! کشمیر کا حل اس کی ہندوستانی تسلط سے آزادی ہے اور یہ صرف طاقت سے ممکن ہے، مذاکرات سے ہرگز نہیں۔ کیوں کہ ہندوستان مذاکرات کے لیے تیار ہی نہیں، نہ ہی دنیا اس کو مجبور کر رہی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہندوستان کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے تو اس کے لیے لاکھوں فوجی استعمال بھی کر رہا ہے۔ ہم اسے اپنی شہ رگ کہتے ہیں لیکن صرف اخلاقی مدد کا دعویٰ کرتے ہیں۔ خود سوچو یہ ہم کس کو دھوکا دے رہے ہیں ...؟
ام محمد سلمان


صبح کے نو بج چکے تھے۔ سب گھر والے اپنے اپنے کاموں کو جاچکے تھے۔ دانیہ نے کچن صاف کر کے موبائل پر ایک نظر ڈالی اور ٹیبل پہ رکھ دیا۔ آنکھیں بند کر کے وہ گہری سوچوں میں گم تھی اور ذہن میں یہ شعر گونج رہا تھا... روتی ہے کشمیر کی دھرتی روتے ہیں انسان شاید ہم کو بھول چکی ہے ارضِ پاکستان.... کیا واقعی ہم اتنے بے بس ہیں کہ کشمیر کے لیے کچھ نہیں کر پائیں گے؟ مظلوم کشمیری یونہی ظلم جبر کی چکی میں پستے رہیں گے....؟ وہ انہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں تھی کہ موبائل کی اسکرین روشن ہوئی اور نام دیکھتے ہی وہ ایک دم خوش ہو گئی، اس کی دوست رفعت کا میسج تھا...

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! کیسی ہو میری نادان دوست!
" ٹھیک ہوں میری سیاست دان دوست!"
دانیہ نے خوش دلی سے جواب ٹائپ کیا۔
"ہاہاہا... برجستہ جواب۔۔ کافی ذہین ہو گئی ہو ..."
"ہاں بس تمہاری جدائی کا اثر ہے، عقل ٹھکانے آتی جا رہی ہے۔ ویسے بڑے اچھے وقت پہ تمہارا میسج آیا۔ سچ میں بہت اداس تھی اور دل سے تمہیں یاد کررہی تھی۔ تم یہ بتاؤ ایک ہفتے سے آف لائن کیوں تھیں..؟"
رفعت: ارے بس بچوں کے امتحانات چل رہے تھے تو نیٹ بالکل آف کررکھا تھا۔ تم سناؤ سب خیریت تو ہے ناں؟
دانیہ : خیریت ہو سکتی ہے بھلا؟ تم نیٹ بند کر کے بیٹھی ہو تمہیں کیا خبر دنیا میں کیا ہورہا ہے...؟
رفعت: واہ جناب عالیہ...! میں بقائمی ہوش و حواس اسی دنیا میں تھی۔ یہاں گھر میں سب ایک سے بڑھ کر ایک سیاستدان بیٹھے ہیں، خوب زوردار بحث چلتی ہے روزانہ....

دانیہ: اچھا تو پھر بتاؤ کچھ خبر ہے کشمیر کی؟ کیا حالات ہیں...؟ پاکستان کی حکومت، فوج، سب کیا کررہے ہیں؟ سلامتی کونسل کے اجلاس کا کیا بنا؟ کوئی امید افزا خبر ہے یا نہیں؟

رفعت: ارے بابا اتنے سارے سوالات... ذرا دم تو لو... سچی بات یہ ہے دوست! تادمِ گفتگو سلامتی کونسل سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں اپنی اپنی کامیابی بتا رہے ہیں۔ ہماری حکومت کے مطابق سلامتی کونسل کے کچھ ارکان نے یہ کہا کہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ نہیں، اسی بات پر حکومت پھولی نہیں سما رہی۔ لیکن اس بات سے کشمیریوں کو کیا فائدہ ہو گا اور ہندوستان حکومت پر کیا لازم ہوا یا اس کا کیا نقصان یہ نہیں بتایا گیا۔ کچھ بھی واضح نہیں۔ نہ ہی ابھی تک کسی مستقل اجلاس کا فیصلہ ہوا ہے۔

دانیہ: تمھارے خیال میں کشمیر کے مسئلے کا حل کیسے اور کیا ہو سکتا ہے؟

رفعت: میری دوست! کشمیر کا حل اس کی ہندوستانی تسلط سے آزادی ہے اور یہ صرف طاقت سے ممکن ہے، مذاکرات سے ہرگز نہیں۔ کیوں کہ ہندوستان مذاکرات کے لیے تیار ہی نہیں، نہ ہی دنیا اس کو مجبور کر رہی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہندوستان کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے تو اس کے لیے لاکھوں فوجی استعمال بھی کر رہا ہے۔ ہم اسے اپنی شہ رگ کہتے ہیں لیکن صرف اخلاقی مدد کا دعویٰ کرتے ہیں۔ خود سوچو یہ ہم کس کو دھوکا دے رہے ہیں ...؟

دانیہ: جب بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج لگا رکھی ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرتا..؟ کون سی مصلحتیں ہیں کس کا ڈر ہے؟ کوئی کچھ کرتا کیوں نہیں..؟

رفعت: دانیہ! بات یہ ہے کہ اگر پاکستان فوجی طاقت استعمال کرے تو دنیا بھر سے اس پر دباؤ پڑے گا، سب اسے ہی کہیں گے تم غلط کر رہے ہو۔

دانیہ: گویا پاکستانی فوج عالمی طاقتوں کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی؟

رفعت: لگ ایسا ہی رہا ہے، گو ہمارے سپہ سالار نے کہا ہے ہم کشمیر کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مگر عملاً فوج کیا کرتی ہے، ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔

دانیہ: عالمی طاقتیں بھارت پر کیوں اثر انداز نہیں ہوتیں..؟ صرف پاکستان پر ہی کیوں دباؤ ڈالاجاتا ہے..؟

رفعت: الکفر ملۃ واحدہ، وہ سب ایک ہیں اور ایک ہو جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات ظاہری ہوتے ہیں، یوں تو تمام اسلامی ممالک پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں لیکن اس قلعے کی مضبوطی کے لیے کرتے کچھ نہیں، سب اپنی حکومتوں کے نشے میں مست ہیں، مسلمان حکومتیں ویسے بھی کبھی ایک نہیں ہوئیں۔ جب تک خلافت عثمانیہ قائم رہی، خلافت کی برکت سے کچھ رعب قائم رہا اب تو رسمی خلافت بھی نہیں رہی۔

دانیہ: مجھے اپنی فوج پہ بہت بھروسا ہے، رفعت! تم کیا کہتی ہو اس بارے میں....؟

رفعت: ہماری فوج دنیا کی مانی ہوئی اور صف اول کی افواج میں سے ایک ہے، اس کی صلاحیت پر شبہہ نہیں اور جذبہ یقیناً لائق تحسین اور قابل بھروسا ہے۔ لیکن جب عالمی دباؤ پڑے گا تب سالار اور ان کے ساتھی کیا فیصلہ کرتے ہیں، کچھ کہنا مشکل ہے۔

دانیہ: ایک سوال کا جواب دے دو رفعت! کشمیر کے ان حالات میں ہم دعاؤں کے علاوہ کیا کریں جو ذہنی تکلیف سے نجات ملے.. کچھ دل کو سکون ملے اور کشمیری بھی اس ظلم و جبر کی فضا سے آزادی پائیں۔

رفعت: سچی بات تو یہ ہے ابھی ایسے حالات ہی ہیں، نہ کسی کی وہاں تک رسائی کہ کشمیریوں کی مدد کے لیے ان کا ہاتھ بٹائیں، جو ہوگا، ہماری فوج ہی کرے گی۔ فوج جب کرے گی تو نظر آہی جائے گا، اس لیے کسی تنظیم کے ہاتھوں کھلونا بننا اور اس پر اعتبار کرنا پہلے سے قائم اعتماد کھونا ہے، اگر کشمیر کے نام پر کوئی چندہ مانگے تو پلیز کبھی نہ دینا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے ہندوستان نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ گلگت اسکردو پر بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ دانیہ: افففففففف خدایا! رفعت: ہمیں اپنی فوج پر بھروسے کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعائیں کرنی چاہییں، فوج اگر ایمانی طاقت کے ساتھ اور کسی کے دباؤ میں آئے بغیر لڑے گی تو یقیناً نہ صرف پاکستان اور آزاد کشمیر کا دفاع کرے گی بلکہ کیا عجب یہی فوج مقبوضہ کشمیر بھی آزاد کروا لے، گو ابھی تو یہ خواب ہی ہے لیکن اللہ کروادے تو کیا عجب !

دانیہ: رفعت ! پاکستان جس حال میں آزاد ہوا، ایک لولا لنگڑا سا خطہ ارضی تھا جو آج اپنے پیروں پہ کھڑا ہے۔ یقیناً یہ سب اللہ کے حکم سے ہوا۔ اللہ نے پاکستان کو ہر چیز سے نوازا اور جس کے لیے یہ بنا اسی سے محروم کر دیا.... کیوں رفعت آخر کیوں ایسا ہوا ؟

رفعت: دانیہ میری دوست! یہ بہت بڑا المیہ ہے بہت دکھی کرنے والی بات ہے لیکن یہ ہماری بہت سی اجتماعی غلطیوں کا بھی نتیجہ ہے، آپس کی نااتفاقیاں، دشمن کی چالیں اور سازشیں، انہیں نہ سمجھنے کا بھی نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ مردم شناسی نہ ہونا، ذاتی مفادات اور ذاتی پسند ناپسند کے لیے لڑنے کا بھی نتیجہ ہے۔ کوئی ایک پہلو نہیں، جس پر ہاتھ رکھیں وہی دکھتی رگ ہے۔ کوئی ایک ذمے دار نہیں، سبھی ذمے دار ہیں۔

دانیہ: اتنا تو میں بھی جانتی ہوں رفعت کہ قوموں کا معاملہ افراد سے الگ ہوتا ہے۔ کسی ایک فرد کی غلطی اور ایک قوم کی غلطی ایک جیسی حیثیت نہیں رکھتی... اگرچہ ہماری بہت سی خامیاں ہیں، عیب ہیں، ہم بہت بڑے مجرم ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی آج پاکستان سلامت کھڑا ہے... لیکن اسلام کا کلمہ یہاں بلند نہ ہو سکا۔ کیا ہمیں زمین کا ٹکڑا صرف عمارتیں اور سڑکیں بنانے کے لیے چاہیے تھا یا اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے..؟ کس لیے ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دیں...؟مجھے یہ معاملہ سمجھ میں نہیں آتا رفعت... جب اللہ نے ہمیں انگریزوں اور ہندوؤں سے نجات دی تو ان کرپٹ حکمرانوں اور خود غرض منافق لوگوں کے حوالے کیوں کر دیا... کیوں کر دیا....؟

رفعت: اللہ کے بھید اللہ ہی جانے... اس کی مصلحتوں کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ کیا پتا اس نے کیا فیصلہ کر رکھا ہے۔ بس یہ یقین ہونا چاہیے ملک جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا، ان شاء اللہ وہ ضرور حاصل ہوگا، لیکن اللہ یہ کام کن ہاتھوں سے اور کب لے گا، یہ پتا نہیں۔ جب سے ملک بنا، مجموعی طور پر، ہر آنے والا خود کو نجات دہندہ ہی کہتا ہے اور ہر جانے والا خود کو اس ملک کا وفا دار، ایک ہو کر ملک کے لیے کسی نے سوچا ہی کب ہے اور ہم عوام کھلونا بنے ہوئے ہیں۔

دانیہ: تو پھر ہم کیا کریں... آزادی کا مقصد کب حاصل ہو گا؟

رفعت: ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کشتی منجدھار میں پھنسی ہے۔ صرف کوشش سے نہیں نکل سکتی، ہوا کا رخ تبدیل ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔ اس کے لیے دعائیں کرنا ہوں گی، اللہ تعالیٰ ہوا کا رخ کب تبدیل کرتے ہیں، اللہ کی مصلحت کیا ہے.. وہ اللہ ہی جانے۔ ہماری کوششوں سے یہ رخ تبدیل نہیں ہوگا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ ہم اپنی جگہ پر تو کھڑے رہ سکتے ہیں، ہم دعائیں کر سکتے ہیں اور کرنی چاہییں۔ ہم اس سے زیادہ کے مکلف نہیں، یہ بات بہت سوچ سمجھ کے کہہ رہی ہوں۔ بہت سی آوازیں سنائی دیں گی، لیکن ان کے پیچھے چلنے سے فتنہ پھیل سکتا ہے ہم فتنے کا شکار ہو سکتے ہیں، حالات کا رخ تبدیل نہیں کر سکیں گے، مزید پھنس جائیں گے۔

دانیہ: تو کیا ہم صرف دعاؤں کے سہارے بیٹھے رہیں گے..؟

رفعت: عزیز دوست! تم ان دعاؤں کو صرف دعائیں سمجھ رہی ہو، جن کو نبی الآخر الزمان ﷺ نے مومن کا ہتھیار کہا ہے، ہاں یہ بات الگ ہے کہ ہم یہ ہتھیار استعمال کرنے کا طریقہ بھول جاتے ہیں۔ پتہ ہے جب کسی ماں کا بچہ ہسپتال میں آئی سی یو میں داخل ہو تو وہ باہر کیسے تڑپتی ہے، کیسے دعاؤں کا ہتھیار اُٹھاتی ہے، اور کس امید سے مانگتی ہے کہ رب کائنات اسے نامراد نہیں لوٹائے گا،،، ڈاکٹروں کی ہزار ناامیدی کی باتیں اس کے کانوں میں تو شاید چلی جائیں لیکن دل و دماغ انھیں قبول نہیں کرتا، پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ اسے مختارِ کُل پر اس وقت جو بھروسہ ہوتا ہے، وہ بڑے بڑے دعووں کو بھی مات دے دیتا ہے،،، یہ ہوتی ہے دعاؤں کی طاقت،،، جسے ہم صرف دعائیں سمجھ لیتے ہیں، کیونکہ ہم میں وہ تڑپ پیدا نہیں ہوتی،،، کیا اس تکلیف میں ہم سے کھانا پینا چُھوٹا؟ ہماری راتوں کی نیند اُڑی؟ کیا ہمارے روزمرہ معمولات میں کوئی کمی آئی،، نہیں نا؟؟

دانیہ: (گلے میں پھنسی ہچکی کو روکتے ہوئے) نہیں،،، وللہ ایسی رمق بھی نہیں...

رفعت: پیاری دوست، تم نے وہ واقعہ نہیں پڑھا جس میں ایک باپ مسجد میں نماز کے بعد زاروقطار رو رو کر اپنے رب سے سرگوشیاں کر رہا تھا، کچھ فاصلے پر بیٹھے ایک نمازی نے یہ دیکھا تو پاس آکر تکلیف پوچھی۔ باپ نے اپنے بیٹے کے ہسپتال میں زیرِ علاج ہونے کا بتایا تو نمازی نے باپ کی ظاہری حالت دیکھتے ہوئے مالی مدد کی پیشکش کی۔ باپ نے کہا کہ باہر جو بڑی گاڑی کھڑی ہے وہ میری ہے، میں یہاں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ کا مالک ہوں، لیکن بیٹے کی تکلیف نے میرا بُرا حال کر رکھا ہے، لہذا میں سب سے پہلے اپنے حقیقی مالک کے پاس آیا ہوں کہ وہی ہے جو میرے مال و دولت اور تمام تر وسائل کوحکم دے گا تو وہ کچھ کام آسکیں گے، ورنہ مجھ میں اور ایک بھکاری میں کوئی فرق نہیں،، میں جان گیا ہوں کہ یہ سب وسائل میرے مالک کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، اس لئے مجھے اپنے رب کو منانا ہے، اپنے گناہوں پر توبہ کرنی ہے، ہدایت کی وہ راہ مانگی ہے جس پر اس کی مدد آتی ہے،،،، میرے لئے دعا کرو بھائی،،، دعا کرو،،،،

دانیہ: اللہ اکـــبر،اللہ اکـــبر،، لیکن تم تو ہم جیسی گھریلو خواتین کو بھی ملکی و غیر ملکی حالات سے باخبر رہنے کی تلقین کرتی ہو، تو اس کا کیا فائدہ جب ہمارا کام دعائیں کرنا ہی ہے،،،

رفعت: میری پیاری بدھو دوست! مومن حالات سے بے خبر نہیں رہ سکتا،،، اور بے شک ہم گھریلو خواتین ہیں تو کیا مومن نہیں ہیں؟ جب تک ہمیں حالات کی سنگینی کا احساس نہیں ہوگا، ہماری دعاؤں میں تڑپ کیسے پیدا ہوگی؟

دانیہ: ٹھیک!!!

رفعت : دوست! ہم پر اپنے آباء کا قرض بھی تو ہے، یہ ملک سلامت رہے اور جس مقصد کے لیے آزاد ہوا، وہ حاصل ہو۔ اس وقت کوشش کا رخ یہی ہوسکتا ہے، جہاں تک ہو سکے خود اپنے آپ کو اور اپنے گھر میں اسلامی تعلیمات کی پابندی، فرائض کی بجا آوری ، حرام سے اجتناب ، دوسروں کےحقوق ادا کرنا تواضع اور قربانی کا جذبہ بحال رکھنا... امید ہے اللہ تعالی اس سے ہمارے حال پہ رحم فرمائیں گے۔ اگر ہماری زندگی میں مقدر نہ بھی ہوا تو ان شاء اللہ غفلت کے مرتکب قرار نہیں پائیں گے اللہ کے ہاں اس پر ہماری پکڑ نہیں ہو گی۔ان شاء اللہ !

دانیہ : تم ٹھیک کہہ رہی ہو رفعت! ہماری اکثریت حالات کی درستی کے لیے گلیوں اور بازاروں میں نکل جاتے ہیں، جلسے جلوس ریلیاں، نعرے، ان میں لگ اور پھنس جاتے ہیں اور گھر میں دین کا نام بھی نہیں ہوتا، فرض نمازوں میں غفلت ہوتی ہے، دیگر فرائض کی بجاآوری کی طرف توجہ نہیں ہوتی، بہت سے حرام کام کرتے ہیں۔ الا ماشاءاللہ ہمیں ان سب سے بچنا ہوگا۔ ہم سب کو اس کے لیے محنت کرنا ہوگی۔ تب ایک دن ہماری کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔ اسلام اسلام کرنے سے اسلام نہیں آئے گا بلکہ اس کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل کرنا ہوگا، تب اللہ ضرور ہماری دعائیں سنے گا ان شاء اللہ ۔

رفعت : ان شاء اللہ العزیز، اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد فرمائیں،،،

آمــــین ثــم آمـــین ، دونوں دوستوں کے دل کی گہرائیوں سے آواز آئی۔