چھوٹا بچہ دودھ کے ڈبے کو رو رہا ہے تو ساس صاحبہ دال دلیا نہ پا کر پریشان۔ بلڈ پریشر کی گولی بھی نہیں پان کے لیے چھالیہ بھی نہیں! لو بھئی سپر اسٹور عروج کو پہنچے اور شکور میاں کے گھر میں جھاڑو پھر گئی۔ یہ تو وہی مثل ہو گئی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا

ام محمد سلمان

اس دنیا میں شاید ہی ایسی خواتین پائی جاتی ہوں جنھیں خریداری کا شوق نہ ہو۔ اور یہ شوق بھی اس حد تک ہوتا ہے کہ چاہے درد سے جوڑ جوڑ دکھ رہا ہو مگر جیسے ہی شاپنگ کی بات آئے تو جوتا پہن برقع اوڑھ فوراً روانگی کو تیار ہو جاتی ہیں۔ پھر جب بازار میں پہنچ جائیں تو جب تک ہر اچھی بری، سستی مہنگی چیز کو ہاتھ لگا لگا کر نہ دیکھ لیں.... چین نہیں پڑتا ان نیک بختیوں کو ۔۔۔! اور جیب میں پیسا ہو تو سب کچھ خرید لینے کو بھی تیار۔

 لیکن خیر... سمجھ دار خواتین کبھی غیر ضروری چیزیں نہیں خریدتیں۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی چیزیں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں جو خواتین کو غیر ضروری نظر آئیں۔ اور ایسی خواتین بھی شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہیں جنھیں ضروری اور غیر ضروری میں تمیز کرنا آئے(بھئی خواتین سے معذرت کے ساتھ)۔ ویسے بے چاری بھولی بھالی خواتین بھی کیا کریں کہ ہر طرف سے انھیں گھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 

اب کہیں دور جانے کی کیا ضرورت! یہ اپنے امتیاز چچا کے اسٹور ہی دیکھ لیں۔۔۔ جب تک اوپر والی منزل میں نہیں گئے تھے، خدا گواہ ہے ہم اسے راشن پانی کی مارکیٹ ہی سمجھتے رہے۔ مگر جب بالائی منزل دیکھی تو چودہ طبق چودہ کے ہندسے سے ضرب کھا کے روشن ہوئے ۔۔۔ اللّٰہ اللّٰہ خواتین کے نرم نازک شگفتہ جذبات اور خواہشات سے ایسا کھلواڑ۔۔۔ توبہ توبہ! کوئی سمجھے ان سپر اسٹور والوں کو ۔ خدا کے بندو! دال سبزی، گوشت، بھاجی، سرف، صابن، شیمپو، ملکی اور غیر ملکی ضروری اور غیر ضروری تمام مصنوعات اور الم غلم سے جی نہیں بھرا تھا کہ اوپر پورے کا پورا مینا بازار سجا دیا۔ بے چاری خاتون خانہ جو گھر سے راشن لینے نکلی تھی بجائے راشن کے دو جوڑی سینڈل، چار برانڈڈ قمیصیں ، دو پاجامے ، دو پرس، ایک پرفیوم ، جڑاؤ کٹاؤ کے کنگن ، زرقون کے بندے اور بچوں کے چار کھلونے لیے چلی آ رہی ہیں۔ ادھر شکور میاں امتیاز کے شاپروں کو دیکھ کر آگ بگولا ہوئے جا رہے تو ادھر بیگم ہیں جو بندے کانوں سے لگا کر آئینے میں دیکھ دیکھ پھولے نہیں سما رہیں۔

چھوٹا بچہ دودھ کے ڈبے کو رو رہا ہے تو ساس صاحبہ دال دلیا نہ پا کر پریشان۔ بلڈ پریشر کی گولی بھی نہیں پان کے لیے چھالیہ بھی نہیں! لو بھئی سپر اسٹور عروج کو پہنچے اور شکور میاں کے گھر میں جھاڑو پھر گئی۔ یہ تو وہی مثل ہو گئی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔۔۔ بیگم شکور جو کئی دن سے میاں کے پیچھے پڑی تھیں کہ شاپنگ کے لیے جامع کلاتھ مارکیٹ لے جائیں مگر وہ بجٹ کو دیکھتے ہوئے حامی ہی نہیں بھرتے تھے۔۔۔ تو امتیاز اسٹور کی بالائی منزل نے یہ قصہ بھی تمام کیا۔ جیسے تیسے مہینا گزرا ۔۔ اگلے ماہ تنخواہ ملتے ہی شکور میاں بڑے بیٹے کا ہاتھ تھامے نکڑ کی بڑی دکان سے مہینے بھر کا راشن خرید لائے اور سکھ کا سانس لیا۔ اور ”بی بی شکورن“ یعنی کہ بیگم شکور... باورچی خانے میں منہ چھپا کر رہ گئیں ۔

 

ساس صاحبہ نے جو بہو کو پشیمان دیکھا تو ہاتھ پکڑ کر تخت پر لا بٹھایا اور پیار سے سمجھایا : ”میری پیاری شکورن! پچھلے مہینے جو ہوا سو ہوا مگر یہ بات سمجھ لو کہ خریداری کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ جیب دیکھ کر بجٹ بنایا جاتا ہے اور بجٹ کے اندر ضرورت کے مطابق خریداری کی جاتی ہے۔ جو چیز اپنی ضرورت کی نہ ہو، مٹی کے بھاؤ بھی مل رہی ہو تو مت خریدو۔ اپنے ضروری سامان کی فہرست بناؤ اور خرید لاؤ ۔

روپیا پیسا دیکھ بھال کے خرچ کرو ۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی سو کچھ جمع پونجی کڑے وقت کے لیے بھی اٹھا رکھنی چاہیے۔“

 

”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ماں جی! آئندہ ایسی غلطی نہ ہوگی۔“ بہو نے شرم سار سی ہو کر غلطی کا اعتراف کیا۔ ساسو ماں نہال ہو گئیں۔ گلے سے لگا کر بولیں ”آؤ بیٹی تمہیں خریداری کی دعا سکھا دوں ۔۔۔ آئندہ جب کبھی بازار جانا ہو تو اس دعا کو لازمی پڑھنا۔ عربی میں دعا یاد نہ ہو سکے تو اس کا ترجمہ ہی ذہن نشین کر لو اور اسے اپنے الفاظ میں مانگ لیا کرو ۔ پیارے اللّٰہ نے اپنے حبیب کی زبانی کیا خوب صورت دعا سکھائی۔۔۔

 

 بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُكَ خَیْرَ ھٰذِہِ السُّوْقِ وَخَیْرَ مَا فِیْھَا، وَاَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ ھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِكَ اَنْ اُصِیْبَ فِیْھَا یَمِیْنًا فَاجِرَةً اَوْصَفْقَةً خَاسِرَةً

ترجمہ: میں اللہ کا نام لے کر داخل ہوا۔ اے اللہ! میں تجھ سے بازار کی اور جو کچھ اس بازار میں ہے اس کی خیر طلب کرتا ہوں، اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بازار کے شر سے اور جو کچھ اس بازار میں ہے اس کے شر سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ یہاں جھوٹی قسم کھاؤں یا معاملہ میں نقصان اٹھاؤں۔

 

دعا کا ترجمہ سنتے ہی شکورن پھڑک اٹھی ۔۔ ماں جی! یہ دعا تو گویا میرے دل کی آواز ہے۔ کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ سمجھ میں ہی نہیں آتا کیا لوں اور کیا نہ لوں۔۔۔ ہر چیز اچھی لگتی ہے ایک لینی ہو تو دو چار پہ دل آ جاتا ہے۔ سوچتی رہتی ہوں کیا چھوڑوں کیا خریدوں، کوئی غیر ضروری چیز نہ خرید لوں جسے لے کر بعد میں پچھتاتی پھروں۔ اور کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ بازار میں کوئی چیز بہت ہی اچھی اور کام کی لگتی ہے مگر گھر آ کر بالکل فضول دکھائی دیتی ہے یا ویسی حسین نہیں لگتی جیسی بازار میں دکھائی دے رہی تھی۔ اس دعا نے تو سارے مسئلے ہی حل کر دیے اماں جان! بہو نے محبت اور عقیدت سے ساس محترمہ کے ہاتھ تھامے ۔

 

بی بی شکورن کا مسئلہ حل ہوا۔۔۔ اب ہمیں بھی اس دعا کا اہتمام کر لینا چاہیے۔ کتنی پیاری دعا ہے کہ اے اللہ مجھے خریداری کے شر سے بچا لیجیے۔ بھلا بندے کو کیا پتا کس چیز میں اس کے لیے خیر ہے اور کس میں شر ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس بازار اور اس کی ہر چیز کے شر سے بچا لے ۔ یعنی یہاں کے دکان داروں کے شر سے کہ نہ وہ فضول گوئی کر سکیں نہ بری نظر ڈال سکیں نہ سودے میں نقصان پہنچا سکیں۔ اور نہ ہی بازار میں ہونے والے دیگر شرور اس تک پہنچ سکیں۔ نہ ہی غیر ضروری اور بے فائدہ چیزیں خریدنے کی طرف دھیان جائے ۔ بلکہ اس دعا کا یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ انسان فالتو چیزیں خریدنے سے بچ جاتا ہے کہ کوئی چیز اس کی نظروں کو بھاتی ہی نہیں اور بھا جائے تو خریدنے کو طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔

 

 اس دعا میں اللّٰہ نے بڑے خیر کے خزانے پوشیدہ رکھے ہیں ۔ یہ دعا خرید و فروخت کے نقصان سے بچاتی ہے۔ اور ویسے بھی پاکستان کی معیشت جس تیزی سے زوال پذیر ہے اور مہنگائی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس پر قابو پانے کے لیے ہمیں اپنے اخراجات پر بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔ اپنے اندر کفایت شعاری کا شعور بیدار کرنا ہوگا تاکہ کچھ نہ کچھ بچت بھی ہوتی رہے اور فضول خرچی سے بھی بچے رہیں۔ حدیث مبارکہ میں فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ اور یہ بات تو حتمی ہے کہ ہماری پیاری خواتین ہرگز شیطان کی بہن کہلانا پسند نہیں کریں گی۔