روز مرہ کی زندگی نے ہماری سوچ کو مفلوج کر رکھا ہے عارضی مسائل اور گھریلوں جھگڑے ناچاقیاں ۔ یاد رکھیں مومن کبھی بھی تھکتا نہیں ہے اس کی سوچ بلند اور کردار میں وقار ہوتا ہے بامقصد زندگی کا

امۃ اللہ ند ااختر


کہتے ہیں انسان کا غریب ہونا اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا کہ اس کی سوچ کا غریب ہونا ۔ انسان میں شر کا ہونا عام سی بات ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک اس شر کے نتائج کا ہونا ہے ۔ قید صرف دیواروں کی قید نہیں ہوا کرتی ۔ انسانی تربیت کا مقید ہونا اور ضمیر کا قید ہونا مصنوعی اور عارضی قیود سے زیادہ خطرناک ہونا ہے ۔ آج کے اس تیز رفتار دور میں جہاں آزادی کی صدائیں گونجتی ہیں ۔ وہیں ذہنی غلامی اور سوچ کے چھوٹے پن ضمیر کا خواہشات کے ہاتھوں قید ہونا ہے ۔ دنیاوی اعتبار سے مجموعی نظر ڈالی جائے تو گھروں کے ماحول سے لے کر مقاصد تک قید ہیں ۔

روز مررہ کے کھانے پکانے سے لیکر ا نجیرنگ ڈاکٹر ماہرین سب کی مجموعی سوچ پیسے کا جمع کرنا اور مستقبل سنوارنا ہے ۔

مستقبل کس کا ؟؟ بیوی بچوں کا ۔
یہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا اس کل کائنات میں ایک آپ ہی کی بیوی ہے ؟
ایک آپ ہی کی اولاد ہے ؟
ایک آپ کا ہی مستقبل ہے ؟
جہاں جہاں یہ سوچ پنپتی ہے وہیں ضمیر غلام ہے ۔
میں میرا مال میری اولاد میرا گھر ۔
یہ ہے سوچ کی غلامی ۔ یہ ہے ذہنی نابالغی ۔ یہ ہے ضمیر کا بِک جانا ۔
پھر فلسطین کے بچے ۔
شام کی مائیں بہنیں ۔
نوجوان بیوائیں ۔
بوڑھی عورتیں ۔
کشمیر میں خون کا سیلاب
فلسطین میں خون کے دریا ۔
ہندستان میں قیدی کی طرح ادھورے پنپتے مسلمان ۔
میں کہتی ہوں مقبوضہ کشمیر نہیں ہے مقبوضہ ضمیر ہیں ہمارے ۔
جن میں صرف خودی کی مصنوعی قید ہے ۔ اور ہم بک چکے ہیں اپنے نفس اور شیطان کے ہاتھوں ۔ روز مرہ کی زندگی نے ہماری سوچ کو مفلوج کر رکھا ہے عارضی مسائل اور گھریلوں جھگڑے ناچاقیاں ۔ یاد رکھیں مومن کبھی بھی تھکتا نہیں ہے اس کی سوچ بلند اور کردار میں وقار ہوتا ہے بامقصد زندگی کا ۔ قیود سے آزاد وہ ہر لحاظ سے پرجوش سر گرم رہتا ہے ۔

یہاں ہمیں بے داری کی ضرورت ہے یاد رکھیں آپ جب تک سو رہے ہیں تب تک دنیا حسین ہے جہاں آپ بیدار ہوں گے اس کی ہولناکی آپ کو ڈسنے لگے گی اور آپ اس وقت تک قرار میں نہ آسکیں گے جب تک اپنے ضمیر کو اس کی قید سے آزادی نہ دلا دیں ۔

بھلا جو خود قید کی زندگی گزارے اسے مقبوضہ کشمیر سے کیا لینا دینا ۔ ؟ ا