ہوسکتا ہے ہمیں بار بار اپنی ذہن سازی کرنا پڑے کہ ماضی کی یادوں کو دل میں بسا کر سوائےمایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا، بار بار یہ جملے دہرائیں ، اپنے ذہن کو حال میں جینے کےلیے تیار کریں ،اپنے اردگرد کے ماحول سے لطف اندوز ہوں ،یہ سوچ ذہن میں لانی چاہیے کہ جو ہوا وہ ماضی تھا، وہ گزر چکا۔
نیر سلطانہ مانسہرہ

اتار چڑھاؤ سبھی کی زندگی میں آتا ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ ہمیشہ ہماری چاہت کے مطابق حالات پیش آئیں ، لیکن پھر بھی کچھ ایسے طریقے ہیں، جن کو اختیار کر کے ہم اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ماضی کو کوسنے اور کڑھنے کی بجائے اپنے حال پر توجہ رکھ کر،رشتوں کو ان کا مقام دے کر، ان رشتوں کی آبیاری کر کے،اپنے آپ پر توجہ دے کر،خود کو وقت دے کر،اپنے اندر ابھرنے والے جذبوں کی تکمیل کر کے ،یا ان کے پورا ہونے کے لیے کوشش کر کے،ہم حقیقی معنوں میں اپنی زندگی جی سکتے ہیں۔
موجودہ لمحے کو خوش آمدید کہنا:
اگر ہم صحیح معنی میں خوش رہنا چاہتے ہیں، پریشانی سے دور بھاگنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے حال کو ایک نعمت سمجھ کر اس کا استقبال کرنا ہو گا اور یہ یاد رکھنا ہوگاکہ اپنے ماضی کی غلطیوں کو اپنے حال کے لیے اصلاح بنا کر جینے والے ہی اصل زندگی جیتے ہیں ۔یہ نہیں کہ بندہ ماضی کے پچھتاووں کو اپنے گلے کا ڈھول بنا لے اور اسی کو ہر وقت پیٹتا رہے، ماضی کی تلخیوں کو اللہ حافظ کہہ کر حال کو گلے لگانا چاہیے!

ہوسکتا ہے ہمیں بار بار اپنی ذہن سازی کرنا پڑے کہ ماضی کی یادوں کو دل میں بسا کر سوائےمایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا، بار بار یہ جملے دہرائیں ، اپنے ذہن کو حال میں جینے کےلیے تیار کریں ،اپنے اردگرد کے ماحول سے لطف اندوز ہوں ،یہ سوچ ذہن میں لانی چاہیے کہ جو ہوا وہ ماضی تھا، وہ گزر چکا ،اب انہی حالات کو قناعت سے گزار کر ہم اپنے موجودہ دنوں کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
بامعنی تعلقات استوار کرنا:
انسانی تعلقات ہماری مجموعی خوشیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اپنے آپ کو ان لوگوں میں مشغول رکھنا ،ان لوگوں کا حلقہ اختیار کرنا جو قدم قدم پر ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں، مشکل وقت میں رہنمائی کرتے ہیں یہ لوگ ہماری ترقی کے سفر میں ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں ،ان کے تعاون کی بدولت ہم کامیابی کے زینے پہ قدم رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔اپنی محنت،کوشش اور اخلاص سے ہم ایسا حلقہ بنا سکتے ہیں جو ہر قدم پہ ہمارے مددگار ہوں، ایسے تعلقات کو پروان چڑھانا بے حد ضروری ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ایمانداری سے جڑے رہیں، دوسرے کے ساتھ کو سراہیں،اس کی سنگت کو اپنے لیے نعمت سمجھیں ، ہمارے انداز میں شکر بھرا ہو، جو بھی وقت ساتھ گزاریں اس کو ایک دوسرے کے لیے حسیں یاد بنا دیں۔

اپنی دیکھ بھال سے کبھی غافل نہ ہونا :
خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے اپنی جسمانی،جذباتی،اور ذہنی تندرستی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ،ایسی سرگرمیوں میں خود کو مشغول رکھنا چاہیے جو ہمارے جسم اور دماغ کی پرورش کریں اس کے لیے باقاعدگی سے ورزش کرنا،بھرپور نیند لینا،مراقبہ یا یوگا کی مشق کرنا یہ کام خو ش گوار زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ جو لوگ اپنی صحت اور آرام کا خیال رکھتے ہیں، وہ زندگی میں ہڑبڑاہٹ اور تناؤ سے محفوظ رہتے ہیں ، ویسے بھی جو خود خوش ہوگا وہی دوسروں کو خوشی دے سکتا ہے ، ہر وقت منہ بسورنے ، تکلیفوں کا رونا رونے والے بھلاخوشی کیسے دے سکتے ہیں ۔

اچھے جذبات کو نتیجہ خیز بنانا:
اپنے اندر پنپنے والے اچھے قابل قدر جذبات سے آگاہی اور پھر ان کو پورا کرنے کی کوشش انسان کے اندر توانائی اور خوشی کی لہر پیدا کر دیتی ہے، اس سے انسان کے اندر کچھ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے،اس لیے اپنے اندر کو کھوجتے رہنا چاہیے کہ میرے اندر کیا کیا جذبے پیدا ہو رہے ہیں ، جو جذبات معاشرے اور ارد گرد کے ماحول کی ترقی کے لیے مفید ہوں ،انہیں نتیجہ خیز بنانا چاہیے ۔ان کی تکمیل کے لیے جائز طریقے اور راستے اختیار کرنے چاہییں ۔یاد رکھنا چاہیے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنا تسکین کا انوکھا احساس دلاتا ہے۔ شکر گزاری اختیار کرنا

شکرگزاری ایک ایسی نعمت ہے جو نہ صرف ہمارے نقطہ نظر کو بدل سکتی ہے بلکہ مجموعی فلاح و بہبود میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے ،یہی نہیں بلکہ کئی بیش بہا نعمتوں کا سبب بن سکتی ہے۔زندگی میں موجود چھوٹی اور بڑی جو بھی نعمت میسر ہے ،اس کے لیے اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ظاہری طور پر جو اس کا ذریعہ بنا ہو اس کا شکریہ کرنے میں کبھی بخل نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تم نعمتوں کا شکر ادا کرو میں انہیں بڑھا دوں گا یہ نعمت کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے چاہے وہ ہماری اللہ سے محبت ہو،خاندان اور دوستوں کی طرف سے ملنے والی محبت ہو،اچھی صحت ہو یا اچھی صحبت ہو، یا فطرت کا حسن۔ منفی سوچوں سے چھٹکارا اور مثبت سوچ اختیار کرنا:

ہمارے بہت سارے کام اس لیے بھی خراب ہوتے ہیں کہ ہم منفی سوچوں میں گھرے رہتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ منفی سوچوں کو قریب نہ پھٹکنے دیں اور مثبت سوچ اختیار کریں ۔ اپنے معاملات اور گرد و پیش کے حالات کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں ، بد گمانی سے بچنا چاہیے ۔ نیگ گمان رکھنے کا حکم دیا گیا اور دوسروں کی ٹوہ میں رہنے سے منع کیا گیا ہے۔