جموں کشمیر ستر سال سے زائد عرصے سے دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔علاقہ عالمی سطح پر متنازع قرار دیا گیا ہے

حمیراعلیم


ہر سال 5 فروری کو پاکستانی یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں۔اس دن مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔جلسے کیے جاتے ہیں جن میں کشمیریوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بنائی جاتی ہیں۔اور چند نغمے گا کر ہم اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں۔چند سال پہلے تک ہمارے ہاں مطالعہ پاکستان کی کتب میں کشمیر کے بارے میں پورا ایک باب شامل تھا جس سے بچوں کو کشمیر کی تاریخ اور اس کی اہمیت سے آگاہی حاصل ہوتی تھی۔پی ٹی وی پر خصوصا کشمیری زبان میں شام کے وقت ایک خبرنامہ بھی نشر ہوتا تھا۔جس میں مقبوضہ جموں کشمیر میں انڈیا کے مظالم دکھائے جاتے تھے اور تحریک آزادی کو سپورٹ کیا جاتا تھا۔پھر ہمارے حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف کتب سے کشمیر کا تذکرہ غائب کر دیا بلکہ ہر طرح سے اس کو فراموش کر دیا گیا۔

جون 1947ء کو تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا گیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ راج برطانیہ کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاستوں کو مذہبی اکثریت کی بنیاد پر انڈیا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا حق حاصل ہو گا لیکن اگر کوئی ریاست خود مختار رہنا چاہے تو اسے مکمل آزادی کا حق حاصل ہو گا۔یہ فیصلہ ہندوستانی ریاستوں کے متعلق ہوا تھا جبکہ ریاست کشمیر کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہی۔ مہاراجا ہری سنگھ نے انڈین اور پاکستانی سربراہان کو خطوط لکھے جس میں ان کو آگاہ کیا گیا کہ جموں کشمیر خود مختار ریاست رہے گی اور آپ سے مکمل سفارتی و تجارتی تعلقات بحال رہیں گےان خطوط کا جواب پاکستان نے تو دے دیا لیکن بھارت نے وقت مانگا جبکہ 14اگست 1947ء کو پاکستان بنا15اگست کو بھارت اور 16اگست کو پاکستان نے ریاست جموں کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ کے ساتھ معاہدہ جاری کیا۔لیکن 21 اور 22 اکتوبر 1947ء کی درمیانی شب 10000مسلح قبائل نے جن کی پشت پنائی ریگولر آرمی کر رہی تھی جموں کشمیر پر حملہ کر دیا جس کے بعد مہاراجا ہری سنگھ کو مجبورا انڈیا سے مدد مانگنی پڑی۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر انڈیا نے شرط رکھی کہ مہاراجا پہلے اپنی ریاست کا الحاق انڈیا سے کرے اس کے بعد انڈیا مدد کرے گا۔ اس صورت حال میں مہاراجا نے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ یہ عارضی الحاق ہے۔ ریاست جموں کشمیر کا مستقل فیصلہ ریاست کے عوام کریں گے۔اس کے بعد دونوں ممالک نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ بعد ازاں اقوام متحدہ نے مداخلت کر کے جنگ بندی کروائی۔

اس وجہ سے جموں کشمیر ستر سال سے زائد عرصے سے دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔علاقہ عالمی سطح پر متنازع قرار دیا گیا ہے۔اقوام متحدہ اور باقی بڑی اہم عالمی تنظیموں نے جموں کشمیر کے حق آزادی کو تسلیم کیا ہے۔اور اس سلسلے میں اپنی ثالثی کی پیش کی ہے۔ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 33.45 فیصد اور لداخ میں 46.41 فیصد ہیں۔ جموں میں ہندو 62.55 فیصد اور سکھ 3.28 فیصد ہیں اور لداخ میں بودھ 39.65 فیصد اور ہندو 12.11 فیصد ہیں۔اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیرمیں 99.9 مسلمان ہیں۔

تحریک آزادی کو کمزور کرنے کے لیے 5 اگست 2019ء کو بھارت نے آئین ہند کی دفعہ 370 کو ختم کرکے ریاست کو دو علاقوں میں تقسیم کر دیا۔متنازع علاقے کو اپنا علاقہ لکھ دیا – لیکن اس کے بعد تحریک آزادی مزید شدید ہو گئی ہے۔عوام کے اس شدید رد عمل کے باعث بھارت نے پوری وادی میں سخت کرفیو نافذ کر دیا۔ ریاست بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل اور موبائل کنیکشن بند اور مقامی سیاسی لیڈروں کو گرفتار کیا گیا۔گھر گھر تلاشی کے دوران ہزاروں بے گناہ نوجوانوں اور نوعمر لڑکوں کو گرفتار کرکے غائب کر دیا گیا۔

بھارت کے اس اقدام کی وجہ سے چین بھارت، بھارت پاکستان سرحدی تنازعات بڑھ گئے۔ کشمیری پچھلے 76 سال سے صرف اپنے حق خود ارادیت کے لیے اور آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔اور مسلم حکمران اور ریاستیں بالکل ایسے ہی خاموش تماشائی بنے ان کا تماشا دیکھ رہے ہیں جیسے کہ فلسطین ، شام اور روہنگیا کا۔

اقوام متحدہ میں کبھی کبھار ان ممالک کے متعلق کوئی بات کر کے ہر مسلم رہاست انگلی کٹا کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوا کر مطمئن ہو جاتی ہے۔حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر متحد ہو کر ہر ممکن کوشش کریں کہ مسلمانوں کو ان کا جائز،حق دلوائیں۔