ماں کے قدموں تلے جنت، تو بیوی کو نصف بہتر اور لباس کہا، تین بہنوں اور بیٹیوں کی اچھی پرورش اور نکاح کروانے کے لیے جنت میں پیارے آقاﷺ کی رفاقت کی خوش خبری ،بیوہ بیٹی اور بہن کی کفالت پر جنت میں گھر کا مژدہ ۔۔ کیا کیا کچھ نہیں بتاتا ہمارا پیارا مذہب اسلام
حفصہ محمد فیصل

حقوق نسواں کی سب سے بڑی علمبردار جماعت کا نام مذہب اسلام کو کہاجائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ نبی کریم آقائے دو جہاں ﷺ نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے جو عزت عورت کے روپ میں ماں ،بہن،بیوی اور بیٹی کو دی وہ تمام عالم پر عیاں ہے۔آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عورت پر ڈھائے اپنے پچھلے ظلموں پر روتے اور نادم ہوتے۔۔ ماں کے قدموں تلے جنت، تو بیوی کو نصف بہتر اور لباس کہا، تین بہنوں اور بیٹیوں کی اچھی پرورش اور نکاح کروانے کے لیے جنت میں پیارے آقاﷺ کی رفاقت کی خوش خبری ،بیوہ بیٹی اور بہن کی کفالت پر جنت میں گھر کا مژدہ ۔۔ کیا کیا کچھ نہیں بتاتا ہمارا پیارا مذہب اسلام ۔۔
وجہ تمہید یہ کہ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک خبر پڑھی کہ ؛ "پاکستان سمیت دنیا بھر میں لڑکیوں کا عالمی دن ہر سال 11 اکتوبر کو منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بچیوں کو درپیش مسائل بشمول صنفی امتیاز، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبرو تشدد کے خلاف آواز اٹھانا اور مردوزن کے لیے مساوی مواقع کی دستیابی یقینی بنانا ہے۔"
٭٭٭ اقوامِ متحدہ نے 19دسمبر 2011ء کے روز لڑکیوں کا عالمی دن منانے کی قرارداد منظور کی اور 2012ء سے ہی ہر سال باقاعدگی سے یہ دن منایا جانے لگا۔

گزشتہ برس بھی اقوامِ متحدہ کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پرائمری اسکول جانے کی عمر رکھنے والی 3 کروڑ 10 لاکھ بچیاں اسکول نہیں جاتیں اور 15 سے 19سال کی ہر 4 میں سے 1 یعنی 25 فیصد کے لگ بھگ لڑکیاں جسمانی تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں۔

اگر ہم دورِ جاہلیت کی بات کریں تو کمسن بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ بچیوں کے ساتھ انسانیت سوز تشدد معمول کی بات بن چکی تھی اور صنفی امتیاز پر مبنی یہ معاشرہ دیگر بے شمار برائیوں کا بھی شکار تھا۔ پاکستان سمیت متعدد ممالک میں جب کسی شخص کے ہاں 21ویں صدی میں بھی بیٹی پیدا ہوتی ہے تو بے شمار لوگ صنفی امتیاز پر مبنی تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ ساس، سسر سمیت دیگر رشتوں سے بھرپور مشرقی معاشروں بالخصوص پاکستان اور بھارت میں لڑکے کی پیدائش کو لڑکیوں سے آج بھی بہتر سمجھا جاتا ہے۔

دسمبر 2011 ءکو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن کے طور پر منانے کے لیے قرارداد 66/170 منظور کی تھی، تاکہ بچیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ درپیش چیلنجوں کا سامنا کر نے میں ان کی مدد کی جاسکے۔بچیوں کے عالمی دن کا اعلان پہلی بار 1995 میں بیجنگ میں خواتین سے متعلق ایک عالمی کانفرنس میں کیا گیا تھا۔ یہ دنیا بھر کے نوعمر لڑکیوں کے ساتھ درپیش مسائل کو حل کرنے کے غرض سے یہ پہلا قدم تھا۔ لڑکیوں کے عالمی دن کا آغاز ایک غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر کیا گیا تھا۔ اس مہم کی شروعات لڑکیوں کے حقوق کو فروغ دینے اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں غربت سے نکلنے میں ان کی مدد کے لیے کی گئی تھی۔

گھریلو تشدد کے متعلق 19 سال کی تقریباً 44 فیصد لڑکیاں یہ سمجھتی ہیں کہ بیوی کو مارنا شوہر کا حق ہے۔ حالاں کہ ہمارا مذہب اسلام اس اقدام کے سخت خلاف ہے۔ انسانی اسمگلنگ:

96فیصد بچیاں اور خواتین انسانی اسمگلنگ کے ذریعے جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک خبر کے مطابق دنیا بھر میں 11 اکتوبر کو انٹر نیشنل ڈے فار دی گرلز چائلڈ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 19 دسمبر 2011 کو یہ دن منانے کی قرار داد پاس کی تھی۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 سے 19 سال کی عمر کی ہر چار میں سے ایک لڑکی کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ پاکستان میں اس عمر کی تیس فیصد لڑکیوں کو مختلف قسم کے تشدد کا سامنا ہے۔ پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی اور تعلیم میں رکاوٹ لڑکیوں کے خلاف سب سے بڑا ظلم ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس سال اس دن کی تھیم نو عمر لڑکیوں کو با اختیار بنانا اور ان پر ہر قسم کے صنفی تشدد کو ختم کرنا ہے۔ یونیسیف کی تازہ رپورٹ کے مطابق تشدد کا شکار پاکستانی لڑکیوں میں سے 51 فیصد نے کبھی اس کے بارے میں زبان نہیں کھولی۔ خاتون پولیس افسر سیدہ غزالہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کا تشدد کے خلاف زبان کھولنا بذات خود ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس دن کا خاص پیغام دیتے ہوئے تمام ممالک کی حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ "وہ خواتین اور بچیوں پر ہونے والے تشدد کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا کریں ۔" پاکستان لڑکیاں زندگی کے ہرشعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑرہی ہیں، ترقی یافتہ پاکستان کے حصول کیلئے بچیاں اپنا کردار ادا کررہی ہیں،حکومتی اقدامات کی بدولت بچیوں کو سربلندی اور ترقی کے مواقع ملے ہیںِ ، حالیہ برسوں میں لڑکیوں اور خواتین کی معاشرے میں شرکت بڑھی ہے، تعلیم سے برداشت ،ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس خاص دن اور رپورٹ کو ایک طرف رکھ کر سوچیں تو بحیثیت مسلمان اور اسلامی ملک کے فرد ہوتے ہوئے ہم کیوں اپنے رب اور رسول کے پیغام کو بھلا کر پس پشت ڈالے بیٹھے ہیں۔ اگر ہم درج بالا کے مرتکب نہ ہوتے تو کیوں کر پاکستان کا نام ظلم و ستم سہتی بچیوں اور عورتوں کی صف میں آتا۔

ضرورت ہے سوچنے کی اور کچھ کر دکھانے کی ،ورنہ قیامت دور نہیں جس دن پکارنے والی پکارے گی کہ ؛ "بای ذنب قتلت"...