جب بھی کوئی چیزتیاری کے مراحل میں ہوتی ہے تو جب تک وہ مکمل تیار نہ ہو اس کا استعمال نہیں کیا جاسکتا ،اگر وہ کھانا ہے تو وہ کچا ہوگا،اگر تعمیر ہے تو کمزور ہوگی،  بلکہ پوری توجہ اس کو  بہترین طریقے سےتیار کرنے میں لگا دی جاتی ہے ،ہاں a bit taste  دوران تیاری بھی ہوتا ہے ۔

اہلیہ محمد عبید خان

”منگنی“ شریعت کی  نظرمیں:

”منگنی “   جسے عربی میں” خِطبہ “ کہا جاتا ہے  دورِ نبویﷺ میں بھی کوئی عُنقا عمل نہیں تھا ۔ منگنی کا طریق کار یہی تھا  کہ” پیغامِ نکاح بھیجا جائے، دوسرے فریق کی جانب سے اگر قبول ہوجائے تو اس کو وعدۂ نکاح سمجھ لیا جائے “یہی منگنی ہے ۔

پھر کبھی تو اسی دوران صرف  نکاح بھی کردیا جاتا تھا جیسے آپ ﷺ کاامی عائشہ ؓ کے ساتھ   اور حضرت علیؓ  کا  حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ ہوا ۔

یا پھر صرف وعدہ ٔنکاح تک موقوف رہا جاتا تھا، مہر و نفقہ کا انتظام کرنے کے بعدنکاح و  رخصتی کی جانب پیش قدمی ہوتی تھی ۔ جیسے  آپﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کے لیے پیغامِ نکاح 3ھ میں دیا تھا ،اور 4 ھ میں ان کے ساتھ عقدِ نکاح ہوا۔

یہ بات تو یقینی ہے کہ جس طرح شریعت شادی کی پُرزور  ترغیب دیتی ہےاسی طرح  اس رشتے کو مضبوط بنانے کے جتنے طریقے کارآمدہیں وہ سب بھی  آپﷺ نے اپنے قال و حال اور آپ کے بعد آپ ﷺ کے صحابہ نے ہمیں بتادیے ،تاریخ گواہ ہے کہ جیسی انڈرسٹینڈنگ ان لوگوں کے مابین موجود تھی ، ہم لوگ ، تعلقِ زوجین میں اس مقام کو نہیں پہنچ سکتے کہ وہاں تو دنیا کا کمزور اور عارضی تعلق بنانے کی ہی محنت نہیں ہوتی تھی بلکہ آخرت کے  مستقل اور دائمی تعلق بنانے کے لیے ایک دوسرے کے مددگار ہوا کرتے تھے ۔

قابل غور!

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا انہوں نے نکاح سے پہلے وہ تمام کام کیے جو مغربی کلچر سے متاثر ہوکر ہم اختیار کرنا چاہتے ہیں؟؟

 یقینا نہیں!پھر ان کے مابین اتنی انڈر سٹینڈنگ کیوں تھی ؟؟

اس کا واضح جواب ، اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کا قول ان کے لیے حرف آخر تھا اسی طریقے پر عمل کرکے انہوں نے دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹیں

تو یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آج 1400 سال گزرنے کے بعد  بھی اگر کوئی راستہ ہمیں کامیابی کی جانب لے جاسکتا ہے تو وہ  طریقِ مصطفیٰﷺ ہے۔ ہمیں ازدواجی رشتہ میں مضبوط انڈر سٹینڈنگ پیدا  کرنے کے لیے ،مغرب کے بے حیا کلچر پر چلنے کی ہرگز ضرورت نہیں ۔

 ِدوران منگنی کرنے  کے کام!!

منگیتر کو ہم  ”Semi Spouse“   کا نام دے دیں تو کچھ غلط بھی نہیں ۔یعنی” منگیتر تیاری کے مراحل میں “دیکھیے! جب بھی کوئی چیزتیاری کے مراحل میں ہوتی ہے تو جب تک وہ مکمل تیار نہ ہو اس کا استعمال نہیں کیا جاسکتا ،اگر وہ کھانا ہے تو وہ کچا ہوگا،اگر تعمیر ہے تو کمزور ہوگی،  بلکہ پوری توجہ اس کو  بہترین طریقے سےتیار کرنے میں لگا دی جاتی ہے ،ہاں a bit taste  دوران تیاری بھی ہوتا ہے ۔

بالکل یہی  حال منگیتر کا ہونا چاہیے ،کہ ابھی آپ دونوں کے ملنے کی راہیں ہموار نہیں ہوئیں ،ابھی آپ تیاری کے مراحل میں ہیں ،ایک نئی نسل کی آبیاری ہونے جارہی ہے ،لہذا پوری توجہ ،ہر فریق  اپنی کاؤنسلنگ  میں لگائے یعنی حقوق و فرائض سے آگاہی کے علاوہ یہ بھی سوچنا کہ آگے جا کر کیا حکمت عملی اپنانی ہے؟ کیا چیز برداشت کرسکتے ہیں ؟کس چیز پر سمجھوتا کرنا ممکن نہیں ؟ کوئی صحیح بات ،کسی کو کیسے سمجھانی ہے ؟اپنی غلطی  تسلیم کر کے بہتر کرنے کا کیا طریقہ اپنانا ہے ؟ اس حوالے سے آن لائن یا آن سائٹ    ورکشاپس اور موٹیویشنل کتب ،بیانات اور تحریرِھذا جیسے آرٹیکلز بہترین معاون بن سکتے ہیں ۔

*نیز انہی اوقات میں دونوں گھرانے آپس میں ایک دوسرے کے متعلق بھی اچھی طرح تسلی و تشفی کرلیں پھر ہی نکاح جیسے عظیم  کام کی جانب قدم بڑھایا جائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ، کچھ بھی غیر متوقع،نا قابل برداشت  صورتحال ، پیش آنے کی صورت  میں منگنی کا ٹوٹنا  بہر حال نکاح ختم ہونے  سے کئی گنا کم نقصان دہ ہے۔

شریعت کی خوبصورتی:

احکام شریعت  کی خوبصورتی ہے کہ دوران منگنی جو بھی  کام ،آگے ازدواجی تعلق کی سٹرانگ بانڈنگ میں مفید و معاون بننے تھے ان کی جانب راہنمائی فرمادی ،گویا انڈرسٹینڈنگ پیدا کرنے کا طریقہ وہی معتبر  ہے جو حیات طیبہﷺ نے ہمیں بتا دیا  ۔

آئیے ،ہم مطالعے کے ذریعے سیرت کے سفر پر نکلتے ہیں ۔جہاں زوجین کی ابتدائی انڈرسٹینڈنگ کے گُر موجود ہیں۔

منگیتر کو دیکھنا:

شریعت میں چونکہ انسانی جذبات کا خوب خیال رکھا گیا ہے لہذا نکاح سے پہلے اپنے ہم نشین کو دیکھنے کی اجازت بھی سنت سے ملتی ہے ۔ 

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے ایک عورت سے نکاح کا ارادہ کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا:

إِذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَیْهَا فَإِنَّهٗ أَحْرٰی أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا( سنن ابن ماجہ: رقم: 1865)

” جاؤ اسے جاکر دیکھوکیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار کا با‏عث بنے گا “

روایات میں یہ بات بھی موجود ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نبی ﷺ کا حکم لے کر  جب ان کے والدین کے پاس اس مطالبے کے ساتھ گئے تو انہوں نے اس عمل کو(فطری طور پر) ناگوار محسوس کیا،لیکن لڑکی نے کہا کہ اگر نبیﷺ کا فرمان ہے تو پھر  میں پردہ اٹھاتی ہوں ،اس نے پردہ اٹھایا  تو وہ ایک نظر دیکھ کر واپس آگئے ،بعد میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے ،کہ اس عمل کی وجہ سے ہمارے درمیان بہت بہترین موافقت(understanding) رہی ۔

اس حدیث سے یہ اہم پوانٹس ہمارے سامنے آگئے ۔

منگیتر کو دیکھنا جائز ہے لیکن ایک سرسری نظر ۔

منگیتر کا صرف چہرہ اور ہاتھ پاؤں دیکھے جاسکتے ہیں(سرسری نظر سے یہ ہی ممکن ہے )

تنہائی میں ملاقات جائز نہیں ۔

اس لڑکی کو ہی دیکھا جائے گا جس کے لیے پیغامِ نکاح بھیجا ہے ہر لڑکی کو دیکھنا اور پھر ریجیکٹ کرنا۔اس کی اجازت نہیں ۔

پھر مزے کی بات تو یہ ہے کہ صحابی،قولِ نبیﷺ  پر عمل کرکے اپنا فیڈ بیک بھی دے رہے کہ اس عمل سے ہمارے درمیان بہترین موافقت  و انڈر سٹینڈنگ پیدا ہوگئی اور ہمیں یہاں انڈر سٹینڈنگ کے لیےمیل ملاقات و گفت و شنید جیسے گناہ کے ذریعے  نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔پھر بھی

موافقت ندارد!

ایک سوال ، ایک پریشانی:

 سوال یہ ہے کہ جب لڑکی کو منتخب کرنے کے بعد ہی دیکھنا ہے تو دیکھنے کا کیا فائدہ ؟

پریشانی یہ ہے کہ  لڑکی یا اس کے گھر والے تو نہیں دکھا رہے  پھر اب کیا کیا جائے ؟

تو!پریشان کس لیے ؟یہ پڑھیے نا !!

حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں : خَطَبْتُ جَارِيَةً، فَكُنْتُ أتَخَبَّأ لَهَا حَتّى رَأيْتُ مِنْهَا مَا دَعَانِي إلى نِكَاحِهَا وَتَزَوّجِها فَتَزَوَّجْتُهَا.(سنن ابی داؤد:2082)

” میں نے ایک لڑکی کو پیغامِ نکاح بھیجا تو میں اسے چھپ چھپ کر دیکھتا تھا یہاں تک کہ میں نے وہ بات دیکھ ہی لی جس نے مجھے اس کے نکاح کی طرف راغب کیا تھا، میں نے اس سے شادی کر لی“

پھر ہوگیا نہ مسئلہ حل؟* اگر کسی لڑکی کی جانب رجحان ہے یا اس کے اوصاف معلوم ہوئے ہیں ،تو لڑکی اور اس کے گھر والوں کے علم میں لائے بغیر چھپ کر بھی دیکھ سکتے ہیں،تاکہ ذہنی طور پر تیار ہوجائیں ،انسانی فطرت ہے کہ کسی بھی چیز سے جلدی مانوس نہیں  ہوتا،بلکہ غور و فکر سے جب  تجزیہ (analysis)  کرتا ہے ،ذہن تیار ہوجاتا ہے لیکن بدنظری نہیں،ہر لڑکی کو تاڑنا نہیں ۔

اس طرح ایک صحابی کو جنہوں نے انصاریہ عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تھا ،فرمایا:

فاذہب فانظر إلیہا، فإن فی أعین الأنصار شیئا(صحیح مسلم 2/ 456)

”جاؤاسے دیکھ لو،کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے “

معلوم ہوا کہ عورت کا چہرہ ہی مرد کو اپیل کرتا ہے لہذا  اسی کو ہی دیکھا جائے گا۔

کیا یہاں  کہیں سے بھی یہ ثابت  ہوا کہ تنہائی میں ملاقات کی ، طویل گفتگو کی  یا  جی بھر یا نظر بھر دیکھا ؟؟تصاویر یا تحفے تحائف کے تبادلے کا تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

لہذا منگیتر کو ایک نظر دیکھ لیں کہ یہ آپ کا حق ہے ،گھر والوں کی اجازت سے دیکھ لیں تاکہ آپ کا وقار بھی باقی رہے ،(واذا مروا باللغو مروا کراما”لغویات کے پاس سے وقار سے گزر جانا مؤمن کا شیوہ ہے“ )منگیتر کے ساتھ ،تنہائی اختیار نہ کریں کہ وہاں شیطان ہے ،لڑکی کے گھر والے اجازت نہ دیں تو چھپ کر دیکھ لیں ۔ بس یہی ابتدائی  انڈر سٹینڈنگ پیدا کرنے کا نبوی نسخہ ہے ۔

اس دعا کا بھی اہتمام رکھیے :

اللّٰهم ألهمني رُشْدِي، وَأَعِذْنِي منْ شَرّ نَفْسِي(ترمذی)

” اے اللہ! میرے مقدر کی بھلائی میرے دل میں ڈال دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔