نوجوان کیسے خرافات میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں، کیسے آسائشوں اور سہولیات کا ناجائز استعمال کررہے ہیں، کیسے شیطان کے بچھائے جال میں پھنس رہے ہیں، کیسے راتیں سیاہ اور دن داغدار کر رہے ہیں، کیسے اپنی پاکیزگی کا نور  سلب کر رہے ہیں

حفصہ شکیل

  سب سے کٹھن امتحان:

   زندگی لبوں پر دوڑتی مسکراہٹ اور خوابوں کے نگر سے بہت مختلف ہے۔ ہم دنیا میں اپنا کوئی بھی چھوٹا بڑا وقتی امتحان بغیر تیاری کے نہیں دیتے تو پھر اس اکلوتی زندگی کے سب سے اہم اور کٹھن امتحان کی تیاری سے کیوں غافل ہوچکے ہیں اور کیسی بہادری سے خالی الذہن اس انتہائی بڑے امتحانی مرکز میں بخوشی قدم  رکھ دیتے ہیں۔

  شادی سب سے اہم ترین امتحان ہی ہے جو کہ کسی کے لیے مشکل اور کسی کے لیے آسان، کسی کے لیے کانٹوں کا تخت اور کسی کے لیے پھولوں کی سیج، کسی کا بد ترین تجربہ اور کسی کا بہترین، کسی کے غم کی داستاں اور کسی کی محبت کی کہانی، کسی کے لیے جھنم اور کسی کے لیے جنت، کسی کا آنسو اور کسی کی مسکراہٹ....

یہ ڈگریاں کس کام کی ؟

     بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ آج ہم اس اہم فریضے کی روح کو بھول چکے ہیں یا نظرانداز کر رہے ہیں، مادیت پرستی نے ہمارے قلب و عقل ایسے بے جان کر دیے ہیں کہ شادی کی تیاری سے ہمارے ذہن میں دنیا پرستی کے ہاتھوں معذور ذہنوں میں صرف جہیز، مکان، کپڑے، جوتے، زیور، نوکری، آسائشیں اور ظاہری رکھ رکھاؤ ہی آتا ہے جبکہ ہم تو دین کے وارث ہیں، اسلام کے جاں نثار ہیں، سنتوں کے محافظ ہیں، شریعت کے نام لیوا ہیں، یہ کس نے غیر محسوس طریقے سے ہماری ترجیحات بدل دیں؟ دنیا کے علوم و فنون کے پیچھے ایسے لگ گئے ہیں کہ آج ہر لڑکے اور لڑکی کے پاس بڑی سے بڑی ڈگری موجود ہے لیکن اس کو ازدواجی زندگی کے معاملات نہیں سنبھالنے آ رہے۔

شیطان کی پری پلاننگ

شادی کے بعد صورتحال اور حالات سے نبٹنا نہیں آ رہا، اپنے ساتھی کے مزاج کو سمجھنے سے قاصر ہے، ازدواجی زندگی کے اصولوں سے دونوں فریق ہی بے خبر اور بے بہرہ ہیں، مرد و عورت اور دونوں خاندان اس "شادی کی تیاری" میں دنیاوی سازوسامان اکٹھا کرنے، اپنے ظاہر کو سنوارنے، دکھاوے کے لیے محنتیں کرنے، غفلتوں میں دن رات ایک کرنے میں ایسے مگن ہوئے کہ شادی کا اصل مقصد ہی کہیں فوت ہوگیا ہے، دراصل یہ شیطان کی  پری پلاننگ ہے، ظاہر ہے میاں بیوی کے درمیان ناچاقی اور جدائی ڈلوانا اس کا پسندیدہ کام جو ٹھہرا، اس لیے وہ ان دو کے شادی کے رشتے میں بندھنے سے پہلے ہی اپنی محنت شروع کردیتا ہے۔بھئی بڑے کام کے لیے اور  ذہن و کردار کو بگاڑنے کے لیے اسے محنت بھی زیادہ چاہیے  جبکہ  قران نے ہمیں "عدو مبین" (کھلا دشمن) کہہ کر اس سے متعارف کروا دیا تھا۔ ہم دنیا میں ایسے مصروف ہوۓ کہ ان رشتوں کی احتیاطی تدابیر (پریکاشنز ) لینا اور سیکھنا بھول گئے۔

مسلمہ اصول:

    جب قران عظیم الشان میں ایک مسلمہ اصول الخبیثات للخبیثین و الخبیثون للخبیثات و الطیبات للطیبین و الطیبون للطیبات  کا ذکر کردیا گیا پھر ہم اس بات سے ڈرتے کیوں نہیں کہ ہماری ذات کے لیے وہی ہے جیسے ہم کردار و عمل میں خود ہیں، ہمیں اس آزمائش سے انکار نہیں کہ بعض اوقات صالح مرد کے لیے بے دین زبان دراز بیوی آزمائش رکھ دی جاتی ہے اور کبھی نیک بیوی کے لیے بدکردار اور بے دین مرد آزمائش بن جاتا ہے لیکن یہ کٹھن آزمائش بڑے حوصلے والوں پر آتی ہے اور اس کا تناسب بہت کم ہےہر  انسان کے لیے عمومی اصول یہی ہے کہ نیک کے لیے نیک اور بد کے لیے بد.....

 

     کائنات کا یہ حق سچ اصول جانتے ہوئے نوجوان کیسے خرافات میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں، کیسے آسائشوں اور سہولیات کا ناجائز استعمال کررہے ہیں، کیسے شیطان کے بچھائے جال میں پھنس رہے ہیں، کیسے راتیں سیاہ اور دن داغدار کر رہے ہیں، کیسے اپنی پاکیزگی کے نور کو سلب کر رہے ہیں، کیسے بےدردی سے اس قیمتی جوانی کے وقت کو ضائع کر رہے ہیں جس کی عبادت اللہ کو بہت محبوب ہے، جس کے صالح و نیک اور اپنے نفس کو اپنا تابع بنا لینے پر اللہ رب العزت نے عرش کا سایہ رکھا ہے۔ اس مشکل دن جب اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہ ہوگی ۔

اپنے مالک کے سامنے کیسے اللہ کی دی گئی آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں، دل اور بے شمار نعمتوں کا ناجائز استعمال اسی پاک ذات کے سامنے کر رہے ہیں، ہم اللہ کے دین کا باغی بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور پھر امید رکھتے ہیں کہ شریکِ حیات نیک، شریف، باکردار اور باحیا ہو، صحیح  اور غلط کا معیار نظرانداز کر کے اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو پامال کر کے زندگی سے اپنے تئیں لطف اندوز ہو کے اور جس نے یہ جوانی دی تھی اس کی نافرمانی کر کے ہم کیسے یہ امید رکھتے ہیں کہ اب شادی جس سے ہو وہ ہر لحاظ سے مکمل ہو اور باطنی طور پر بالکل بے عیب ہو اللہ کی لاٹھی بھی بے آواز ہوتی ہے جس کے نتیجے میں   ازدواجی زندگی کے مسئلے امڈ امڈ کر زندگی اجیرن کرتے ہیں ۔

شکوہ  کیوں شکایت کیسی؟

معذرت کے ساتھ پھر شکوہ شکایت کا حق بنتا نہیں ، دراصل یہ ہمارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی تھی، اب جب آپ کا ' خوبرو ' ہیرو بے وفا نکل آیا تو کیسی شکایت؟ اب جب آپ کی 'مغرور حسینہ' آپ کے آگے زبان درازی کرنے لگی تو کیسا شکوہ؟  ہم نے کونسا اپنی جوانی تعلق مع اللہ پر صرف کی تھی کہ آج اس کے ثمرات سے فیض یاب ہوتے، ہم نے کونسا اپنی راتیں ربنا ھب لنا من ازواجنا وذرینا قرۃ عین کی مناجات میں گزاری تھیں کہ آج دونوں ایک دوسرے کے لیے مؤدت و سکینت کا باعث ہوتے، ہم نے کب قرآن کو اپنی رگ ِ جاں بنایا تھا جو آج ہمارے مشکل راستوں کو آسانیوں میں ڈھلنا آتا، کچھ آپ ہی اپنے گزرے وقت جب آپ برائیوں کی دلدل میں دھنس رہے تھے۔

نیک جیون ساتھی پانے کا راز

    صالح شریک حیات کا پا لینا اتنا آسان نہیں اور حیات طیبہ کو حاصل کر لینا اور اس دنیا کی زندگی میں جنت کا مزہ پا لینا زوجین کا ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بن جانا بھی اتنا سہل نہیں ہے،  ازدواجی              زندگی میں سکون اور خوشیاں حاصل  کرنے  کے لیے اللہ کی فرماں برداری میں آنا ہوگا، اعمال صالح سے خود کو مزین کرنا ہوگا، نفس کو غلام بنانا پڑے گا، حقیقی خوشی اور دائمی سکون پانے کے کیے اس دنیا کی وقتی رنگینیوں کو نظر انداز کرنا پڑے گا، شریعت کو سیکھنا اور ظاہر و باطن کو سنوارنا ہوگا، رویے کتنے اہم ہیں، اخلاقیات کتنے ضروری ہیں، ایک دوسرے کی عزت کرنا کتنا اہم ہے، معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنا اور وقت کے تقاضے کے مطابق بہترین فیصلے کرنا کتنا ضروری امر ہے، یاد رکھیں کہ احساسات کی قدر کے بغیر یہ رشتہ ہی بے جان ہے، قربانی اور سمجھوتے کے بغیر ایک دوسرے کے دل میں جگہ بنانا ناگزیر ہے اور محبت سے رشتے کی مسلسل آبیاری کائنات کا اصول حق ہے، یہ سب کچھ  سیکھنا پڑتا ہے اور یہ آپ کو دنیاوی علوم و فنون نہیں سکھائیں گے، صرف آپ کا دین ہی ہر ہر پہلو کے حوالے سے رہنمائی دے گا۔

قصور وار کون ہے؟

     ہم شادی جیسے کام کو اتنا جس میں دو خاندان اور ہلکا کیوں لیتے ہیں جس میں زندگیاں آپس میں جڑتی ہیں، ہم کیوں اپنے بچوں کی اس حوالے سے تربیت پر دھیان نہیں دیتے، تربیت میں بیٹی اور بیٹا دونوں شامل ہیں، والدین اپنی ذمہ داری سے کیسے دستبردار ہوگئے ہیں، اس گزرتے وقت اور زمانے کے حالات و واقعات سن اور دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اب اس معاشرے میں کیا کیا ہورہا ہے کہ الامان الحفیظ  رشتے کم علمی اور بےصبری کی نظر ہو رہے ہیں۔ ایک مقابلے کی سی فضا بن گئی ہے جبکہ اس رشتے میں تو کوئی مقابلہ نہیں ہوتا، ایک کے سائبان بننے اور دوسرے کے اس سائبان تلے پناہ لینے میں ہی اس کی خوبصورتی ہے لیکن اب شوہر اور بیوی دونوں اتنے شدید قسم کے جذباتی کیوں ہو گئے ہیں؟ دونوں میں اتنی معلومات "" اکٹھی کر لینے کے بعد بھی برداشت نہ ہونے کے برابر کیوں ہے؟ دونوں اپنے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں سے راہِ فرار کیوں اختیار کرنا چاہتے ہیں؟

 کس کو قصوروار کہیں معلوم نہیں۔ والدین کو جنہوں نے اپنے بچوں کو اصل تیاری سے شناسائی نہیں دی یا اس نئی نسل کو، جس کو شیطان و دجل نے اپنا آلہ کار بنا لیا ہے اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیا ہے، لڑکی پڑھی لکھی ہے، خوبصورت ہے، سہولت اور آسائش کے نام پر سب پاس موجود ہے پھر کیا ہوا کہ شادی کو چند ماہ ہوتے ہیں اور وہ موت کو زندگی پر ترجیح دینے لگ جاتی ہے؟

لڑکا دنیاوی ڈگریوں سے لیس ہے، دکھنے میں بھی خوبصورت ہے، اچھا کماتا ہے پھر کیا ہوا کہ اس کو اپنی بیوی کچھ عرصے میں آنکھ کا کانٹا لگنے لگ جاتی ہے؟

یہ سب اور ایسا بہت کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا ہے،

جانتے ہیں کیوں!

کیوں کہ ہم دینداری کا اپنا معیار بھول گئے،

لڑکی کو شہزادہ اور گڈ اماؤنٹ مشین چاہیے، لڑکے کو خوبصورت اور اس کی ہر جائز ناجائز پر سر جھکانے والی مخلوق ۔کیا اس دنیاوی معیار پر معاملات سنورتے رہیں گے؟ جھگڑے ٹھیک ہوجائیں گے؟ ایک دوسرے کی عزت باقی رہ جائےگی؟ مسئلے حل ہوجائیں گے اور زندگی گزر جائے گی؟

دل فتح کرنے کا گر :

نہیں   ہر گز نہیں جب ہم سنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اپنی ترجیحات پر چلیں گے تو وہ "رحمت و موودت و سکینت" جس کا ذکر اس رشتے کے حوالے سے اللہ رب العزت نے قرآن میں فرمایا، وہ کہاں سے آئے گی؟۔ برکت و خیر کے تمام راستے تو ہماری بے جا اور فضول خواہشوں نے بند کر دیے ہیں۔ قران و سنت نے ہمیں شادی سے متعلق مکمل نصاب مہیا کیا ہے، یہ نصاب جتنا عورت کے لیے اہم ہے اتنا ہی مرد کے لیے بھی ضروری ہے، دونوں کو اس نئی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے اس نصاب کو سیکھنا چاہیے، بزرگوں اور  علماء کے نصائح و جواہرات سے فیض حاصل کرنا چاہیے، لوگوں کے تجربات سے اسباق حاصل کرنے چاہیے، ایک صحت مند اور ہمہ تن تازہ اور خوشبودار تعلق استوار کرنے کے تمام اصول پلے سے باندھنے ہوں گے، دل فتح کرنے کا ہنر سیکھنا ہو گا ۔ اس حوالے سے علم والوں کی صحبت اختیار کرنی ہو گی، ماہرین کے تربیتی سیشن لینے سے بہت سے بند دروازے وا ہوتے ہیں جس سے اخلاقیات و آداب سیکھنے میں مدد ملتی ہے،  جبکہ اپنی ذمہ داریوں کے متعلق شریعت سے رہنمائی لینی ہو گی  اور رویوں کو سمجھنے کے لیے سیرت کا نور اوڑھنا ہو گا، مرد کو قوام کے درجے پر فائز ہوکر اپنی بیوی کے ساتھ محبت و احساس کا بہترین رویہ اختیار کرنا ہو گا کہ  اللہ اور اللہ کے رسول کی نظر میں وہی بہترین ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے۔ بیوی کو اپنے شوہر کا درجہ و رتبہ سمجھتے ہوۓ اس کے لیے ادب و احترام اور ہر جائز فرمانبرداری کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ شوہر ہی اس کی جنت کا راستہ ہے ۔

والدین کیا کریں؟

    ازدواجی رشتے کو ان تیاریوں میں محنت کی ضرورت ہوتی ہے یہی شادی کی اصل تیاری ہے۔

خدارا! والدین بچوں کی شادیوں سے پہلے ان کی اس تیاری کی طرف توجہ دیں، بیٹیوں کی تربیت تو ضروری ہے ہی کہ صبر و وفا اور محبت و قربانی کے جذبوں سے کیسے گھر بناۓ اور قائم رکھے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ بیٹوں کی تربیت بھی نہایت ضروری ہے جس سے اکثریت غافل رہتی ہے، عورت کو احسن انداز محبت سے اس کی نفسیات اور مزاج کو سمجھتے ہوئے اپنی زوجیت کی پناہ میں کیسے لینا ہے، یہی اصل میں مرد کی غیرت اور مردانگی ہے کہ پیارے نبیﷺ کو یہ عورت پر غالب آنے کی بنسبت اس سے مغلوب ہوجانا پسند تھا۔

   ہمیں علم ہے کہ قرآن و سنت مشعل راہ ہیں۔ان سے وابستہ رہیں گے تو زندگی حسین ہو گی۔ ان سے منہ موڑیں گے تو ہر لمحۂ حیات پریشان کن ہوگا، کاش نکاح کے وقت پڑھے جانے والے خطبۂ نکاح کا مطلب سب کو پتا ہو جس میں موضوع ہی تقوی ہے، جب شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے معاملے میں اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کریں گے تو یقیناً حیات طیبہ کے پھول سمیٹتے ہی رہیں گے، ان شاء اللہ!

اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین