جس طرح دلہا والے  جہیز کی ڈیمانڈ کرکے اپنی غیرت   بالائے طاق رکھنے میں شرم و حیا سے عاری ہوچکے ہیں اسی طرح موقع پر چوکا لگانے سے لڑکی والے بھی باز نہیں آتے ، عین  نکاح کے موقع پر  بھاری بھر کم مہر کا مطالبہ کردیا جاتا ہے ،پلاٹ ،گھر، جائیداد   نام کروانا  عام بات ہو چکی ،  جس کے پس منظر میں عورت کے نکاح کی سیفٹی مد نظر ہوتی ہے ۔گویا حق مہر ،تحفہ نہ ہوا ” زنانہ ہتھیار“ ہوگیا

اہلیہ محمد عبید خان

”جیو اور جینے دو“ صرف ایک محاورہ نہیں بلکہ ایسا اخلاقی ضابطہ ہے جس کی تائید حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہے :

لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ(سنن ابن ماجہ)

”نہ خود نقصان اٹھاؤ ،نہ نقصان پہنچاؤ“

پورے معاشرے میں امن و سکون اور سلامتی وصلح کا پیغام دیتی ہوئی،دو لفظوں پر مشتمل ایسی  جامع حدیث ہے  جس کا اطلاق اگر شادی بیاہ کے موقع پر بھی کرلیا جائے تو فریقین کے لیے  دائمی سکون ، خوشی اور راحت و برکات کے حصول   کا باعث بنے  ۔

اس بات کا اہتمام رکھا جائے کہ دو خاندان جب رشتہ ازدواج کے ذریعے باہم منسلک ہونے جارہے ہیں تو دوسرے کو جتنی راحت اور آسانی ہم مہیا کرسکتے ہیں اتنا کی جائے ، ایک اچھے ،دیانتدار مؤمن کے یہی اوصاف ہیں ۔ لیکن ہوتا عموماً اس کے برعکس ہے ۔

اب مہر ہی کو لیجیے ! عموماً قلم ،حق مہر کے اُس موضوع پر  بات کرنے کے لیے اٹھتے ہیں جس کو اپنے سابقہ آرٹیکل میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ”مہر عورت کی قیمت نہیں ہے اس کے لیے اعزاز ہے “ لیکن یہاں  اسی تصویر کا دوسرا رخ آپ کے سامنے ذکرکرنے جارہے ہیں ، جس میں زیادتی لڑکی والوں کی جانب سے  ہوتی ہے ۔

جی ہاں! ظلم اب صرف دلہا والوں کی جانب سے ہی متصور نہیں بلکہ دلہن والے بھی اس کارِ شر میں بھر پور شرکت فرما رہے ۔

جس طرح دلہا والے ،منہ پھاڑ کے جہیز کی ڈیمانڈز کرکے اپنی غیرت  کو بالائے طاق رکھنے میں ماہر اور شرم و حیا سے عاری ہوچکے ہیں اسی طرح موقع پر چوکا لگانے سے لڑکی والے بھی باز نہیں آتے ، لڑکے والوں کے منہ پر تومنہ مانگا جہیز فراہم کر کے  تالے لگا دیے جاتے ہیں ،پھرعین  نکاح کے موقع پر  بھاری بھر کم مہر کا مطالبہ کردیا جاتا ہے ،کئی پلاٹس ،گھر، جائیدادیں   نام کروانا ، تو بالکل ہی عمومی مثالیں بن چکی ہیں ،  جس کے پس منظر میں عورت کے نکاح کی سیفٹی مد نظر ہوتی ہے ۔گویا حق مہر ،تحفہ نہ ہوا ” زنانہ ہتھیار“ ہوگیا ۔

خود ملاحظہ کیجیے! مہر کی مقدار اتنی زیادہ مقرر کردی جاتی ہے  کہ شوہر پر ہمیشہ دباؤ رہے اور وہ طلاق دینے کی ہمت نہ کر سکے اور خدانخواستہ اگر طلاق دے تو بطور جرمانہ اسے یہ بھاری بھرکم مہر ادا کرنا پڑے گا، یہ قرآن کریم اور احادیث کی تعلیمات  کے بالکل خلاف ہے۔

خلیفۂ ثانی ،عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے دور اندیش صحابی   نےحق مہر کے متعلق اسی خطرے کو پہلے بھانپ کر دو ٹوک اور واضح بات فرمائی  کہ:

” بہت زیادہ مہر مقرر نہ کرو؛ کیوں کہ بہت زیادہ مہر مقرر کرنا اگر کوئی فضیلت کی چیز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لائق سب سے زیادہ تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات اسی طرح اپنی صاحبزادیوں کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں کیا۔(مرقاة مع المشکاة، رقم: 2704)

] بارہ اوقیہ: ایک کلو، 500 تیس گرام ،900 ملی گرام چاندی [

اسی طرح حدیث مبارک میں مہر کی زیادتی کو دشمنی کا سبب بھی قرار دیا گیا :

فرمان ﷺ ہے:

”لَاتَغْلُوْا فِیْ مُھُوْرِ النِّسَآءِ لِتَکُوْنَ عَدَاوَةً“ (مسند احمد)

”عورتوں کے مہر کے معاملے میں اتنا غلو نہ کرو کہ دشمنی کاسبب بن جائے “

لازمی بات ہے دنیوی مال و متاع کی حرص و لالچ ،اخلاص  ومحبت کو ختم کرتا ہے ، دلوں کا سکون خدا نے پیسوں کی ہوس و کثرت میں نہیں رکھا ۔

اور یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہتھیار اسی وقت فائدہ مند ہوتا ہے جب کہ ہمارے اختیار و قبضہ  میں ہو جہاں چوک ہوئی اورہمارا ہی ہتھیار دوسرے کے قبضہ میں چلا گیا تو وہی ہماری بربادی کا سامان بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح جس مہر کو ہتھیار بنا کر ،لڑکی والے مرد کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ،وہی ہتھیار جب مرد استعمال کرنے پر آئے تو عورت کی زندگی برباد کر کے چھوڑتا ہے ۔

جیسا کہ تجربہ شاہد ہے اگر زوجین  میں عدم موافقت ہو جائے تو یہی زیادتیِ مہر، عورت کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے ۔ شوہرصرف مہر کی ادائیگی کے خوف سے اس کو طلاق نہیں دیتا اور سالہاسال بلکہ بعض اوقات ساری عمر کے لیے وہ بے چاری معلق پڑی رہتی ہے۔

زمانۂ جاہلیت میں ظہار کے نام پر اس قبیح فعل  کا ہی تو معمول تھا کہ” عورت کو ماں کی پشت کے مثل“ کہہ کر تعلق توڑ کر  لٹکا دیا جاتا تھا، نہ طلاق پڑتی تھی، نہ عورت دوسرا نکاح کرسکتی تھی ،شریعت نے اس جاہلانہ رسم کو ختم کیا کہ  عورت کوئی معاشرے کا عضوِ معطل نہیں کہ جو چاہے سلوک اس کے ساتھ روا رکھا جائے ۔

لیکن افسوس! آج لڑکی کے والدین خود کو عقلِ کُل متصور کرکے عورت کو بھاری مہر کے ساتھ باندھ دیتے ہیں ، اس کانتیجہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ناموافق صورتحال میں،  نہ مرد حقوق پورے کرتا ہے نہ مہر کی ادائیگی کے ڈر سے طلاق دیتا ہے ۔گویا مرد کو مفلس و قلاش کرنے کے چکر میں خود اپنے گلے میں طوق ڈال لیا جاتا ہے ۔

لہذا  شریعت یہ حکم دیتی ہے کہ”اپنے فائدے کے پیچھے ، دوسرےکو نقصان پہنچانے کے چکر میں ایسا کام ہی نہ کرو ،جو خود اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں جا گرو“

حق مہر کی انتہائی حد:

یہ بات درست ہے کہ شرعی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی مقدار معین نہیں کی گئی ،

قرآن حکیم کے مطابق :

لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ(البقرہ)

”وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے “

اسی طرح ”قنطار“ کا لفظ بھی مہر کے حوالے سے ہی موجود ہے جو اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ”اگر لڑکی کو اس کے شوہر کی جانب سے ڈھیروں ڈھیر  مہر یا ہدایا دے دیے گئے ہیں تو رخصتی کے بعد طلاق کی صورت میں عورت پر ا ن میں سے کچھ بھی واپس کرنا لازم نہیں ۔

*آپﷺ کی ازواج مطہرات میں سے حضرت ام حبیبہ ؓ کا مہر  سب سے زیادہ تھا لیکن وہ آپﷺ نے ادا نہیں کیا تھا بلکہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی جانب سے ادا ہوا تھا جو کہ  4000 درہم تھا ۔ (سنن ابی داؤد)

*صحابہ کرام ؓ پر بھی جب فراخی کا دور آیا تو انہوں نے بھی زیادہ مہر مقرر کیے تھے چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ اپنی بیٹیوں کا حق مہر 1000 دینار  مقرر کرتے تھے (سنن بیہقی)

حق مہر میں معتدل راستہ:

اصول یہ ہے کہ  حق مہر  ، ایک جانب تو مرد کی استطاعت و طاقت کے مطابق متعین کیا جائے ،نہ اتنا زیادہ کہ کہ لڑکے پر اس کی ادائیگی  ممکن نہ رہے  دوسری جانب اتنا کم اور بے حیثیت بھی   مقرر نہ  کرنا چاہیے کہ لڑکی کی اس کے خاندان والوں کے سامنے سبکی   ہو یا اس کی حق تلفی ہو  ا ۔

نیز  حق مہر   کو  نمود و نمائش ،فخر مباہات کا حصہ بنا کر،برکت کے درجے سے گر اکر بے برکتی بھی  مول نہ  لی جائے ۔  البتہ اگر اپنی بڑائی دکھلانا مقصود نہ ہو تو زیادہ حق مہر بھی مقرر کیا جاسکتا ہے ۔ بس فریقین کی آسانی مد نظر ہو۔

رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا

”اِنَّ اَعْظَمَ النِّسَاءِ بَرَکَةً أیْسَرُھُنَّ صَدَاقاً“ (مسنداحمد ، بیہقی)

”سب سے زیادہ برکت والی خاتون وہ ہے جس کا مہر سہل اور آسان ہو“

اسی طرح فرمان نبیﷺ ہے:

”بلا شبہ یہ بات عورت کی سعادت و نیک بختی میں شامل ہے کہ اس کا مہر ہلکا ، اس کا نکاح آسان ہو اور اس کے اخلاق اچھے ہوں جب کہ عورت کی بدبختی یہ ہے کہ اس کا مہر زیادہ ہو ، اس کا نکاح دشوار ہو اور اس کے اخلاق برے ہوں “ (صحیح الجامع للالبانی:2235)

ان جامع احادیث کی روشنی میں ہر عورت  اور اس کے گھر والے  خود اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں ، کہ نکاح میں آسانی پیدا کر کے مرد کے حق میں لڑکی کو   خوش نصیب و بابرکت  بنانا ہے یا معاشرتی و سماجی رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑ کر بد بختی کی مہر لگوانی ہے !!

کم از کم مقدار:

شرعی طور پر کم از کم مہر کی مقدار شریعت کی جانب سے متعین ہے یعنی اگر کوئی شخص نکاح کا ارادہ کرے تو کم از کم اتنا مہر اس کے لیے ادا کرنا لازمی ہو :

لَا صداق دُوْنَ عَشَرَةِ دَرَاھِمَ(سنن دار قطنی)

” دس درہم سے کم مہر نہیں ہوتا“

]دس درہم کا محتاط وزن دو تولے سات ماشہ یا 28 گرام 670ملی گرام بتاتے ہیں، جس کی موجودہ قیمت  4000سے بھی زائد بنتی ہے  [

اسی طرح لوگوں نے ” سوا بتیس روپے “ جو شرعی مہر  کے نام سے مقرر کررکھا ہے اس کی بھی کوئی شرعی حیثیت نہیں، مہر کی کم از کم مقدار میں اصل اعتبار وزن کا ہے اور وہ دس درہم ہے۔

مہر فاطمی/مہر شرعی:

اسی طرح کچھ لوگ مہر فاطمی مقرر کرنا چاہتے ہیں تو مہر فاطمی وہ مہر کہلاتا ہے  جو آپﷺ نے اپنی صاحبزادیوں اور

اکثر ازواج مطہرات کا مقرر فرمایا تھا :

جیسا کہ امی عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

کَانَ صَدَاقُةُ ِلأَزْوَاجِهِ اثْنَتِیْ عَشْرَةَ أُوْقِیَّةً وَنَشًّا. قَالَتْ. أَتَدْرِی مَا النَّشُّ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا. قَالَتْ: نِصْفُ أُوْقِیَّةٍ. فَتِلْکَ خَمْسُمِائَةِ دِرْھَمٍ. فَھٰذَا صَدَاقُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ِلأَزْوَاجِہٖ.(مسلم)

”رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج کا حق مہر بارہ اوقیہ اور ایک نَش رکھتے تھے۔ پھر فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ نَش کتنی

مقدار کو کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: نہیں! فرمایا: نصف اوقیہ اور یہ (کل مقدار) پانچ سو درہم ہیں اور یہی رسول اللہ ﷺ کی اَزواج کا مہر ہے“

]مہرفاطمی :500درہم کی مقدار، 131تولہ 3ماشہ چاندی یاایک کلوپانچ سو اکتیس1531 گرام کے برابر ہے،جس کی موجودہ قیمت بھی 40000 سے زائد بنتی ہے [

خاندانی مہر:

شریعت ،مہر میں خاندانی روایات کی بھی تائید کرتی ہے ، چنانچہ اگر کسی عورت کا مہر ،نکاح کے وقت متعین ہی نہیں کیا گیا تو اس کا نکاح تو ہوجائے گا لیکن مہر ادا کرنا پھر بھی لازم ہوگا ،اور وہ “مہر مثل“ہوگا ،لڑکی کے  والد کے خاندان کی عورتوں کا جو مہر مقرر کرنے کا رواج ہے ،وہی لڑکی کا بھی مہر متصور کیا جائے گا اور لڑکے پر” خاندانی مہر“ ادائیگی لازم ہوگی ۔ گویا مہر سے مفر ممکن نہیں ،الا یہ کہ عورت برضا و رغبت معاف کردے ۔

مرد و عورت دونوں ہی خدا کی خو بصورت تخلیق ہیں ،دونوں کے حقوق کا تحفظ شریعت کی اولین ترجیح ہے ، اللہ کے بندوں میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بہترین ہے ۔

فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللهِ مَنْ اَحْسَنَ اِلَى عِيَالِهِ(بیہقی )

”اللہ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت اُن بندوں سے ہے جو اس کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ احسان کریں“

اس دعا کے تحفے کے ساتھ  اس تحریر کا اختتام کیا جاتا ہے :

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَظْلِمَ اَوْ اُظْلَمَ اَوْ اَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیَّ۔ (حصن حصین)

” اے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتی ہوں اس بات سے کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی دوسرا مجھ پر ظلم کرے یا جہالت برتوں یا میرے ساتھ جہالت برتی جائے“