۔"

بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد کراچی

سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ بس کی میزبان خاتون نے مائیک سنبھال لیا اور مسکراتے ہوئے تمام مسافروں کو خوش آمدید کہا۔ ضروری ہدایات دینے کے بعد میزبان خاتون اپنی نشست سے کمر ٹکا کر کھڑی ہوگئی، اب وہ تنقیدی نظروں سے بس میں سوار مسافروں کا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔ وہ 14 گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے دوران بمشکل ہی گھڑی دو گھڑی ٹک کر بیٹھی ہوگی۔ جسمانی تھکن غالب تھی۔ مگر ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ چسپاں۔ ہوس پرست مردوں کی آر پار ہوتی ناپاک نگاہوں سے چھلنی ، چپ چاپ لفظی تشدد سہتی اس مجبور بےبس اور لاچار مخلوق پر مجھے بے انتہا ترس آیا۔ میں  اپنی بیگم کے ساتھ محوِ سفر تھا۔ ویسے مرد ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں نظروں ہی نظروں میں اسے ٹٹول چکا تھا، پھر بھی گاہے گاہے میری نگاہ سامنے پڑ جاتی تو اسے ٹک ٹک اپنی جانب مبذول پاکر چھینپ جاتا۔

مزید پڑھیے۔۔

یہ رونا بھی دوا ہی تو ہے !!!

مجھ سے آگے  ایک خاتون تھیں،جب وہ بالکل امیگریشن ڈیسک کے قریب پہنچیں تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں یہ دیکھ کر میں نے بھی  آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فورا اپنے بند توڑے اور رونا شروع کردیا۔

لطافت

جب میں عمرے سے واپس آرہی تھی تو کئی دن پہلے سے سختی سے تاکید کی جا رہی تھی کہ جتنا رونا ہے ابھی رو دھو لیجیے ائیرپورٹ پر نہیں رونا  

میں نے پوچھا بھلا کیوں ائیرپورٹ پر رونے میں کون سا کیچڑ کا خطرہ ہوسکتا ہے؟ آخری لمحات میں تو انسان کو زیادہ ہی رونا آتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔

کیا فرق پڑتا ہے؟

اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے کچھ کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتاتو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا

روبنسن سیموئیل گل

دورانِ سفر اگر کوئی گاڑی کی کھڑکی سے کچرا باہر پھینک دے تو منع کرنے پر اکثر اوقات سننے کو ملتا ہے، "اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟"بہ ظاہر مطلب یہی نکلتا ہے کہ اگر ہم نہ پھینکیں گے تو کیا فرق پڑے گا کیوں کہ سبھی تو پھینک رہے ہیں اور سبھی پھینک رہے ہیں تو ہمارے بھی پھینک دینے سے کیا فرق پڑے گا؟

مزید پڑھیے۔۔

موازنہ

حفصہ محمد فیصل

"دوسری اولاد ہونے کےفائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں ، جیسے بڑے بھیا کو جس جس چیز سے کوئی نقصان پہنچا، وہ اب ہمیں استعمال کرنے ہی نہیں دی جائے گی، چاہے ہم کتنا ہی یقین دلا دیں کہ ہم وہ نقصان یا غلطی سرزد نہیں کریں گے ،مگر مجال ہے کہ ہماری آواز پر کوئی کان دھر لے۔" ارسلان دوستوں میں بیٹھا ،ابا سے بائیک نہ ملنے کا دکھڑا رو رہا تھا۔

٭٭٭

مزید پڑھیے۔۔

 آج کیا پکائیں ؟

سطوت جہاں آراء

ایک وقت تھا جب ہمارے گھر میں بھی روزانہ اس پہ غور کیا جا تا تھا کہ آج کیا پکنا چاہیے !یہ غور بسا اوقات اچھی خاصی بحث میں تبدیل ہوجاتا تھا، ہماری اماں جان  دوسری بہت سی سمجھ دار خواتین کی طرح اس بات کا پوار پورا اہتمام کیا کرتی تھیں کہ ان پہ بات نہ آئے  ۔ اس لیے ابا سے کہہ دیتیں: " کچھ پکانے کو لا دیجیے !" وہ جب پوچھا کرتے:" کیا لاؤں ؟"تو امی بجائے اپنی رائے دینے کے کبھی تو یہ  کہہ دیتیں " جو

مزید پڑھیے۔۔