(سورہ نور کی آیت نمبر 31 روشنی میں )

ام سنینہ

گھروں میں نامحرم مردوں کے آنے کی صورت میں  خواتین کو جو ہدایات دی گئی ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ  اپنی شخصیت کی تعمیر اور حفاظت کے نظریے سے عورت اور مرد کے لیے احکام یکساں نہیں۔ مردوں کے لیے نگاہوں اور ستر کی جگہوں کی حفاظت کافی ہے۔ لیکن عورتوں کے لیے ان دونوں ہدایات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ

 1 اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں، سوائے  اس کے جس کے ظاہر کیے بغیر چارہ نہیں۔

 2 اپنی اوڑھنیوں سے اپنے سینوں کو ڈھانپ لیا کریں۔

 3 زمین پر پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ مخفی زینت ظاہر ہوجائے۔

 4 درمیان میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے سامنے زینت کا اظہار ممنوع نہیں۔

 اس طرح سے وہ قواعد و ضوابط بیان کردیے گئے ہیں جن سے گھروں کے ماحول میں پاکیزگی کی امید کی جاسکتی ہے اور اسلامی معاشرے کو ایسے گھر میسر آسکتے ہیں جو ایک طرف ان کے لیے ہر طرح کی بداخلاقی  اور دین سے دوری سے پناہ گاہ کا کام دیں گے اور دوسری طرف وہیں سے وہ نسلیں نکلیں گی جو اسلامی اخلاق کی پیکر اور اسلامی قوت کا ہر اول دستہ ہوں گی۔

 ذیل میں ان   ہدایات کی وضاحت بیان کی جا رہی ہے  

 1 گھر کے اندر جب کوئی غیرمحرم داخل ہو تو گھر میں موجود خواتین اپنی نگاہیں جھکا لیں تاکہ گزرنے والے مہمان پر ضرورت سے زیادہ نگاہ نہ پڑے۔

 2 اپنی شرم کی جگہوں کی پردہ پوشی کریں، یعنی جب انھیں معلوم ہو کہ باہر سے کوئی مہمان آرہا ہے اور وہ نامحرم ہے تو اگر مکان میں عورتوں کے الگ بیٹھنے کی گنجائش ہو تو پھربہتر یہی ہے کہ عورتیں الگ بیٹھیں اور مہمانوں کو الگ بٹھایا جائے۔ لیکن اگر مکان تنگ ہے اور مہمانوں نے وہیں سے گزر کے جانا ہے تو پھر وہ  اپنے لباس کو درست کریں، اپنی بُکّل کو ٹھیک کرلیں۔ لباس اس طرح کا نہ ہوکہ جذبات میں تحریک کا اندیشہ ہو

 اس لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو باریک لباس پہننے سے روکا۔ حضرت اسماء  کو جب  باریک لباس میں دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ پھیرلیا اور ارشاد فرمایا کہ جب لڑکی بالغ ہوجائے تو پھر اسے ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے جسم جھلکتا ہو اور اس کے ہاتھ، پاؤں اور چہرے کے سوا سارا جسم چھپا ہوا ہونا چاہیے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کلائی اور ہاتھ کے جوڑ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اس سے زیادہ کلائی کھلی نہیں ہونی چاہیے۔

 3 اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ بجز اس کے کہ جو خودبخود ظاہر ہوجائے۔ بعض لوگوں نے زینت سے مراد چہرہ لیا ہے حالانکہ  یہاں حجاب اور نقاب کی بحث نہیں ہورہی، اس کا حکم سورة الاحزاب میں ہے۔ یہاں بحث گھر کے پردے کی ہے۔ اور ظاہر ہے گھر سے باہر جانے کی صورت میں پردے کے جس اہتمام کا حکم اور ضرورت ہے گھر کے اندر ویسا نہیں اس لحاظ سے چہرے کو اس میں شامل کرنا تکلف کے سوا اور کچھ نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ یہاں زینت سے مراد بناؤ سنگھار کا سامان یعنی زیور لیا جائے۔

 4  گھروں میں عورتیں اپنے دوپٹوں اور اوڑھنیوں سے بُکّل مار لیا کریں یعنی اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں۔ دراصل جاہلیت کے زمانے میں عورتیں اپنے سروں پر دوپٹہ لینے کا تکلف کرتی تھیں لیکن ایک دھجی اور چیتھڑے کی طرح دوپٹہ ان کے سر سے کمر پر لٹکتا رہتا اور سینے پر قمیص کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے قرآن کریم میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ اس طرح اپنے سروں پر دوپٹے لیں جس سے سر بھی ڈھکا رہے، کمر بھی اور سینہ بھی چھپا رہے اور سینے کا ابھار چونکہ شرم کی جگہ ہے اس لیے بطور خاص اس پر دوپٹہ ڈالنے کا حکم دیا۔

 انسانی سیرت و کردار میں جب بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس کا رجوع اسی جاہلیت کی طرف ہوتا ہے جس سے اسلام نے انسانوں کو نکالا ہے۔ آج بھی جو لوگ تہذیب مغرب کے زیراثر اسلامی تہذیب سے متنفرہیں ان کے گھروں کی خواتین اپنے طوراطوار میں اسی جاہلیت کی نمائندگی کررہی ہیں۔ ان کے دوپٹے ان کے کندھوں پر جھولتے رہتے ہیں۔ وہ بڑے گلے  اور سینے کے ابھار کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کو لازمہ تہذیب سمجھتی ہیں۔

 وہ لوگ جن کے سامنے اظہارزینت ممنوع نہیں

 جن کے سامنے زینت کا اظہار ممنوع نہیں۔ وہ ان کا محرم ہونا ہے۔۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اس فہرست میں چچا اور ماموں کا ذکر نہیں جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق ان کے سامنے اظہار زینت ممنوع نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی محرم رشتہ داروں میں شامل ہیں۔ اس فہرست میں جن لوگوں کو ذکر کیا گیا ہے یوں تو ان میں کوئی معنوی الجھن نہیں

* البتہ بعض الفاظ مصداق کے حوالے سے وضاحت طلب ضرور ہیں*

 مثلاً

اٰبَآئِھِنَّ ،

 اٰبَـآ، اَبْ کی جمع ہے، اس کا معنی ہے باپ۔ لیکن یہاں یہ اپنے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔  ان میں دادا، پردادا اور نانا، پرنانا بھی شامل ہیں، لہٰذا ایک عورت اپنی ددھیال اور ننھیال اور اپنے شوہر کی ددھیال اور ننھیال کے ان سب بزرگوں کے سامنے اسی طرح آسکتی ہے جس طرح اپنے والد اور اپنے سسر  کے سامنے آسکتی ہے۔

 بھائیوں میں سگے اور سوتیلے اور ماں جائے بھائی سب شامل ہیں۔

 بھائی بہنوں کے بیٹوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد ہیں۔ یعنی ان کے پوتے، پر پوتے اور نواسے، پرنواسے سب اس میں شامل ہیں۔

 

 *اَوْنِسَائِھِنَّ *

: اس کا لفظی ترجمہ ہے، ان کی عورتیں۔اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سے ہر طرح کی عورتیں مراد نہیں لی جاسکتیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر صرف نساء کا لفظ استعمال کیا جاتا۔ اس لیے بعض اہل علم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اس سے مراد صرف مسلمان عورتیں ہیں۔ غیرمسلم عورتیں خواہ وہ ذمی ہوں یا کسی اور قسم کی، ان سے مسلمان عورتوں کو اسی طرح پردہ کرنا چاہیے، جس طرح مردوں سے کیا جاتا ہے۔

  حضرت عمر  کے ایک خط کا حوالہ جو انھوں نے حضرت ابوعبیدہ  کو لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ مسلمانوں کی بعض عورتیں غیرمسلم عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے لگی ہیں حالانکہ جو عورت اللہ تعالیٰ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے حلال نہیں کہ اس کے جسم پر اس کے اہل ملت کے سوا کسی اور کی نظر پڑے۔ یہ خط جب حضرب ابوعبیدہ  کو ملا تو وہ ایک دم گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے، خدایا جو مسلمان عورت محض گوری ہونے کے لیے ان حماموں میں جائے، اس کا منہ آخرت میں کالا ہوجائے۔

 

 بعض دیگر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اور یہی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد اپنے میل جول اور تعلق اور خدمت کی عورتیں ہیں، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم۔ کیونکہ وہ جانی پہچانی اور بھروسے کی خواتین ہوتی ہیں۔ کیونکہ ہر قسم کی اجنبی عورتوں کے سامنے خواہ وہ مسلمان ہی ہوں اپنی زینت کا ظاہر کرنا فتنہ اور خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ اس کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کے پاس ذمی عورتوں کی حاضری کا ذکر آتا ہے۔ اس معاملے میں اصل چیز جس کا لحاظ کیا جانا چاہیے وہ مذہبی اختلاف نہیں بلکہ اخلاقی حالت ہے۔ شریف، باحیا اور نیک اطوار عورتیں جو معروف اور قابل اعتماد خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ہوں ان سے مسلمان عورتیں پوری طرح بےتکلف ہوسکتی ہیں، خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن بےحیا، آبروباختہ اور بداطوار عورتیں خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، ہر شریف عورت کو ان سے پردہ کرنا چاہیے، کیونکہ اخلاق کے لیے ان کی صحبت غیرمردوں کی صحبت سے کچھ کم تباہ کن نہیں۔۔ (جاری ہے )