ہمارے ہاں رسم و رواج کی پیروی ایسے کی جاتی ہے گویا یہ کوئی قرآن و حدیث ہو جو نہ کرے اس کو مطعون کیا جاتا ہے ،کرنے والا اپنے چادر سے باہر پاؤں پھیلاتا ہے ۔لڑکی والوں پر بوجھ،لڑکے والوں کا بھاری بھر کم افراد کا مجمع ،دکھاوے کے لیے کرائے کی لگژری گاڑیوں کا انتظام،قرض کا بوجھ چڑھا کر عمدہ سے عمدہ کھانوں کا اہتمام ،یہ امور مسنون و بابرکت دعوت کو بھی بوجھ اور عذاب بنا دیتے ہیں

 اہلیہ محمد عبید خان

 ”لوگ کیا کہیں گے“یہ ایسا زہریلا انجیکشن ہے جو ہماری پیدائش کے ساتھ ہی ہمارے دماغوں میں لاشعوری  اور بڑے ہونے کے بعد شعوری طور پر انجیکٹ کردیا جاتا ہے،

جو ہمیں  احساسِ کمتری کا شکار  رکھتا اور مستقل ذہنی دباؤکا شکار کرکے نفسیاتی مریض  بنا دیتا ہے ۔ اسی نے   اچھے اچھوں کو  گردنوں میں وہ طوق ڈالنے پر مجبور کردیا ہےجس سے ہم کھل کر شریعت کی سہولت بھری فضا میں سانس نہیں لے پاتے  ، ہمارے قدموں میں ایسی اَن دیکھی زنجیریں ڈال دیں ، جن سے عاجز آنے کے باوجود ہم ان کو توڑ نہیں پا تے ، ہماری زبانوں پر ایسے فقل لگا دیے ہیں کہ ہم اندر ہی اندر خود کو گھوٹنے کے باوجود ،ظاہر میں ریاکاری اور تصنع کے ساتھ خوشی کا اظہار کررہے ہیں ۔ گویا بزبان قال و حال :

سب سے بڑا روگ              کیا کہیں گے لوگ!!

ہماری  عقلیں ایسی  زنگ آلود ہوچکی ہیں کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے شرماتے ہیں حالاں کہ  اسلام  کے امتیازی تشخص کو پہچان کر اس پر عمل کرنا باعث فخر سمجھنا چاہیے تھا ۔  شرعی سہارےکوئی کمزور تو نہیں کہ ہم ان جیسے جملوں کا مقابلہ نہ کرسکیں ۔قرآن کی کتنی ہی آیات ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ دینِ اسلام سے زیادہ سہل و آسان کوئی اور دین نہیں ۔

آپﷺ کی تشریف آوری ہی ایسی بابرکت تھی جس نے آتے ہی تمام  جاہلانہ رسم و رواج کو شٹ اپ کال دی ۔

وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ(اعراف :157)

”اور اُن پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اُتار دے گا جو اُن پر لدے ہوئے تھے“

کیوں اتارے؟ کیونکہ

وہ رب آسانی چاہتا ہے ،تنگی نہیں چاہتا (البقرہ185)وہ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف و آسانی کردی جائے کہ انسان کو پیدا ہی کمزور کیا گیا ہے(النساء 28)

لوگوں کا خوف یا اللہ کا خوف:

 ہم نے کیا کیا؟لوگوں سے ڈرے، ان کی باتوں کو قرآن و سنت سمجھ کر سینوں سے لگایا،ان کے بنائے گئے Criteria کوا سٹیٹس سمبل بنا کر ،شرعی criteria سے منہ موڑ لیا۔ نتیجہ تو پھر یہی نکلنا تھا کہ زندگی تنگ ہونی تھی اور ایسا ہی ہے  کہ” جو رحمن کے ذکر سے پہلو تہی کرتا ہے اس پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے“(طہ:124)

شادی کے موقع پر ”اپنی چادر سے پاؤں باہر نکال کر“جتنے اخراجات ہم کرتے ہیں ان سب کی جڑ ”لوگ کیا کہیں گے“ یا ”واہ واہ“ہی ہوتی ہے ۔ کہیں  برات اور ولیمے کی ”شاندار ریسیپشن“پر پیسہ لگایا جارہا ہے ،کہیں اعلیٰ سے اعلیٰ جہیز و بری کی خریداری میں قرض کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے ، کہیں مایوں ،مہندی کے فنکشن پرباقاعدہ خرچ کرکے شیطان کی خوشی اور رحمٰن کی ناراضی مول لی جاتی ہے ،  مقابلے بازی کی نیت سے انواع و اقسام کے کھانوں کا مینیوسیٹ کرنا،  مہنگی ترین ڈیکوریش اور ملبوسات پر خرچ۔ یہ سب کیا ہے ؟ برکت آئے، تو آئے کہاں سے ؟کوئی روزن، کوئی دروازہ، کیا باقی رہنے دیتے ہیں ہم ؟؟

پھر یہی کہا جائے گا نا کہ باوجود ان طوق  و زنجیروں سے بیزار ہونے کے ، نسل در نسل انہی خرافات کو اپنائے جارہے ہیں۔

آج معاشرے کے لوگوں کا ڈر (خواہ سسرال کا ہو،اعزا ءو اقارب کا یا دوستوں کا)  ہمیں اسلام و دین بے زار بناتا جارہا ہے ،لوگوں کا ڈر ہمیں اللہ کےڈرسے بھی زیادہ لگتا ہے ۔یہی تو وہ سوچ ہے جس کی قرآن پہلے ہی قباحت بیان کرچکا ہے :

أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤُمِنِينَ(توبہ:13)

”کیا تم لوگوں سے ڈرتے ہو؟اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اگر تم مؤمن ہو“

جی ہاں! مؤمن ہونے کا دعویٰ ہے نا؟؟ تو پھر آئیے نا! صرف وہ کام کرتے ہیں جس سے رحمٰن کی رضا حاصل ہو !!

دعوتِ طعام:

کھانا کھلانا اور اس دعوت کو قبول کرناشریعت کا پسندیدہ عمل ہے ،اس سے محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے ، صلہ رحمی بڑھتی ہے ، دنیا و آخرت کی بھلائی ،خیر اور برکتیں نصیب ہوتی ہیں:

کہیں  کھانا کھلانے پرجنتوں کے وعدے :

أَطْعِمُوا الطَّعَام، وأَفْشُوا السَّلَام، تُورَثُوا الْجِنَان.(ترمذی)

”كھاناكھلاؤ، سلام پھیلاؤ، جنتوں كے وارث بن جاؤ“

کہیں میزبانی کے بخیل سے بھلائی کی نفی:

لا خيرَ فِيمَنْ لا يُضِيفُ(مسند احمد)

”اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو میزبانی نہ کرے“

*کہیں مہمانی کو بغیر معقول و شرعی عذر ،رد کرنے والوں کو نافرمان کہنے کی وعید:

ومن تَرك الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَى اللهَ وَرَسُوْلَهٗ(متفق علیہ)

”جس نے  دعوت قبول کرنے سے انکار کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی“

گویا مسلمان بھائی کی خوشی میں شریک ہونا چاہیے ، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔

إذا دُعِيَ أحدكم إلى الوَلِيمَة فَلْيَأْتِهَا(متفق علیہ)

”جب تم میں سے کسی کو دعوتِ ولیمہ پر بلایا جائے، تو وہ اس میں ضرور شریک ہوـ“ 

چنانچہ جب تک کوئی غیر شرعی امور کا ارتکاب دعوت میں نہ کیا جائے اس وقت تک مسلمان کی دعوت کو لازمی قبول کرنا چاہیے ، بعض روایات میں روزےدار ہونے کی حالت میں بھی دعوت قبول کرنے کا ذکر ہے ، گویا کھانا مقصود نہیں ہے،مسلمان بھائی کی  خوشی میں شریک ہو کر  خوش ہونا مطلوب ہے ۔

الجھن!کھانا کھلانے کا عمل تو پسندیدہ ہے ،اور شادی بیاہ کے موقع پر ہر تقریب میں کھانا دیا جاتا ہے تو وہاں قباحت کیوں آتی ہے؟

آئیے اس الجھن کی سلجھن بھی سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں :

دعوتِ ولیمہ:

جی ہاں! ولیمہ اگرچہ مسنون ہے لیکن اس میں بھی شرعی طریق کو اپنایا جائے گا تو  شرعی اور مسنون بنے گا۔لہذا اس کے انعقاد کے موقع پر چند باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

کھانے میں رواج نہیں استطاعت کو دیکھا جائے:

حضور ﷺ نے شادی کی دعوت کے موقع پر کھانے کا کوئی ایک خاص طریقہ،کوئی خاص ڈش،محدود خرچ یا مینیو سیٹ نہیں کیا۔ بلکہ مختلف مواقع پر مختلف طریقے  رہے :جن میں مشترکہ بات ”بقدر استطاعت“ہونا ہے ۔

*سب سے زیادہ شاندار دعوتِ ولیمہ آپﷺ نے حضرت زینب ؓ کے ساتھ نکاح کے بعد دی تھی جس میں پوری بکری ذبح کی گئی تھی(اور عرب کے ہاں بکری ذبح کر کے کھلا دینا ،پرتکلف اور بڑی دعوت شمار ہوتا تھا) نیز حضرت ام سلیمؓ نے آپ ﷺ کو کھجور،گھی اور پنیر کا ملیدہ  ہدیے میں دیا ،افراد کی بھی تخصیص نہیں تھی بلکہ حضرت انسؓ سے فرمایا گیا ”جو ملتا جائے بلاتے جاؤ“ وہ کھانا بھی آپﷺ کی دعا سے بابرکت ہوا کہ مدینے کے لوگوں کو کافی ہوگیا۔(بخاری)

*امی عائشہ ؓ سے رخصتی کے بعد باقاعدہ کوئی ولیمہ نہیں کیا گیا صرف حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے گھر سے دودھ کا پیالہ آیا،جو خود بھی پیا،امی عائشہ ؓ کو بھی دیا اورجو گھر میں خواتین موجود تھیں ان کو بھی دے دیا(مدارج النبوت :2/102)

*حضرت صفیہؓ کا ولیمہ چونکہ سفر میں درپیش آیا تھا لہذا جس کے پاس جو تھا (کھجور،ستو،پنیر،گھی)وہ جمع کیا گیا اور سب نے مل کر کھا

لیا۔(بخاری:5172)

حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے اکثر اپنی ازواج کا ولیمہ دو کلو جَو کے ساتھ کیا(ابن سعدالطبقات الکبریٰ:8/166)

* حضرت علیؓ   اور حضرت فاطمہ ؓ کے ولیمے کے موقع پر آپﷺ نے اہتمام فرمایا تھا ،حضرت اسما ءؓفرماتی ہیں کہ اس سے بہتر اور عمدہ ولیمہ ہم نے کسی کا نہیں دیکھا آپﷺ نے گوشت اور چھوہارے،دو سیر جو سے کھانا تیار کروایا  اور مدینے کے لوگوں کو پیغام دعوت بھیجا پھر اپنے دست مبارک سے سب کو تقسیم فرمایا۔(مواہب لدنیہ)

ان تمام روایات کو تفصیلا ً ذکرکرنے کا مقصد یہی ہے کہ کھانا میں استطاعت کو مدنظر رکھا جائے گا رواج کو نہیں۔

مقابلہ بازی نہ ہو:

ألْمُتَبَارِیَانِ لَا یُجَابَانِ وَلَا یُؤکَلْ طَعَامَھُمَا(مشکوٰۃ)

”دومقابلہ (فخر) کرنے والوں كی دعوت قبول نہ كی جائے اور نہ ان كا كھانا كھایا جائے“

سوچیے !!آپ یہاں اپنی اور دوسروں کی دعوتوں کو compare کرتے رہ جائیں ،وہاں شریعت ہماری دعوتوں کو قبول کرنے سے منع کرچکی ۔

صرف امراء و خواص ہی مدعو نہ ہو:

مروجہ طریقوں کے مطابق مخصوص لوگوں کوInvitation دیے جاتے ہیں ، جس میں ہماری برادری کے معزز افراد سمیت ،ہائی اسٹینڈرڈ دوست واحباب کو مدعو کیا جاتا ہے،وہ تعلق دار جو غریب ہیں ،نہ ان کی  دی گئی دعوت میں شمولیت قابل قدر گردانی جاتی ہے ،نہ ان کو اپنی دعوت میں بلایا جاتا ہے ،یہ دوغلی پالیسی شریعت پسند نہیں کرتی ۔ 

 شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيْمَةِ، يُدْعٰى لَهَا الْأغْنِيَاءُ وَيُتْرَكَ الْفُقَرَاءُ(متفق علیہ)

”ولیمہ کا وہ کھانا بدترین کھانا ہے جس میں صرف مال داروں کو اس کی دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے ‘‘

دعوتِ برات:

برات  کا تصور  فقط اتنا ہے کہ ”دلہا“اپنے ساتھ چند لوگوں کو نکاح کا مقدس فریضہ سر انجام دینے کے لیے لے جائے ،ساتھ جانے والوں کی تعداد کتنی ہو اس کی بھی کوئی مخصوص  قید نہیں ،بس سہولت مد نظر ہو،جب یہ ”برات“ وہاں بطور  مہمان پہنچے گی تو اکرامِ مہمان کے لیے  دلہن والے خوشی کے ساتھ ،بغیر دباؤ کے  جو اہتمام کرلیں ،وہی ”برات“کا کھانا کہلایا جائے ۔ اس سارے عمل میں کوئی قباحت نہیں ۔

لیکن  در حقیقت ہمارے ہاں ہر چیز کو رواج اور رسم بنا لیا جاتا ہے ، پھر اس رسم و رواج کی پیروی ایسے کی جاتی ہے گویا یہ کوئی قرآن و حدیث ہو جو نہ کرے اس کو مطعون کیا جاتا ہے ،کرنے والا اپنے چادر سے باہر پاؤں پھیلاتا ہے ۔لڑکی والوں پر بوجھ،لڑکے والوں کا بھاری بھر کم افراد کا مجمع ،دکھاوے کے لیے کرائے کی لگژری گاڑیوں کا انتظام،قرض کا بوجھ چڑھا کر عمدہ سے عمدہ کھانوں کا اہتمام ،یہ امور مسنون و بابرکت دعوت کو بھی بوجھ اور عذاب بنا دیتے ہیں ۔

برات کا ثبوت:

نبوت  کے بعد تو آپﷺ  سے برات کاباقاعدہ ثبوت نہیں ملتا تاہم  روایات سے ثابت ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ آپﷺ کے نکاح کے وقت ،بنو ہاشم،مضر کے سردار،بنو مخزوم اور دیگر قریشی افرادآپﷺ کے ساتھ گئے تھے جن کی تعداد کے متعلق 10 سے 40 افراد تک کے اقوال موجود ہیں ، اور اس دوران حضرت خدیجہ کی جانب سے اونٹ کے ذریعے سے ان کی مہمانی کی گئی تھی ۔(الرحیق المختوم،طبقات  ابن سعد،سیرت حلبیہ)

نکاح کی بِد:

رسم و رواج کی قید کے بغیر اگر نکاح کی خوشی میں کھجور، چھوہارے،شکر ،بادام وغیرہ تقسیم کردیے جائیں تواس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

”آپﷺ نے حضرت علی ؓ کا حضرت فاطمہؓ سے نکاح کرنے کے بعد ایک طباق کھجوروں کا لیا اور صحابہ ؓ کے سامنے بکھیر کر لُٹایا“         ( مدارج النبوت 2/109)

جہیز اور بری:

جہیز ہو یا بری دونوں کی حیثیت ہدیے کی ہے ،اور” ہدایا محبت کو فروغ دیتا ہے “جہیز بظاہر بیٹی کو شادی کے موقع پر  والدین کی جانب سے ملنے والا تحفہ ہوتا ہے  جوتمام والدین اپنی حیثیت کے مطابق کم یا زیادہ دے سکتے ہیں ، اسی طرح بری کی حیثیت بھی سمجھی جاسکتی ہے گھر میں آنے والے نئے مہمان”بہو“کو کچھ ہدایا پیش کردینا ،یقینا معیوب فعل نہیں ۔ 

لیکن  ہندوانہ کلچر کی ایسی چھاپ ہمارے معاشرے میں موجود ہے جس نے آج ان ہدایا کو بھی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا کر ایک اضافی بوجھ بنا دیا ہے ، اسراف و تبذیر، دکھاوا،منہ پھاڑ  کےڈیمانڈ کرنا،زور زبردستی ، زمین ،پلاٹ و جائیدادیں نام کرنے کی لمبی چوڑی تحریری شرائط ۔اور اس عمل میں فریقین بد نظمی اور لالچ کا شکار ہیں ،جس کی بنا پر یہ آج یہ نعمت نہیں ،لعنت بن گئی ہیں ۔

ذرا سوچیے !پریشرائز کرکے لی ہوئی چیز  کا استمعال جائز رہے گا؟ جبکہ واضح حدیث موجود ہے:

أَلَا لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بطِيْبِ نَفْسٍ مِنْهُ(مشکوٰۃ)

”خبردار! کسی آدمی کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے“

حضرت فاطمہ ؓ کے جہیز کو جو لوگ بنیاد بناتے ہیں اس کی تفصیل سے یقیناً ناواقف ہیں :

" عن عليؓ قال: « جَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِﷺ فَاطِمَةؓ فِي خَمِيلٍ ، وَقِرْبَةٍ ، وَوِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ »". (سنن النسائي:6 / 135)

رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمۃؓ  کو یہ چیزیں تیار کرکے دی تھیں:  ”ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ، ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی“

واضح رہے کہ عرب میں جہیز کا کوئی تصور نہیں تھا ،چنانچہ یہ اور چند اور ضروری چیزیں آپﷺ نے حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر خریدی تھیں۔ کیونکہ آپﷺ ،حضرت علی ؓ کے سرپرست تھے ،لہذا پھر یہ خواہ جہیز کہلائی جائیں یا بری۔ بہر حال ان کی حیثیت فقط اتنی ہے کہ والدین نئے شادی شدہ جوڑے کو ابتدائی زندگی میں ،آسانی اور سہولیات فراہم کرنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق ضروری چیزوں کا ہدیہ دے سکتے ہیں جو کہ تعاون اور خیر خواہی کی ایک صورت ہے ۔

2)اسی طرح حضرت خدیجہ ؓ نے حضرت زینب ؓ کو رخصتی کے موقع پر اپنا ہار ہدیہ کیا تھا ۔ جو غزوہ بدر میں اپنے شوہر کو قید سے چھڑانے کے لیے انہوں نے بطور فدیہ بھیجا تھا۔(ابن سعد،طبقات الکبریٰ:258)

تمام روایات میں جو بات قابل غور و قدرِ مشترک ہے وہ یہی ہے کہ اصل چیز ”اپنی استطاعت “ہے ۔لوگوں کے ڈر،یا معاشرے کے خوف سے شریعت کو موم کی ناک نہیں بنانا گیا۔

لوگوں کا کام تو باتیں بنانا ہے ،ہم ہر وقت ہر کسی کو راضی نہیں کرسکتے ،بس اللہ کو راضی رکھنے کی فکر ہو اس کی ضمن میں سب راضی ہوجائیں گے ۔ایک عبرت انگیز بات کے ساتھ یہ موضوع سمیٹا جاتا ہے ْساری عمر ہم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ”لوگ کیا کہیں گے “ اور لوگ آخر میں کہتے ہیں ”انا للہ وانا الیہ راجعون “

لہذا جو” انا للہ “انہوں نے ہماری موت پر پڑھناہے وہ ہم آج ہی ان کی سوچوں اور زبانوں پر پڑھ کر سکون پائیں ۔

اہم بات!

یاد رکھیے! آج کے دور میں سادہ اور  آسان شادی ،متروک سنت ہے ،اور یقینا اس سنت کو زندہ کرنے والے کے لیے 100 شہیدوں کا اجر ہے ۔(مشکاۃ)

خود کی اور دوسروں کی شادی کو اپنے عمل کے ذریعے ،بابرکت بنانے کے ساتھ ،دلہا دلہن کےلیے  اس بابرکت دعا کا بھی اہتمام

کیجیے۔

بارَکَ اللّٰہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ وَجَمَعَ بَیْنَکُمَا فِیْ خَیْرٍ (مسند احمد)

”اللہ تعالی آپ کے لیے اورآپ پر برکت نازل کرے اورآپ دونوں کو خیر و بھلائی میں اکٹھا کر دے“