لطافت

جب اللہ رب العزت نے عمرے کی توفیق دی اور اس کے لیے اسباب مہیا فرمائے تو سب سے پہلی فکر یہ ہوئی کہ نبی کریم صلی ﷲ علیه وسلم کی بارگاہ میں حاضری کیسے ہونی چاہئیے. کن آداب کی رعایت لازم ہے اور کون سی عبارت ہونی چاہیے جو بارگاہِ رسالت میں پیش کرنے کے لیے سب سے بہترین ہو.

اسی کوشش میں کئی کتب کو دیکھا اور پھر نور الإیضاح سے باب زیارة النبي صلی ﷲ علیه وسلم کو سبقا سبقا پڑھا جس میں آپ عليه الصلوة و السلام کے دربار میں حاضری اور ان پر سلام پیش کرنے کے لیے بہت خاص اور بہترین الفاظ لکھے ہوئے تھے. وہ عبارت اتنی جامع اور بہترین تھی کہ میں نے اس کے اسکرین شاٹس لے لیے اور ارادہ کیا کہ یہی عبارت جناب علیہ السلام کی بارگاہ میں پیش کروں گی. عبارت کئی صفحات پر اور کچھ مشکل تعبیرات پر مشتمل تھی جس کی بناء پر جلدی یاد کرنا بھی آسان نہ تھا۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر بارگاہ رسالت میں پہلی پہلی حاضری تو بہت ہی الگ اور انوکھی تھی اس کا حال پھر کبھی بیان کروں گی إن شاء ﷲ

دوبارہ حاضری سے پہلے میں اس شش و پنج میں تھی کہ سلام عرض کرنے کے لیے پیش ہونے کے وقت عبارت پڑھنے کے لئے موبائل نکالوں یا دل و دماغ میں آنے والے کلمات پیش کروں. بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان فرق سمجھ نہیں آرہا تھا.

وہاں اللہ کریم کی قدرت اور شان کے عجیب ہی انداز نظر آتے ہیں. دل میں آنے والی خواہشات پوری ہوتی اورسوالوں کے جواب ملتے محسوس ہوتے ہیں. کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کسی امر کی فکر پیدا ہوئی اور فورا ہی اس کا حل مل گیا۔

خیر اسی شش و پنج میں دن گزر رہے تھےکہ ایک خاتون سے مسجد نبوی میں ملاقات طے ہوئی.ان سے پہلی پہلی ملاقات تھی میرا رخ روضۂ اطہر کی طرف تھا اور خاتون کا میری طرف تھا. بات چیت چل رہی تھی بمشکل 3 سے 4 منٹ گزرے ہوں گے کہ میں نے ایک عجیب سی چیز محسوس کی، وہ خاتون بات چیت کے دوران مسلسل موبائل استعمال کر رہی ہیں ، میسج کر رہی تھیں مجھے ان کا موبائل استعمال کرنا دیکھ کر اپنے سوال اور اس شش و پنج کا جواب مل گیا جس میں میں کئی دن سے مبتلا تھی.

وہ ایسے کہ میں آقا علیہ السلام کی کم تر غلام جو ان کے قدموں کی دھول برابر بھی نہیں ہوں،  مجھے مسلسل یہ خواہش ہورہی تھی کہ جتنی دیر ہماری ملاقات رہے، اتنی دیر موبائل کا استعمال نہ ہو. مکمل توجہ کے ساتھ آپس کی بات چیت ہو جو خوشگوار اور یادگار رہے۔

جب اس نکتے پر مزید غور کیا تو یاد آیا کہ نبی کریم صلی ﷲ علیه وسلم کی عاداتِ مبارکہ میں آتا ہے کہ جب کوئی ان سے ملنے آتا تھا تو وہ باقاعدہ رخ اطہر ان کی جانب کرکے مکمل طور پر توجہ فرماتے تھے اور جب تک ملاقات جاری رہتی اس وقت تک آپ ملاقاتی کی طرف سے رخ انور نہیں موڑتے تھے.

نبی کریم صلی ﷲ علیه وسلم کی اس عادت مبارکہ کا سوچ کر مجھے اپنا یہ خیال بھی بہت برا معلوم ہوا کہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں آپ توجہ فرمائیں اور میں موبائل نکال کر گیلری میں سے تصویر ڈھونڈنا شروع کردوں.بیگ سے موبائل نکالنے اور اس میں سے عبارت تلاش کرنے تک کا عرصہ آپ علیہ السلام کی توجہ کے دوران بہت بداخلاقی کا رویہ محسوس ہوا. اس تصور سے ہی اندر تک کانپ گئی کہ ہم ان کی محبت میں حاضر ہوں اور وہ ہماری جانب متوجہ ہوں اور ہم ان کی بے ادبی کرکے موبائل یا کسی بھی دوسرے کام میں لگ جائیں.

بس ان خیالات کا وارد ہونا تھا کہ اسی وقت عہد کرلیا کہ بہت سخت ضرورت کے تحت موبائل اپنے بیگ میں ساتھ تو رکھ لینا ہے مگر بارگاہ میں پہنچ کر إن شاء ﷲ اس کا استعمال قطعا نہیں کرنا چاہے کتنا ہی خوبصورت منظر کیوں نہ ہو. انتہائی بے توجہی اور بے ادبی کی نشانی معلوم ہوتی ہے.

ایک بار ایسا بھی ہوا کہ رات کا آخری پہر تھا مکمل چاند سبز گنبد کے عین اوپر تھا اور چاند کی چمک سے کہیں زیادہ گنبد کی چمک محسوس ہورہی تھی.گویا پوری کائنات دم سادھے اس خوبصورت ترین منظر میں کھوئی ہوئی تھی کہ سناٹے میں تہجد کی اذان گونجنے لگی. بے ساختہ دل بہت مچلنے لگا کہ اس منظر اور آواز کو قید کرلیا جائے. مگر آدابِ حاضری کی خلاف ورزی کا سوچ کر کانپ گئی.

کیونکہ کہا جاتا ہے کہ

؎ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

 

لہذا زیارت کے لے جانے والوں سے گزارش ہے کہ للہ اس پر ضرور سوچیے گا کیونکہ ہر طرح کی تصاویر انٹرنیٹ پر بھری ہوئی ہیں. ہم اپنے ہاتھ سے اپنے موبائل کیمرے سے اگر نہ بھی لیں تو ان مناظر سے محرومی نہیں ہو سکتی. مگر آپ علیہ السلام کے دربار میں جاکر موبائل استعمال کرنے میں مشغول ہونا کتنی بے ادبی کا عمل ہے.

کسی عام سے رتبے والے شخص یا بادشاہ کے سامنے ہم اپنی غرض لے کر جائیں اور وہ ہماری طرف متوجہ ہو اور ہم نظرانداز کرکے کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ ہوجائیں تو کیسا محسوس ہوگا؟ سو پلیز وہاں جاکر موبائل میں مشغول ہونے یا تصاویر بنانے کے عمل سے مکمل گریز خود پر لازم کرلیجیے یقین کریں حاضری کی لذت اور نور کو خود محسوس کریں گے إن شاء ﷲ اور نفس کی خواہش کو کچل کر ادب کو ملحوظ خاطر رکھنے کے سبب بار بار بلاوے کی نعمت ملنے کی قوی امید رہے گی۔

جتنی دیر وہاں رہیں بس ایک کونہ پکڑ کر بیٹھ جائیں اور آپ علیہ السلام سے دل بھر کر باتیں کریں اپنا دل ان کے سامنے کھول کر رکھ دیں  ان کو اپنا حال سنائیں امت کا حال سنائیں ان کی اپنی امت کے لئے کی گئی محنت پر, قربانیوں پر, شفقت پر خوب خوب شکریہ ادا کریں. ان کے لئے اللہ جی سے مقام محمود کی دعا کریں. اپنے لئے شفاعت طلب کریں اور بار بار حاضری کی دعائیں کرتے ہوئے وقت گزاریں. اگر یہ سب کرکے تھک جائیں یا دل بھرنے لگے تو دوبارہ تازہ دم ہوکر آنے کی نیت سے آرام گاہ جاکر آرام کرلیں مگر للہ وہاں دل چاہنے کے باوجود فضول کاموں, گپ شپ یا موبائل کے استعمال سے مکمل گریز کریں.

کیونکہ

"وہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو"