کہیں عنوان  پڑھ کر آپ چونک تو نہیں گئے؟ ظاہر ہے آج کے دور میں پرفیکٹ ملتا کہاں ہے ، جو ملے،جیسا ملے گزارا کرنا پڑتا ہے ۔ پھر  اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باجود کیا وجہ ہے  کہ ہم ”مسٹر پرفیکٹ “کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ؟؟

جی ہاں!  وہی مسٹر پرفیکٹ”ہمارا دامادیا ہونے والا شوہر “

اہلیہ محمد عبید خان

دیکھیں !یہ بات تو  مسلّم ہے کہ ”کاملیت(perfection) کی تلاش   انسانی کمزوری ہے ۔لہذا پرفیکشن کا بھوت کوئی ایسا برا بھی نہیں ،لیکن افسوس تو یہ ہے ناکہ معیار ہی انتہائی خستہ حال ہے ۔ لڑکی کو اپنے ہونے والے شوہر میں یا سسر کو اپنے داماد میں  دنیوی معیار و رواج کے مطابق پرفیکشن چاہیے ۔

اور وہ پرفیکشن ہے کیا؟؟ لڑکے کا مالدار(حلال و حرام کی کوئی پروا نہیں)،  مختصر فیملی ہونا،بہترین و اعلیٰ قسم کا پیشہ(اس میں بھی معیار شریعت مد نظر نہیں )  ، کامیاب بزنس ہونا، مضبوط بیک گراؤنڈ ،امریکا ،یورپ پلٹ۔  وغیرہ ہونا ۔

یہ کیا معیار ہوا بھلا؟ چلیں اس معیار پر مبنی ، داماد تو پسند کر لیا لیکن اکثر کیسز میں  بیٹی خوش کیوں نہیں ؟ آنکھوں کی چمک کیوں ماند پڑ گئی؟کیا روگ لگ گیا؟ حالاں کہ  اچھا خاصا اسٹیبلشڈ شوہر ڈھونڈا تھا ۔۔

کیونکہ یہی اعلیٰ تعلیم یافتہ،بزنس ٹائیکون ،امریکا پلٹ اپنی بیوی سے مخلص نہیں ۔ مارنا یا معمولی بات پر بے عزت کرنا ،یہاں تک اس کے گھر والوں پر بد زبانی کرنا بھی عام ہے ۔ بیوی اور والدین میں بیلنس رکھنا نہیں جانتا ۔اس کے پاس بنیادی تعلیم ہی نہیں ہے ۔

جی ہاں !آپ نے صحیح جڑ پکڑی !! شرافت،نجابت،اخلاقیات،تقویٰ،خوف خداوندی سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔

آئیے !مسٹر پرفیکٹ تلاش کرتے ہیں لیکن ضیاء نبیﷺ  سے ۔ 

فرمان نبیﷺ ہے:

اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَه وَخُلُقه فَزَوِّجُوْ اِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ. (السنن الترمذي، رقم: 1084، بيروت: دار إحياء)

مفہوم:”جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ برپا ہو گا“

حضرت شوہر کو بیوی کے حقوق ادا کرنے کے متعلق فرمایا:

أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى (السنن لابن ماجه: رقم: 1850)

مفہوم:جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے ۔

کتنی خوبصورتی سے دو احادیث میں داماد کی صفات بیان کردی گئیں ۔دینداری،اخلاقیات ،امانت داری ،حقوق و فرائض سے واقفیت ۔ایسا سمجھدار و سنجیدہ کہ بیوی کے حقوق جانتا ہو اسے معلوم ہوا  مجھے اپنے زورِ بازو پر کمانا ہے اور اپنی بیوی کی لباس سے لے کر کھانے تک کی  تمام ضروریات کا خیال رکھنا ہے ۔

قالِ رسولﷺ کے ساتھ ذرا حالِ رسولﷺ کی جانب نظر بڑھائیے ، جن اصحاب کو آپﷺ نے اپنی دامادی کا شرف بخشا ،لخت جگر ان کے سپرد کیں ،کیا اب بھی گنجائش ہےکہ  ہمارا معیار ،انتخاب داماد میں کچھ اور ہو؟؟ کیا اس معیار سے بہترین معیار بھی پایا جاسکتا ہے ؟

اپنے بڑے داماد ،ابوالعاصؓ کی تعریف میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔

حَدَّثَنِی فَصَدَقَنِی وَوَعَدَنِی فَوَفَی لِی۔

”جو بات کہی اسے سچ کر دکھایا،جو وعدہ کیا اسے پورا کر دکھایا “(صحیح البخاری:3729)

بہت خوب!! باتوں  اور وعدوں کو پورے کرنے والے داماد ہی تو آنکھوں کا تارا بنتے ہیں۔

ذوالنورین،حضرت عثمان غنی ؓ کی شان میں یہ بیش بہا الفاظ ارشاد فرمائے :

لَوْ کَانَ لِی ثَالِثَۃٌ لَزوّجتُہٗ (اخرجہ الطبرانی فی المعجم الکبیر :17/ 184،رقم الحدیث :490)

اگر میری تیسری بیٹی بھی ہوتی تو عثمان کے ساتھ نکاح کردیتا“

            نیز ایک رویت میں سو بیٹیوں کا بھی ذکر ہے (مرقاۃ شرح مشکوۃ :11/ 231)

کیا بات ہے!! داماد ہو تو ایساکہ سسر اپنی ہر بیٹی کے لیے ویسے شخص کی خواہش رکھے۔                  

مرد حقانی کی پیشانی کا نور

کیسے چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور

پھر اپنی سب سے محبوب لخت جگر کے لیے ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور عمرؓ  اور دیگر قریشی حضرات کا  پیغام نکاح  چھوڑ کر حضرت علی ؓ کا پیغام نکاح  قبول کیا۔جس سے داماد کا انتخاب کرتے ہوئے ایک اور خوبی بھی معلوم ہوئی کہ ”عمروں میں زیادہ تفاوت نہ ہونا “بھی خوشگوار ازدواجی زندگی کا باعث بنتا ہے۔

اب سوچیے! داماد کے انتخاب میں ،معیار نبیﷺ سے بہترین معیار آپ بنا سکتے ہیں ؟؟ اور نبیﷺ کی چوائس تو یہی ہے ۔  اخلاقیات،امانت داری،  حیا، ادب، سخاوت،خیر خواہی،سادگی ، شجاعت و دلیری   ،اور عمروں میں زیادہ فرق نہ ہونا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مفلس و قلاش نہیں تھا ، غنا پر زہد غالب تھا۔

تاہم زوجین کے مابین مضبوط بانڈنگ بنانے کے لیے شریعت نے لڑکے کے انتخاب میں ایک اہم چیز کو مد نظر رکھنے کی ترغیب بھی دی ہے  وہ ہے ”کفو“  یعنی ہم پلّہ ہونا۔

اس میں بھی ہمارے یہاں اکثر الٹی گنگا بہتی ہے کہ کفائت کا اعتبار تو مرد کے حق میں تھا جبکہ ہم اس کا اعتبار عورت کے حق میں کرنا شروع ہوگئے ۔ عالمہ فاضلہ لڑکی کو ،زانی،شرابی، حرام تعلقات میں ملوث لڑکے کے ساتھ باندھ دیا یا اچھی تعلیم یافتہ، مہذب گھرانے کی لڑکی  کو ،پاگل،سائیکو یا ابنارمل لڑکے  کے ساتھ بیاہ دیا کہ بیویاں خود شوہروں کو ٹھیک کرلیں گی ۔ گویا لڑکا کیسا ہی ہو چل جائے گا۔ یہ انتہائی بے انصافی پر مبنی رویہ ہے ۔

شریعت عورت کے حق میں کفائت معتبر نہیں مانتی ،مرد چونکہ قوّام ہے تو عورت اپنے اوپر برتری  یا تو اپنے سے برتر کی پسند کرے گی یا کم از کم اپنے ہم پلّہ کی ۔

فرمانِ رسولﷺہے: لَا تَنْكِحُوْا النِّسَاءَ إلَّا الْأَكْفَاءَ(المعجم الأوسط للطبراني: (1/ 6، ط: دار الحرمين)”اپنی عورتوں کا کفو میں نکاح کرواؤ“

عن عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:يَاعَلِيُّ،ثَلاَثٌ لاَ تُؤَخِّرْهَا:الصَّلاَةُ إِذَا أَتَتْ،وَالجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ ،وَالأَيِّمُ إِذَاوَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا۔(جامع الترمذي - رقم الحديث : 156)

ترجمہ: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:” علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نمازکو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کوجب آجائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)مل جائے“

اس حدیث سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیوہ عورت کی بھی دوسری شادی غیر کفو میں کرنا پسندیدہ نہیں ۔ شادی خواہ کنواری یا مطلقہ یا بیوہ کی ہر ایک کے لیے کفو کی رعایت رکھی جائے گی۔کوئی بھیڑ ،بکری نہیں کہ اخلاق سے عاری، مال دارکے پلّے  یا شباب و شراب کے شوقین  کسی  بگڑے امیر زادے کے ہمراہ کردی۔

انتخاب کے وقت  اپنے زمانے کے عرف کا اعتبار کرتے ہوئے ایسے لوگوں میں رشتہ کیا جائے جن کے ساتھ رشتے داری  کرنا عرفاً معیوب نہ سمجھا جائے ۔حسب نسب،پیشہ،مال،تقویٰ  کے اعتبار سے اپنے ہم پلہ لوگوں میں بیٹی کا رشتہ ڈھونڈا جائے ۔

تمام خوبیوں کا خلاصہ اور بنیاد پھر بھی  خوف خدا ہے ،جو خدا سے ڈرے گا وہ آپ کی بیٹی کے حقوق کے متعلق خدا سے بدرجہ اولیٰ ڈرنے والا ہوگا ۔

لہذا !اپنا معیار  اورا سٹینڈرڈ بہت ہائی مت کیجیے ،مال کو بھی مد نظر رکھیں ،لیکن اس کے لیے بزنس ٹائیکون،دیار غیر میں کمانے والا یا منیجر و جی ایم کی پوسٹ ہی کو حتمی  معیار نہ بنائیں،حلال کمائے،زور بازو پرکمائے ،لیکن باقی نیک خصائل،شرافت و  تقویٰ کا گراف بلند ہو تو  بس یہی ”مسٹر پرفیکٹ“سمجھ لیں کہ 100 فیصد پرفیکشن تو بندگانِ خدا میں انبیاء کے ساتھ ہی خاص ہے ۔ باقی بندۂ بشر تو خطاؤں کے پتلے ہیں۔

 

ٹھہریے!اپنی عقل کوکامل، اپنے انتخاب پر فخر  ،اپنی کوشش کو حتمی مت سمجھیے ۔

اپنے سارے اسباب مکمل کرلینے کے بعد اب اس انتخاب کو سپریم کورٹ کے ہینڈ اوور کردیجیے ۔

جی ہاں! استخارہ ہرگز مت بھولیے ۔ بہت ہی آسان سا طریقہ ۔ دو رکعت  نفل نماز،پھر دعائے استخارہ  ۔بس معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا، بہتری مانگیے اور خیر کے امیدوار رہیں۔