حمنہ کامران اسلام آباد

 فروری کا تیسرا ہفتہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ سورج اپنے جوبن پر تھا۔ دن کو روشن کرتا ہوا۔ روشن  کرنیں درختوں کی ٹہنیوں پر پھوٹتی کونپلوں میں سے راستہ بناتی ہوئیں  کسی خواب کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ہوائیں موسمِ بہار کی آمد کا پتا دے رہی تھیں۔ جہاں تک نگاہ جاتی  زمین سر سبز دکھائی دیتی تھی۔

ہر شے میں سکون پوشیدہ تھا۔ سکون ایسا جو نگاہ ڈالنے پر دل میں اتر جائے۔ جس کا کوئی مول نہ ہو۔ درختوں کی چھاوں تلے لڑکیاں اپنی بسوں کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ ٹھنڈے جوس اور ڈرنکز سے خود کو سیراب کرتے دور تک پھیلی  سڑک کو تکتی تمام لڑکیاں تھکاوٹ کا شکار تھیں۔ کبھی کبھی سڑک کے کنارے لگے درختوں کے پتے ہلنے لگتے اور ہلکی ہوا چلنے لگتی جو کافی بھلی محسوس ہوتی تھی۔ نئی زندگی شروع ہو چکی تھی۔ نئے سفر کی تلاش اور نئی منزلوں کو پا لینے کی جستجو مل گئی تھی۔ پرانے سفر کے ساتھی بچھڑ چکے تھے۔ پرندوں کا شور بھی کانوں میں رس گھولتا تھا۔ وہ درختوں سے اڑتے جاتے اور کھلی فضا میں گھومتے تھے۔ قدرت کا نظام کہتا تھا آو دیکھ لو تم! جو تھک ہار بیٹھے تھے اور امید کھو بیٹھے تھے۔ تمہارے دل میں مایوسی بھر گئی تھی۔ کیا تمہاری پریشانیوں کا حل نہیں نکالا گیا؟ کیا امید نہیں لائی گئی؟ کیا سوکھے درختوں پہ گلابی اور سبز کونپلیں گواہ نہیں ہیں؟ اور انہی درختوں کے سائے تلے کھڑے بشر ایمان لے آئے تھے اس ذات پر جو گر جانے پر ہمیشہ اٹھا لیتی ہے، جو کوئی ایسی مشکل نہیں بھیجتی جس کا حل نہ ہو۔ وہ ذات جو سب کو پیدا کرتی ہے اور پھر سے زندگی دیتی ہے۔ بسیں آنا شروع ہو چکی تھیں۔ سڑک خالی ہوتی جا رہی تھی۔ علم حاصل کرنے والے واپسی کی راہ کو تکتے تھے۔ اپنی بس کی طرف قدم اٹھنے لگے تو راستے میں کئی جگہ پیلے پھول نظر آئے، کہیں دو تین تو کہیں بھرمار تھی۔ ہوا ان کو ایک جگہ ٹکنے نہ دیتی تھی۔ ایک جگہ رک کر ایک پھول توڑا اور ہاتھ میں پکڑی کتاب میں رکھ لیا۔ بس میں چڑھی تو سیٹ بھی مل گئی۔ واقعی نئی امید آ چکی تھی۔ سفر کا آغاز ہوا۔ کچھ ہی دیر میں درخت پیچھے کو بھاگنے لگے، عمارتیں نظروں سے اوجھل ہوتی گئیں اور ہم جامعة کی حدود سے باہر نکل آئے۔ میرے لب اس کے ذکر میں ہلنے لگے جس نے مجھے امید کی کرن تھمائی  تھی۔ بےشک وہ ہر چیز پر قادر ہے!