اہلیہ محمد عبید خان کراچی

حق مہر! نکاح کا ایک اہم حصہ،جس کو لوگ جتنا رسمی اور رواجی لیتے ہیں شریعت میں  اتنا ہی سنجیدہ اور تاکیدی  حکم ہے ۔ مہر میں عورت کی عزت ،شان ، قدر و منزلت، اس کے لیے اعزاز اور عورت کی جانب سے نکاح کی دلی رضامندی کامہذبانہ اشارہ ہے ۔یہ صرف فرضی اور رسمی کاروائی کا نام نہیں ہے ۔

لیکن مغربی پراپیگنڈہ سے متاثر ،روشن خیال ،دین و مذہب بے زار لوگوں نے اس کو بھی عورت کی ذلت سمجھا، ان کے نزدیک حق مہر عورت کی عزت  اور اس کے جسم کی قیمت ہے اور یہ عورت کے لیے وصول کرنا ،انتہائی ذلت و بے عزتی کی بات ہے ، یہاں تک کہ    یہ خرافات کہنے میں بھی عار نہیں سمجھی کہ ” نکاح کے موقع پر حق مہر وصول کر لینے کے بعد ، ایک عزت دار عورت اور طوائف میں کوئی  خاص فرق نہیں  رہتا کیونکہ وہ بھی اپنی قیمت لگا کر خود پر مرد کو اختیار دیتی ہے “

اس  منفی پراپیگنڈہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرتی طور پر حق مہر کا مطالبہ کرنا معیوب سمجھا جانے لگا ،یہاں تک کہ اگر کوئی عورت بذات خود مرد سے حق مہر کا مطالبہ کرے تو اس کو بے شرم و بے حیا جیسے کئی القابات سے نوازا جاتا ہے ۔

*اکثر گھرانوں میں، جن کا ارادہ مہر دینے کا ہوتا ہی نہیں وہ نکاح میں مہر کی تعیین کو ایک رسمی عمل سمجھتے ہیں ۔ اس لئے اپنی حیثیت سے زیادہ مہر پر آمادہ بھی ہوجاتے ہیں کہ ”مہر دینا کسے ہے ؟“ حالانکہ مہر نہ دینا یامقرر کرنے کے باوجود ، ادا کرنے کی نیت کا نہ ہونا بہت بڑا گناہ ہے ۔یہ نکاح قانوناً جائز ہونے کے باوجود، عند اﷲ زنا اور بدکاری کی طرح ہے ۔

اس شخص کے لئے بڑی سخت وعید ہے ، جو نکاح کے موقع پر رسمی طورپر مہر مقرر تو کرے لیکن دل میں ادائیگی کا ارادہ نہ ہو:

مَنْ تَزَوَّجَ إِمْرَاةً بِصَدَاقٍ وَهُوَ یَنْوِي أَنْ لاَّ یُؤَدِّیْهِ إِلَیْهَا فَھُوَ زَانٍ.(دولابی، الکنی والأسمائ، 1: 307، رقم: 540)

”جس نے مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ وہ اس مہر کو اُسے ادا نہ کرے گا،

وہ دراصل بدکار ہے“

ترقی نہیں جاہلیت:

یہ ترقی تو نہیں ! بلکہ الٹا جاہلیت کے زمانے کی جانب یو ٹرن ہے ۔  عرب کے ہاں مہر کا رواج تھا لیکن مہر دلہن خود وصول نہیں کرتی تھی بلکہ یا تو  اس کے اولیاء وصول کیا کرتے تھے یا مہر کا بدل، دوسری عورت کی شادی  کو بنایا جاتا تھا ۔گویا مہر کے بغیر” وٹہ سٹہ “کیا جاتا تھا ۔عورت ان کے لیے ”کیش بک“تھی ،چنانچہ اگر کہیں بے دلی سے عورت کو زندہ رہنے کا حق دیا جاتا  تھا تو اس کے پیچھے یہی سبب کارفرما تھا  کہ شادی کرکے اس کا مہر وصول کیا جائے ۔

عورت  قیمتی آبگینہ:

عرب کی جاہلیت اور آج کے مغرب زدہ معاشرے سے متاثر سیکولر طبقے میں بس  تاریخ کا فرق ہے ، جبکہ شریعتِ اسلام نے ”عورت“ کو جو عزت واحترام،قدرومحبت اورمنصفانہ حقوق دیے ہیں ، دیکھا جائے تو کوئی اور مذہب عورت کے لیے یہ اسٹینڈ لینے میں بری طرح ناکام رہا ۔مرد و زن میں مساوات و برابری کا نعرہ لگا کر دنیا میں کتنی ہی تنظیمیں،این جی اوز،ادارے کام کررہے ہیں ،کہیں کانفرنسیں منعقد کی جارہیں، کہیں تجاویز اور بل پاس کیے جا رہے ، کہیں اخبارات ،رسالوں میں آرٹیکل شائع ہو رہے ہیں ، اس کے باوجود عورت کو اس کے نسوانیت کے احترام کے ساتھ مغرب،جب  حقوق دینے سے محروم رہ گیا ۔ تو سازشی ذہنیت کی بنا پر اسلامی اقدار  پر حملے شروع کردیے ۔

لیکن      ؎پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔

سلیم الفطرت دل اور وسیع النظری سے اگر شریعت کے اس حکم پر غور و فکر کرلیا جائے تو بغیر کسی خاص تکلف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورت کو مرد کے لیے مرغوب،محبوب اور پسندیدہ بنا کر قیمتی بنادیا گیا ہے  اور  پسندیدہ اور قیمتی چیز کو پیسوں کے ذریعے،نیز محنت و کوشش سے  حاصل کیا جاتا  ہے، یہ عورت کی عزت ہے کہ مرد اس کو پانے کے لیے محنت میں کوشاں رہتا ہے ،پھر پیسہ لگانے کے باوجود اس کی قدر و قیمت میں کوئی کمی نہیں آتی ،  بلکہ نازک آبگینوں کی ،کانچ سی حفاظت کی جاتی ہے ،ان کے نان و نفقہ ، رہائش،اخراجات اور دیگر حقوق ادا کرنے کا مرد کو مستقل پابند کیا جاتا ہے ۔یہ تمام احکام،اس بات کا   احساس دلاتے ہیں کہ  عورت اس کائنات کی سب سے قیمتی  و نازک شےہے جس کو for granted نہ  حاصل نہیں کیا جاسکتا  ،نہ برتا جاسکتا ہے ۔

مہر کی حکمت و مصلحت:

اگرچہ مسلمان کا کام تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے گئے احکامات پر ”آمنا و صدقنا “کہنا ہوتا ہے ،اس کی مصلحت و حکمت کا جاننا اس کے لیے ضروری نہیں، تاہم  احکام کی مصلحت ،تجرباتی ومشاہداتی  طور پر سمجھ آجائیں تو” نور علی نور“ ہیں ۔اب مہر کے ہی حکم کو لیجیے ، ایک نہیں بے شمار مصلحتیں ہیں ، جو سرسری غور و فکر سے بھی معلوم ہوجاتی ہیں ۔ پہلے توقرآن مجید میں مہر کے لیے مقرر کیے گئے مختلف الفاظ اس کی عورت کے حق میں حیثیت کو واضح کرتے ہیں ۔

مہر ایک Gift:

قرآن میں کہیں ” نِحْلَةً “کہا گیا یعنی مہر مرد کی جانب سے عورت کے  لیے الفت و محبت اور احترام  کا پیغام ہے ،  اسی وجہ سے

قرآن مہر کو ”عطیہ ،گفٹ“کہہ کر متعارف کرواتا ہے ۔ کیا کوئی گفٹ،  جسم یا عزت کی قیمت کہلاتا ہے؟

وَ آتُوا النِّساء َ صَدُقاتِہِنَّ نِحْلَةً(النساء)

’’اور عورتوں کو ان کے مہر بہ طور عطیہ اداکرو۔‘‘

نکاح، مذاق نہیں:

 مرد پر مہر کو فرض کرکے یہ تاکید کی گئی کہ شادی کوئی گڈا ، گڈی کا کھیل نہیں بلکہ ایک اہم اور سنجیدہ عمل ہے ، چنانچہ  جتنی بھی سنجیدہ کارروائیاں سر انجام دی جاتی ہیں اس کی فیس اور  اس کا معاوضہ لازمی رکھا جاتا ہے تاکہ لوگ اس کو مذاق نہ سمجھیں  اور سنجیدگی کے ساتھ ڈیل کرکے تکمیل تک پہنچائیں۔

فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَةً(نساء)

”عورتوں کو ان کا مہر بطور فرض ادا کرو“

جنوں کا نام خرد:

بات اصل میں یہ ہے کہ آج” جنوں کا نام خرد“  پڑ گیا 'برصغیر کے معاشرتی رواج کے مطابق ،عورت کا بھاری بھر کم جہیز کے ساتھ شوہر کوحاصل کرنا  درست جبکہ شوہر کا عزت و احترام سے مہر دے کر عورت کو قیمتی بنانا ذلت؟؟

حالانکہ یہ تو الٹا ذلت کی بات ہے کہ عورت مرد کو حاصل کرنے کے لیے پیسہ خرچ کرے  جیسے کہ رسم  و رواج میں جکڑے لوگ ،منہ مانگی رقم جہیز کے نام پر دے رہے ہیں ، واللہ اس میں عزت نہیں،نکاح کی وجہ سے تو عورت کی معاشی کفالت کی ذمے داری اس کے باپ یا دیگر سرپرست سے” شوہر “کی جانب منتقل ہوجاتی ہے ۔عورت یا اس کے اولیاء کس لیے ڈیمانڈنگ جہیز   پورا کریں؟شوہر کس منہ سے مہر یا دیگر اخراجات سے پہلو تہی،تخفیف یا ٹال مٹول کرسکتا ہے؟جبکہ یہ بات تو مرد کی مردانگی اور غیرت کے خلاف ہے :

اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَاءِ ۔۔۔۔ وَبِمَا اَنْفَقُوا مِنْ أمْوَالِھِمْ(نساء)

مرد عورت پر نگران اور قوّام ہی اس لیے ہیں کہ وہ عورت پر خرچ کرتے ہیں اور اس معاشی کفالت کی پہلی پھوار ”مہر “ ہے ۔

4)پھر یہ کوئی محض جنسی لذت کا معاوضہ نہیں ہے جیسا کہ طوائف سے ہے کیونکہ جنسی لذت تو مرد کے ساتھ عورت بھی اٹھاتی ہے،پھر مرد ہی کیوں صرف خرچ کرے؟؟  بلکہ نکاح میں جنسی لذت کے حصول کے علاوہ اور بھی روحانی، جسمانی،معاشرتی، اخلاقی

مقاصد ہیں۔لہذا مہر کی وصولی پر باعزت و باکردار عورت کو طوائف کے ساتھ مماثل کرنا ذہنی پراگندگی کے سوا کچھ نہیں ۔

عقد نکاح کے وقت کی شرائط:

اسلام ان شرائط کو پسند کرتا ہے جو کسی بھی حکم میں پختگی پیدا کرنے کے لیے لگائی جاتی ہیں ،بشرطیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہوں ، چنانچہ وہ تمام شرائط جو نکاح کے وقت لکھی جاتی ہیں ،ان میں سب سے زیادہ جس شرط کو پورا کرنا چاہیے وہ ”مہر اور اس کے لوازمات یعنی نان و نفقہ“ وغیرہ کی ادائیگی ہے ۔

إن أحَقَّ الشُّروْطِ أنْ تُوَفُّوا بهٖ: مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهٖ الْفُرُوْجَ(متفق علیہ)

”وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں“

آج شادی کے موقع پر  لاکھوں بے جا اخراجات ،نمو د نمائش میں اڑایا دیا جاتا ہے جہاں مہر کی باری آئے وہاں تساہل و لاپروائی سے کام لیا جاتا ہے ،حالانکہ نکاح کی شرائط بہت ہی محترم کیونکہ ان کے ذریعے مرد کو محترم چیز کی ملکیت میسر آتی ہے  یعنی وظیفۂ زوجیت ادا کرنا حلال ہوتا ہے،نسلوں کی آبیاری ہوتی ہے ،ایک خاندان وجود میں آتا ہے ۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ :

ایک غلط فہمی یہاں یہ پائی جاتی ہے کہ مہر کی حقدار عورت اس وقت ہوتی ہے جب اﷲ نہ کرے طلاق کی نوبت آجائے یا شوہر دوسری شادی کرنا چاہے یا مر جائے ،

جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے ، عقدِ نکاح اور شوہر کو اپنے اوپر ایک بار ہی قدرت دینے کے ساتھ ہی عورت ،حق مہر لینے کی حقدار ہوجاتی ہے  اور وہ شوہر کے ذمے قرض کی مانند لازم ہوجاتا ہے ۔ شوہر کا اگر انتقال ہوجائے تو وراثت کی تقسیم سے پہلے شرعاً بیوی کا مہر ادا کیا جائے گا کیونکہ وہ شوہر کے ذمہ قرض ہے اور قرض کی ادائیگی، وراثت کی تقسیم پر مقدم ہوتی ہے۔

پھر یہ بھی جان لیجیے کہ دباؤ ڈال کر معاف کروانے سے یابغیر دباؤ ،تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے کےخوف سے ، عورتوں کا  مہر معاف کردینے سے بھی حقیقتاً وہ معاف نہیں ہوتا ، وہی معافی معتبر ہے جو عورت مکمل اپنی مرضی و خوشی سے کرے ۔

فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا(نساء)

اگر عورتیں پوری رضا و رغبت سے اپنے مہر میں سے کچھ مقدار معاف کر دیں تو وہ حلال اور شائستہ ہے ۔

آخرِ کلام ،دعا کے ساتھ گزارش یہی ہے کہ پراگندہ ذہنیت معاشرے کو صاف کرنے کے لیے مردوں کو آگے بڑھ کر اپنے حصے کا تریاق مہیا کرنا چاہیے ۔

اللّٰھُمَّ إنّی أسْألُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ(ترمذی)

”اے اللہ !میں آپ سے نیک کاموں کے کرنے اور ناپسندیدہ کاموں سے بچنے کی توفیق طلب کرتا ہوں“