بنت عثمان کراچی
یہ بات عیاں ہے، کہ ابن آدم کی جبلت میں اللہ تعالی نے شر کا مادہ رکھا ہے ۔ عموما انسان کامیلان نیکیوں کی بنسبت برائیوں کی طرف زیادہ ہوتاہے۔اس کرہِ ارض پر ماسوائے انبیاء کی کوئی معصوم نہیں۔ ہر شخص خطا کا پتلا ہے۔حدیث پاک میں ارشاد نبوی ہے۔اگر تم گناہ نہ کرو ،تو اللہ تعالی تم کو ختم کر دے گا، اور تمہاری جگہ ایسی قوم لے کر آئے گا ،جو گناہ کر کے اللہ تعالی سے استغفار کریں گے تو اللہ ان کے گناہوں کو بخش دے گا"۔


ہم میں سے ہر شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے، کہ گناہ اللہ تعالی کی ناراضی کا سبب ہے جو انسان کو ہلاکت تک پہنچا دیتا ہے۔باوجود کوشش کے اس سے بچنا ناممکن ہے ،مگر اللہ تعالی نے اس کے لیے ایک بہت ہی آسان راستہ بتا دیا،جو اس گناہ کو بالکل جڑ سے ختم کر دیتا ہے ۔"وہ توبہ ہے"۔

اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حرام کیا اور ان سے منع فرمایا ہے ، ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرنے کے بعد اس پر سخت نادم ہونا، اور آئندہ کے لیے اسے نہ کرنے کا عزم کرنا توبہ کہلاتا ہے"۔توبہ ایک ایسا عمل ہے ،جس میں وقت کی کوئی قید نہیں حدیث پاک میں ہے"جس نے توبہ کی، قبل اس کے ،کہ سورج مغرب سے طلوع ہو، اللہ اس کی توبہ کو قبول فرماتا ہے"۔اللہ تعالی انتظار میں ہوتے ہیں، کہ میرا بندہ توبہ کرے ،اور میں اس کی خطاؤں کو معاف کر دوں۔ حدیث پاک میں ہے،ترجمہ" اللہ اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوتے ہیں، جس نے اپنا اونٹ چٹیل میدان میں گم کرنے کے بعد پا لیا ہو"۔

معلوم ہوا کہ انسان سے جب بھی کوئی گناہ سرزد ہو تو، اسے چاہیے، کہ وہ اللہ تعالی سے توبہ کرے، یہ سوچے بغیر کہ "میرے تو اتنے زیادہ گناہ ہیں" اس لیے کہ حدیث قدسی میں ہے۔ترجمہ "مجھے پروا نہیں اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمانوں کی بلندی تک پہنچ جائیں، اور تو مجھ سے اس حال میں ملے، کہ تو نے میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کیا ہو، تو میں تیرے پاس زمین بھر بخشش لے کر آؤں گا"۔