فکر و تجسّس کی ملی جلی کیفیات میں تمام طلبہ ہال میں جمع ہو چکے تھے۔ پورے ہال میں ہو کا عالم تھا۔ یکایک پرنسپل شجاع کی مائیک سے ابھرتی آواز نے ہال کے سکوت کو توڑا "آج آپ تمام طلباء سے قبل از اعلان نتیجہ ایک چھوٹا سا امتحان لینا مقصود ہے۔ جس میں کامیابی حاصل کرنے والے طالب علم کو اسکالر شپ اور دیگر مراعات سےنوازا جائے گا تو ہوجائے ناپھر مقابلہ شروع۔۔۔

عائشہ یونس کراچی


اسفند نے ابھی کتاب کھولی ہی تھی کہ اس کی نگاہ شانِ بے نیازی سے آتے روحیل پر پڑی۔ اسفند نے متحیّر نگاہوں سے اسے جانچا۔ ارے اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ روحیل نے کالر جھاڑتے، گیند اچھالتے، اور بلّا ہوا میں لہراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں کہا تم دیکھ نہیں رہے کہ میں کرکٹ کھیلنے جا رہا ہوں۔ وہ تو میں دیکھ ہی رہا ہوں لیکن۔۔۔۔ ابھی اسفند جملہ مکمل بھی نہ کر پایا تھا کہ روحیل استہزائیہ انداز میں قہقہہ لگاتے ہوئے، یہ بولتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔ لیکن۔۔۔ کل پرچہ ہے، اور تم ہو کہ اس قیمتی وقت کو فضول کام میں ضائع کر رہے ہو وغیرہ وغیرہ۔ اس نے ایک جاندار قہقہہ لگاتے ہوئے اسفند کے کندھے کو تھپکا۔ دیکھ یار میرا یہ نصیحتیں سننے کا بالکل بھی موڈ نہیں ہے۔"

"تو کیا واقعی تم کھیلنے جا رہے ہو؟ "اسفند نے نرمی سے روحیل کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ " جی ہاں واقعی!" روحیل نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئےکہا۔

" تم شاید بھول رہے ہو کہ سر عکاشہ نے امتحانات میں آنے والے اہم مقامات کی نشاندہی کی تھی جنہیں میں نے من و عن طوطے کی طرح رٹ لیا ہے۔" روحیل نے اپنی شہادت کی انگلی سے اسفند کی ٹھوڑی اٹھاتے ہوئے اسے یاد دلایا۔ " اور میری مانو تو تم بھی میرے ساتھ کھیلنے چلو"روحیل نے اسفند کے ہاتھوں سے نوٹس لےکر پرے رکھے اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے لے جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اسفند نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے چھڑایا۔ یار روحیل مجھے اس سے پہلے کبھی تم پر اتنا تعجّب نہیں ہوا۔کیا تم محض اس بنا پر پڑھتے ہو کہ تم امتحان میں فقط پاس ہو سکو؟ کیا تمہارا مقصد صرف وقتی کامیابی ہے؟ اس نے دکھ بھری نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے کہا۔ تو بھلا اور کیا ہو سکتا ہے تم ہی بتادو ذرا روحیل نے عجلت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔

لیکن میرا مقصد سراسر تم سے مختلف ہے اسفند نہایت ہی مضبوط لہجے میں گویا ہوا، میں ابتدا سے انتہا تک تمام مقامات مذکورہ کو ذہن نشین کرتا ہوں۔ کوئی کتنے ہی اہم مقامات کی نشاندہی کردے لیکن میری نظرِ التفات میری ہر خواہش کو بیڑی، ہر جذبہ کو لگام دیتی ہوئی ان مقامات سے ازراہ تغافل برتتی ہوئی اپنی تا حدِّ نگاہ پھیلی ہوئی منزل کی طرف رواں ہوتی ہے جہاں بلند و بالا چوٹیاں اس سے ملنے کی خواہاں ہوتی ہیں۔
اسفند اپنی ہی رو میں بہتا گیا، اور کب روحیل اسے مجنون و دیوانہ سمجھ کر چھوڑگیا اسے ادراک ہی نہ ہوا۔ کالج میں آج معمول سے زیادہ چہل پہل تھی۔ کیونکہ طلبہ کے نتائج کا اعلان جو ہونا تھا۔

فکر و تجسّس کی ملی جلی کیفیات میں تمام طلبہ ہال میں جمع ہو چکے تھے۔ پورے ہال میں ہو کا عالم تھا۔ یکایک پرنسپل شجاع کی مائیک سے ابھرتی آواز نے ہال کے سکوت کو توڑا "آج آپ تمام طلباء سے قبل از اعلان نتیجہ ایک چھوٹا سا امتحان لینا مقصود ہے۔ جس میں کامیابی حاصل کرنے والے طالب علم کو اسکالر شپ اور دیگر مراعات سےنوازا جائے گا تو ہوجائے ناپھر مقابلہ شروع۔۔۔ پرنسپل شجاع نے جوش و جذبہ سے مخمور لہجے میں بلند آواز میں کہا۔ کچھ طلبہ پہلے سوال میں ہی اٹک گئے، اور کچھ دو کے جواب دے کر تیسرے میں بھٹک گئے، اور کچھ کوئی جواب نہ پاکر دائیں اور بائیں طرف کو کھسک گئے

مکمل جواب دینے والا صرف اور صرف اسفند تھا۔ جی ہاں وہی اسفند جس نے ہر کتاب کو بخوبی ذہن نشین کیا ہوا تھا نا کہ صرف امتحان میں نجات و کامیابی کے حصول کے لیے بلکہ اپنی سوچ و فکر کو وسیع تر کرنے اور زندگی کی ہر دوڑ میں فلاح و کامرانی کےلیے۔ اور آج انمٹ خوشیوں کی مالا اس کے چہرے پر ٹوٹ کر بکھری ہوئی تھی کہ وہ کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھ چکا تھا۔