حکیم شمیم احمد

اولاد کی پیدائش :

بچے کی پیدائش میاں بیوی  کی قربت کے نتیجے میں عمل میں آتی ہے۔ چوں کہ اس عمل میں دونوں شریک برابر ہوتے ہیں، اس لیے دونوں کے جنسی اعضاء اور ان کے فعل کا درست ہونا بھی لازمی ہے ورنہ مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔ لیکن  زمانۂ قدیم ہی سے اولاد نہ ہونے  کا ذمے دار صرف عورت کو سمجھا جاتا  ہے اور مرد اگر مردانہ قوت رکھتا ہے تو بس یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ باپ بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔  ایسی مثالیں بھی ملی ہیں کہ شوہروں نے دوسری شادیاں کر لیں اور چونکہ نقص ان میں تھا اس لیے دوسری اور تیسری شادی سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن اب بھی بہت سے گھرانوں میں یہی سوچ کار فرما ہے کہ اولاد نہ ہونے کا سبب محض عورت کی خرابی ہے۔ اسی وجہ سے اگر شادی کے بعد سال بھر سے زیادہ وقت گزر جائے اور حمل نہ ٹھہرے تو خاندان میں چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں اور زیرِ بحث شادی شدہ جوڑا سخت ذہنی دباؤ میں آجاتا ہے۔

میاں بیوی پر سوار فکر:

اولاد نہ ہونے پر مرد کو یہ فکر ہوتی ہے  کہ اسے جنسی طور پر کمزور نہ سمجھا جائے اور عورت  پر یہ دباؤ ہوتا ہے کہ اسے بانجھ نہ سمجھ لیا جائے۔ اس احساس میں دن گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت آتی چلی جاتی ہے۔ ساس نندوں کے طعنے عدم تحفظ کی فضا پیدا کر دیتے ہیں اور عورت کو یہ خوف ہوتا ہے کہ میری اس خامی کی وجہ سے خاندان اور نسل کے جاری رہنے کا بہانہ بنا کر شوہرِ نامدار دوسری شادی نہ کر بیٹھیں۔

ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے معالج سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ اور اس کی رائے کے مطابق  دونوں کو اپنا مکمل معائنہ کروا لینا چاہیے اور جسے علاج کی ضرورت ہو وہ اپنا علاج شروع کردے۔ مردانہ قوت درست ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مرد باپ بننے کی بھی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اعدادوشمار کی روشنی میں چالیس فی صد صورتوں میں اولاد نہ ہونے کا ذمہ دار مرد ہوتا ہے۔

حمل کب اور کیسے ٹھہرتا ہے؟

استقرار حمل مرد کے مادۂ منویہ میں پائے جانے والے کرم (اسپرم) اور عورت کے رحم میں موجود بیضہ (اووم) کے باہم ملنے سے ہوتا ہے۔ بیضہ خصیۃ الرحم (اوویریز) میں بنتا ہے اور ہر ماہ آنے والے ایام سے چودہ روز پہلے رحم میں آجاتا ہے۔ اب اگر صحبت کی صورت میں کوئی کرم بیضہ تک پہنچ کر اس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو حمل قرار پا جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو آئندہ ایام آنے پر رحم میں موجود بیضہ خارج ہوجاتا ہے اور دوسرے ماہ دوسرا بیضہ رحم میں پہنچتا ہے۔

مرد کے کِرم منویہ خصیتین (ٹیسٹیز) میں بنتے ہیں۔ اور ہر صحبت کے نتیجے میں کثیر تعداد میں خارج ہوتے ہیں، جب کہ کسی ایک کِرم کو استقرارِ حمل میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ ایک وقت کے اخراج میں ان کی تعداد تقریباً سترہ کروڑ سے لے کر چالیس کروڑ تک ہوتی ہے۔ اخراج کے وقت ان میں سے ستّر فیصد کرم کو صحیح طریقے پر متحرک و فعال ہونا چاہیے، دو گھنٹے گزر جانے پر ساٹھ فیصد کِرَم متحرک رہ جاتے ہیں۔ چھ گھنٹے گزر جانے پر پچّیس سے چالیس فیصد تک کِرَم متحرک رہتے ہیں۔ مگر چند کِرَم منویہ ناکارہ ہوں تب بھی یہ ایک طبعی صورت حال ہے اور کسی علاج معالجے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جوں جوں صحت مند کِرَم منویہ کی تعداد کم اور ناکارہ کِرَم منویہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، استقرارِ حمل کے امکانات بھی کم ہوتے جاتے ہیں۔

ماں باپ بننے کی عمر:

عمر کے لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ مرد سولہ سال کی عمر سے لے کر پینتالیس سال کی عمر تک باپ بننے کی بخوبی صلاحیت رکھتا ہے۔سولہ سال کا مطلب ہر گز نہیں کہ اس سے کم عمری میں کی جانے والی ہم بستری سے حمل نہیں ٹھہرے گا ،  اسی طرح پینتالیس سال کی عمر کے بعد یہ امکانات کم تو ہوسکتے ہیں مگر بالکل ختم نہیں ہوتے، حتیٰ کہ اسّی سال کے بزرگوں کو باپ بنتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ کِرَم میں حرکت یا رینگنے کی طاقت اس لیے ضروری ہے کہ اسے رحم کے اندر جہاں بیضہ رکھا ہوا ہے، وہاں تک کا فاصلہ رینگ کر ہی طے کرنا ہوتا ہے اس لیے وہ کِرَم جو کہ رینگنے کی قوت نہ رکھتے ہوں یا کمزور ہوں، مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پندرہ فیصد جوڑے اولاد پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

عورتیں ماہ واری  شروع ہونے سے لے کر سن یاس یعنی ایام ختم ہونے کی عمر تک ماں بن سکتی ہیں۔ مگر ایک ترتیب وار عمل ضروری ہوتا ہے، اگر اس میں کہیں کوئی کمی رہ جائے تو مقصد پورا نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ عورت کے جسم میں تندرست اور بار آور بیضے پیدا ہورہے ہوں، اور ہر ماہ رحم میں پہنچ رہے ہوں۔ مرد کے کِرَم بھی وقتاً فوقتاً پہنچ رہے ہوں اور ان میں بیضہ میں داخل ہوکر اسے بار آور کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔ بیضہ بار آور ہونے کے بعد رحم کی جھلّیوں سے چسپاں ہوجائے اور اس کی نشوونما شروع ہوجائے۔

عورتوں کے بانجھ پن کی ممکنہ وجوہ :

1 غذا کی کمی یا خرابی کی وجہ سے جسم کا صحیح طریقے پر نشوونما نہ پانا۔ یہ حیاتین، لحمیات اور خون کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے، یا جسم میں ان ہارمونز کا کم یا زیادہ مقدار میں بننا جو جنسی اعضاء کی نشوونما اور استقرارِ حمل میں حصہ لیتے ہیں۔

2 جنسی اعضاء کا صحیح نہ ہونا۔ خواہ پیدائشی طور پر ان کی ساخت صحیح نہ ہو یا امراض کے نتیجے میں ایسا ماحول پیدا ہوگیا ہو جو کہ استقرارِ حمل کے لیے مناسب نہ ہو۔ بعض اوقات رحم کا منہ بہت تنگ ہوتا ہے یا اس کی وضع ایسی ہوتی ہے کہ کِرَم اس میں داخل نہیں ہوپاتے۔

3 ورم، رسولی یا مسوں کی موجودگی، جو کہ راستہ بند کردیتے ہیں۔

4 بعض اوقات اندرونی ماحول تیزابی ہوجاتا ہے، جو کہ کِرَم منویہ کو ہلاک کردیتا ہے چوں کہ ان کے زندہ رہنے کے لیے اساسی ماحول ہونا ضروری ہے۔ بعض اوقات یہ ماحول جراثیم کی موجودگی کی وجہ سے تیزابی ہوجاتا ہے، مثلاً سوزاک اور چند دیگر اقسام کے امراض پیدا کرنے والے جراثیم۔

5 کسی مریضہ میں اس نالی کا سوراخ بند ہوجاتا ہے جو کہ بیضہ کو رحم میں لاتی ہے۔ یہ کبھی پیدائشی طور پر ہوتا ہے اور کبھی سوزش یا ورم کے نتیجے میں بند ہوجاتا ہے۔

6 خصیۃ الرحم (اوویریز) کے امراض کے نتیجے میں بھی عورتوں کی بار آوری متاثر ہوجاتی ہے۔ یہ بھی کبھی پیدائشی طور پر ناکارہ ہوتی ہیں اور کبھی جراثیم کے باعث پیدا ہونے والا ورم انہیں متاثر کردیتا ہے۔ کبھی خصیۃ الرحم میں پیدا ہونے والی رسولیاں ان کے کام پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

7 نفسیاتی وجوہ بھی استقرار حمل پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایسی خواتین جو  مرد کے قریب آنے یا حمل اور وضع حمل کی تکلیف و پیچیدگیوں سے خوف زدہ رہتی ہیں، وہ بھی لاولد رہ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ غمگین رہنا، ضرورت سے زیادہ تجسّس اور حاملہ ہونے کی خواہش ہونا، کسی دوسری چیز میں ذہنی انہماک پیدا ہونا، ایسی وجوہ ہیں جن کے باعث حمل نہیں ٹھہر پاتا۔ مثال کے طور پر بعض لوگ اپنے کسی اعلیٰ مقصد کے حصول میں یا عبادت میں اس قدر غرق ہوجاتے ہیں کہ شب و روز انہیں صرف ایک ہی خیال رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت بڑے بڑے لوگ جنہوں نے دنیا میں کارِ ہائے نمایاں سرانجام دیے یا اپنی زندگی کا کوئی اہم مقصد لے کر پیدا ہوئے ان کے یہاں اولاد کم پیدا ہوتی ہے۔

مرد میں پائی جانے والی وجوہ :

1 فعلِ جماع پر قادر نہ ہوسکنا: اس کی وجہ جنسی کمزوری بھی ہوسکتی ہے اور بہت زیادہ موٹاپے کی وجہ سے بھی یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔

2 مادۂ منویہ کے نقائص:  کِرَم منویہ کی تعداد کم ہو یا وہ کمزور اور ناقص ہوں یا بالکل نہ ہوں تو استقرارِ حمل مشکل ہوجاتا ہے اور آخری صورت میں ناممکن ہوجاتا ہے۔ مادۂ منویہ میں اگر خون کے دھبے پائے جائیں یا اس کی رنگت بہت گہری ہو تو یہ صورت بھی امراض کی نشان دہی کرتی ہے۔ مادۂ منویہ میں اگر تیزابیت بڑھ جائے یا پیپ شامل ہوجائے۔ تب بھی کِرَم منویہ مُردہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

3 مردانہ جنسی اعضاء میں خرابی :  مر د کے جنسی اعضا میں کلی یا کوئی جزوی خرابی بھی ایک بڑا سبب ہے۔ اسی طرح خصیوں کا بہت چھوٹا ہونا اور کمزور ہونا یا گولیوں کا  تھیلی کی بجائے پیٹ کے اندر ہونا شامل ہے اور اگر دونوں حصے پیٹ کے اندر ہوں تو عام طور پر ایسے لوگ لاولد رہتے ہیں۔ دراصل بچے کی ولادت کے دو تین دن بعد تک بھی اس کے حصے اندر پیٹ میں ہی رہتے ہیں تاکہ پیدائش کے وقت دباؤ پڑ کر انہیں نقصان نہ پہنچے۔ بچے کی پیدائش کے بعد پہلے ایک باہر آتا ہے اور دو تین دن کے وقفے کے بعد دوسرا بھی باہر آجاتا ہے۔ اسی وجہ سے دونوں کی طبعی جسامت میں بھی تھوڑا بہت فرق ہوا کرتا ہے۔ مگر بعض لڑکوں میں یہ اندر ہی رہ جاتے ہیں اور گنجائش نہ ہونے کے باعث ان کی نشوونما پوری طرح نہیں ہوپاتی۔

4  ہارمونز کا تناسب  بگڑ جانا:یہ بگاڑ بھی جنسی قوت اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کردیتا ہے۔ اس عمل میں کئی غدود حصے لیتے ہیں۔ مرض ذیابیطس میں لمبے عرصے تک شوگر کو کنٹرول نہ کیا گیا ہو، تو یہ ضعف باہ پیدا کرکے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کردیتا ہے۔ خون کی بہت زیادہ کمی بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

5 خصیوں کا متورم ہونا:  اگر بلوغت سے قبل ہو تو کوئی اندیشہ نہیں ہوتا لیکن بلوغت کے بعد ہو اور دونوں خصے متوّرم ہوجائیں تو خطرہ ہوتا ہے کہ کِرَم منویہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوجائے گی۔ عام طور پر اس مرض کے بعد بیس فیصد لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔  تیز بخار اور تپ دق وغیرہ میں بھی وقتی طور پر یہ صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔

6 خصیوں پر  چوٹ لگنا یا دباؤ پڑنا:۔ دباؤ عام طور پر فتق (ہرنیا) یا ورید دوالی، (ویری کوزوین) کا پڑ جاتا ہے یا ان کے آپریشن کرتے وقت پیچیدگی پیدا ہوکر بھی یہ صورت ہوجاتی ہے۔ خصیوں میں اگر پانی بھر جائے تب بھی ان کے افعال متاثر ہوجاتے ہیں۔

7 پیشاب کی نالی کے امراض: خاص طور پر سوزاک بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس مرض کا تعدیہ خصیوں تک پہنچ جائے تو کِرَم منویہ کے ہلاک ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ غدۂ مذی(پراسٹیٹ گلینڈ) کے بعض امراض بھی اثر انداز ہوا کرتے ہیں۔

8 کِرَم منویہ  کے لیے درجہ حرارت :یہ ایک خاص درجۂ حرارت پر تندرست رہتے ہیں۔ اگر اس سے کم یا زیادہ ہوجائے تو ان کی نشوونما رک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے ان کی حفاظت کے لیے انتظامات کیے ہیں۔ جب بھی موسم سرد ہو یا جسمانی درجۂ حرارت کم ہورہا ہو تو خصیوں کی تھیلی سکڑ کر جسم کے قریب آجاتی ہے اور جب گرمی زیادہ ہو یا جسمانی درجۂ حرارت کی زیادتی ہو تو یہ تھیلی پھیل کر نیچے لٹک جاتی ہے۔ تاکہ جسم سے دور ہوجائے۔ اس طرح کم درجۂ حرارت کو بڑھانا اور بڑھے ہوئے درجۂ حرارت کو کم کرنا مقصود ہوتا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس سکڑنے اور دور ہوجانے کو مرض تصور کرتی ہے اورمعالجین کے پاس علاج کے لیے پہنچ جاتی ہے، جبکہ یہ ایک طبعی صورت حال ہے خصیوں کی جھلّیوں میں سوزش ہوکر پانی بھر جانا( جسے قیلۃ الماء (ہائیڈروسیل) کہا جاتا ہے)۔ خصیوں میں موجود خون کی رگوں کا پھول جانا (ورید دوالی یا ویریکوسیل) خصیوں کے اندر کے درجۂ حرارت کو بڑھا دیتا ہے، جس سے کِرَم کی نشوونما متاثر ہوجاتی ہے۔

میاں بیوی کو مایوس نہیں ہونا چاہیے:

اولاد کی خواہش رکھنے والے حضرات کو قطعی طور پر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا، اس محرومی کے اسباب بہت سے ہیں اور شوہر و بیوی دونوں میں پائے جاتے ہیں، اس لیے نتائج کا انحصار بھی اسی بات پر ہوا کرتا ہے کہ معالج سے کب رجوع کیا گیا اور کس قدر تفصیلات اس علم میں لائی گئیں۔ اگر صحیح سبب کا پتا چل جائے تو بیشتر صورتیں ایسی ہیں جو قابل علاج ہیں۔ صرف چند اسباب ایسے ہیں جنہیں لا علاج کہا جا سکتا ہے۔

 میاں بیوی دونوں کو معالج کے پاس جانا چاہیے اور اپنی تمام تر کیفیت اور گزشتہ و موجودہ حالات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر ساتھ بیٹھ کر بحث کی جاتی ہے اور چند باتیں علیحدگی میں اپنے معالج کو بتلائی جاتی ہیں۔ مگر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ شادی سے پہلے کی جنسی کیفیت اور مشاغل، شادی کے بعد کی جنسی کیفیت اور شادی کے علاوہ اگر کوئی جنسی مشاغل رہے ہوں تو انہیں بلاتکلف اور پُر اعتماد طریقے پر اپنے معالج کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ چوں کہ یہی وہ باتیں ہیں جو  تشخیص کی صحیح راہ نکالنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے لیے کئی طرح کے معائنے مطب اور لیبارٹریز میں کرائے جاتے ہیں، ان سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

میاں بیوی کو درج ذیل باتوں کا خیال کرنا چاہیے:

1 میاں و بیوی دونوں کی عام صحت اچھی ہونی چاہیے خصوصاً بیوی میں خون کی کمی اور دیگر ضروری غذائی اجزاء کی کمی نقصان دہ ہوتی ہے۔

2 بہت زیادہ بھاری جسم بھی استقرارِحمل میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس لیے اپنا  جسم اور وزن مناسب رکھنا چاہیے۔

3 بعض خاندانوں میں اولاد کم ہونے کی روایت پائی جاتی ہے۔ انہیں آپس میں شادیاں نہیں کرنی چاہییں۔

4 میاں بیوی کو  ذہنی ہم آہنگی کیا خیال کرنا چاہیے ۔

5 جس خاندان میں بے اولادی کی مثالیں موجود ہوں یا اولاد کم ہو تو کوئی بعید نہیں بہن بھائیوں کی اولاد میں بھی یہ ساسلہ چلتا رہے۔

6عورتوں میں ایام باقاعدگی سے آتے ہوں اور سیلان الرحم (لیکوریا) کی شکایت نہیں ہونا چاہیے اور شوہر جنسی لحاظ سے ٹھیک ٹھاک ہوں۔

7 اگر ذیابیطس کی شکایت ہو تو شوگر کو طبعی حدود میں رکھنا چاہیے اور اگر سوزاک ہوچکا ہو تو اس کا مکمل علاج کرالینا چاہیے۔

8 ہم بستری  کے لیے مناسب تاریخیں وہی ہوں گی جن تاریخوں میں بیضہ رحم میں آتا ہے اس لیے آئندہ ایام سے پہلے اس کا حساب لگانا چاہیے اگر ایام صحیح وقت پر آتے ہوں تو بیضہ ٹھیک چودہ دن پہلے رحم  آجاتا ہے۔ یعنی اگر ایام اٹھائیس دن بعد آتے ہوں تو بیضہ ٹھیک چودہ دن پہلے رحم میں موجود ہوگا اور یہی تاریخ قریب جانے اور استقرار حمل کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہوگی۔ اگر ایام صحیح وقت پر نہ آتے ہوں تو پھر اسے معلوم کرنے کے لیے دوسرے طریقے بھی ہیں جو معالج  آپ کو وضاحت کے ساتھ بتلا سکتے ہیں۔

9 صحبت کے وقت اپنے اعضاء پر بہت زیادہ چکنی چیزوں خصوصاً جن میں روغنیات  ہوں، استعمال نہیں کرنی چاہییں۔ مثلاً کریم، پٹرولیم جیلی وغیرہ۔ چوں کہ روغنیات کِرَم منویہ کی حرکت پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بیضہ تک نہیں پہنچ پاتے۔ اسی طرح ایسے وقت اپنے مخصوص اعضاء پر خوشبودار اسپرے کرنا بھی مناسب نہیں ہوتا چوں کہ بیشتر اسپرے جراثیم کو ہلاک کرنے والے اثرات رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ کِرَم منویہ پر بھی مہلک اثر ڈالتے ہیں۔

علاج و لاعلاج کی صورتیں:

اگر کوئی پیدائشی یا خلقی خرابی ہو تو وہ لا علاج ہوسکتی ہے۔ اگر کِرَم منویہ بالکل نہ ہوں تو یہ صورت عام طور پر قابل علاج نہیں ہوگی۔ اگر کِرَم خصیوں میں بن رہے ہوں، مگر انہیں آگے لے جانے والی نالیاں بند ہوں تو عملِ جراحی کے ذریعہ اس خرابی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ کِرَم منویہ کی تعداد کم ہو یا وہ کمزور اور ناقص ہوں تو بھی صحتیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔

کچھ    مفید غذائیں :

کِرَم منویہ کی تعداد بڑھانے اور انہیں تن درست کرنے کے لیے خشک میوے مثلاً بادام، پستہ، چلغوزہ، کھوپرا، چرونجی وغیرہ کا زیادہ استعمال کیا جائے۔ سیاہ تل خاص طور پر فائدہ کرتے ہیں۔ کھانے کا چمچہ بھر کر ایک پیالی دودھ کے ساتھ پیس لیے جائیں اور ایک چمچہ شہد ملا کر صبح و شام پیا جائے۔ دال ماش غذا کے طور پر بھی کھائی جائے اور چند ادویہ کے ساتھ اس کا حلوہ بنا کر بھی کھایا جاتا ہے۔ سفید پیاز کا رس کھانے کے دو چمچے، ایک انڈے کی سفیدی اور زردی میں ملا کر تھوڑے سے خالص گھی میں معمولی سا تلا جائے اور صبح ناشتے میں نوش کیا جائے۔ دواؤں کے طور پر خارخسک خورد (گوکھرو) پر تحقیقات ہوئی ہیں اور اسے مفید بیان کیا جارہا ہے۔ اسے پانچ گرام کی مقدار میں دودھ کے ساتھ پیس کر، چھان کر صبح و شام پیا جائے۔ چند مفرد ادویہ مثلاً موصلی سفید، ثعلب مصری، تودری، بہمن سفید و سرخ بیجبند اور اسگندھ وغیرہ بھی مادے کے قوام کو درست کرنے اور اس کی مقدار کو بڑھانے میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔

عورتوں کو برادہ دندان فیل دو گرام کی مقدار میں روزانہ صبح نہار منہ کھلایا جائے، مگر پہلے اس کا بہت باریک سفید سفوف بنا لیا جائے۔ برگد کے درخت کی ڈاڑھی سایہ میں خشک کرکے اس کا باریک سفوف تیار کر لیا جائے اور اس میں برابر وزن دیسی شکر ملائی جائے۔ روزانہ صبح نہار منہ دس روز تک میاں اور بیوی دونوں 20 گرام کی مقدار میں دودھ کے ساتھ نوش کریں۔ فاد زہر حیوانی باریک سفوف کرکے ایک گرام کی مقدار میں بیوی کے ایام سے فارغ ہونے کے بعد چند روز تک روزانہ صبح نہار منہ کھلانا مفید ہوتا ہے۔ بشرطیکہ یہ صحیح دستیاب ہو۔ (مکہ مکرمہ میں یہ خالص مل جاتا ہے) آئیورویدک کی کتابوں میں ’’تخم شولنگی‘‘ کی بہت تعریف کی گئی ہے ۔ یہاں تک بھی درج ہے کہ اس کے بیج اگر شہد کے ساتھ استعمال کئے جائیں تو لڑکا پیدا ہوگا اور اگر گڑ کے ساتھ استعمال کئے جائیں تو لڑکی پیدا ہوگی۔ ایام سے فارغ ہونے کے بعد روزانہ ایک بیج ساتھ یوم تک استعمال کروایا جاتا ہے۔ مرکب دواؤں میں حب حمل، معجون معین حمل، معجون ثعلب، مغلظ جواہردار، تامینا، حب عنبر مومیائی، ’’نیوبا‘‘۔ وائیٹالیکس۔ ٹی اور معجون آرد خرما مفید ہیں۔