نبی کریم ﷺ کو مناسب تعارف نہ کروانا ناگوار اور کراہت کا باعث محسوس ہوتا تھا۔ اس بات کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی محسوس کیا اور اس پر عمل کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس کی تلقین بھی فرمائی

وردہ جنجوعہ ڈسکہ
کون؟
میں!

یہ الفاظ آپ نے نہ صرف سن رکھے ہوں گی بلکہ دروازے پر دستک دینے کے بعد کون ہے؟ کے جواب میں آپ میں سے اکثر لوگ یہی جواب دیتے ہوں گے... "میں" یا پھر "کھولیں، میں ہوں" جس سے نہ ہی آپ کی پہچان ظاہر ہوتی ہے نہ تعارف۔ یہ جواب نہ صرف بد تہذیبی میں شمار ہوتا ہے بلکہ خلاف سنت بھی ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کسی کے دروازے پر دستک دینے اور اپنا تعارف کروانے کے کیا آداب ہیں؟ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مکمل تعارف نہ کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں اور گھر میں موجود لوگ آپ کو آواز کے ذریعے پہچان جاتے ہیں تو آپ غلط ہیں۔

نبی کریم ﷺ کو مناسب تعارف نہ کروانا ناگوار اور کراہت کا باعث محسوس ہوتا تھا۔ اس بات کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی محسوس کیا اور اس پر عمل کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس کی تلقین بھی فرمائی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ایک حدیث ذکر فرمائی ہے کہ سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درواے پر دستک دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :
کون ہے ؟ میں نے کہا:" میں ہوں"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انا! انا! یعنی میں! میں!) جیسے انہیں ناگوار گذرا ہو ۔

درست طریقہ یہ ہے کہ جب پوچھا جائے کہ کون ہے؟ تو جواب میں اپنا نام بتائیں کہ فلاں بن فلاں ہوں۔ اگر اس کے باوجود اہل خانہ آپ کو پہچان نہیں پاتےتو اپنا مناسب تعارف بھی کروایا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے میں کہہ کر تعارف کروانے کو ناپسند فرمایا ہے کیوں کہ اس سے کسی کی شناخت واضح نہیں ہوتی۔

کسی بھی انسان کا نام اس کی پہچان کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ دستک کے بعد نام بتا کر اپنا تعارف کروایا جائے۔ نام سے پہچان نہ ہو تو موقع کے حساب سے مناسب تعارف ضرور کروائیں۔ مثلاً ننھیال میں ہیں تو والدہ کے حوالے سے، ددھیال میں جائیں تو والد کے حوالے سے تعارف کروایا جا سکتا ہے۔

اسی طرح صحیح مسلم میں روایت ہے کہ "ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا ’’السلام علیکم ‘‘میں ابو موسیٰ ہوں ، میں اشعری ہوں… "(الحدیث)۔ سو اگر آپ بھی دستک کے جواب میں "میں" کہنے کی عادت رکھتے ہیں، تو آپ کو بھی اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم بعض اوقات جن باتوں کو یہ سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑے گا، وہ معاشرے میں بگاڑ کا ایک بہت اہم سبب ہوتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان اس بات پر عمل کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ آپ ﷺ کی سنت ہے اور صحابہ کرام کا طرز عمل بھی۔