ہر دلہن  کواپنے شوہر کے لیے ساحرہ ہونا چاہیے!!  لیکن یہ سحر اور جادو ،کوئی  غیر شرعی تعویذوں سے نہیں چلے گا ،بلکہ یہ جادو آپ کی اپنے شوہر کے لیے بے مثال محبت سے چلے گا ۔ ہر دلہن کو،خدا کی جانب سے دی گئی خداداد ادائیں ،اس کو اس کے شوہر کے لیے پرکشش،خوبصورت اور محبوبہ بنا سکتی ہیں ، ایسے عاملوں اور پیروں سے دور رہیں جو”محبوب قدموں میں“ کا اشتہار لگا کر  ،عورت کے ایمان اور عزت سے کھلواڑ کرتے ہیں !! محبوب  سر کا تاج ہوتا ہے ،قدموں میں لانے کے لیے نہیں !!

اہلیہ محمد عبید خان

رخصتی سے پہلے اپنی بہن،بیٹی کو نصیحت کرنا نہ صرف  ہمارے صحابہ اور اسلاف کی سنت ہے ، بلکہ عرفاً بھی ہر زمانے میں اس کا معمول پایا جاتا رہا ہے ، گویا شرعاً اور عرفاً مستحب عمل ہے ۔ پھر جتنا زیادہ ،دینی احکام اورشوہر کے حقوق  سےتساہل و لا علمی پائی جائے گی اتنا ہی  زیادہ یہ عمل، مستحب سے تاکید کے درجے میں  داخل ہوگا ۔

لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں اورشرعی و  معاشرتی اقدار مٹیں،وہیں یہ خوبصورت طریقہ بھی تقریباً متروک ہوتا جارہا ہے ، بلکہ اس کے برعکس آزادیٔ  نسواں کے نام پر جو معاشرے کو گندگی کا ڈھیر بنانے کی سازشیں رچائی گئیں، ان کی وجہ سے اب دلہن کی نصیحتوں میں بھی غلو کا پہلو نمایاں ہونے لگا ہے ، کہیں سہیلیوں کا ہنسی مذاق میں ، شوہر کو مٹھی میں کرنے کے بے ڈھنگے طور طریقوں سے آگاہی  ، کہیں خاندان کی عورتوں  کا غلط نصائح کی تعلیم سے ذہن سازی ،افسوس صد افسوس ! کہ آج ماں کی نصیحتیں ہی بدل گئی ہیں ، شوہر کو لگام ڈالنا، دبا کر رکھنا، رام کرنا !! بھلا یہ کس طرح کی نصیحتیں ہیں جو آج کی بیٹی کو کی جاتی ہیں؟؟کیا شوہر کا مرتبہ، مقام، عزت، احترام آج کی ماؤں کے ذہنوں سے بھی محو ہوگیا ہے ؟؟ یا اپنی بچی کی آخرت سنوارنے کی فکر ناپید ہوتی جارہی ہے؟؟

دیکھیے!اگرہم  ان خواتین میں سے ہیں جنہوں نے خود تو شوہر کے ساتھ اطاعت و فرماں برداری کی مثالیں قائم کرتے ہوئے ،بے مثال زندگی گزاری تو پھر بیٹی کو غلط تلقین و تعلیم کیوں؟ اور اگر خود ہی کبھی شوہر کے لیے سکون کا ذریعہ نہ بن سکیں تو کم از کم اس برائی کی مزید تشہیر  کر کے بیٹی کو تو غلط راستوں کا راہی مت بنائیں

پھر،رہی سہی کسر سوشل میڈیا کے استعمال نے پوری کردی ۔ جہاں ہر ایک اپنا ناصح آپ بنا ہوا ہے ۔ ایسے میں معتدل و پسندیدہ راہ آئے تو کہاں سے؟؟

پیاری دلہن! نبوی پیغامات،امہات المؤمنین کا عائلی  طرزِ حیات، صحابیات کی ازدواجی ایڈجسٹمنٹ ، یہ سب آپ کے لیے مشعلِ راہ ہیں نا ،کسی نادان کی نادانی ،بھری نصیحت سے اپنی دنیا و عاقبت تباہ نہ کیجیے!! بلکہ” آپ کے لیے تو آپ کے رسولﷺ کی زندگی ہی بہترین نمونہ ہے!! “

Dreamy life:

ایک خوابناک زندگی کا تصور کس  دلہن   نے نہیں کیا ہوتا؟ لیکن یہ خوابناکی ،مسحور کن زندگی اور  خوبصورت و پاکیزہ حیات، محض لمبے چوڑے  بینک بیلنس، اعلیٰ ڈگریاں ،جہیز کی وافر مقدار،ظاہری خوبصورتی   کی صورت ہی منحصر نہیں ہیں ۔ بلکہ اس کے حصول کا تو بہت  سادہ لیکن تیر بہدف نسخہ ہے ۔ اطاعتِ الٰہی  یعنی نیکی !!

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ (نحل:128)

” جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی دیں گے “

گویا ایک دُلہا  دلہن کے لیے اللہ اور رسول کا پیغام سب سے پہلے نیکی  اور تقویٰ کی زندگی ہے ۔ جتنا زیادہ تقویٰ ،اطاعتِ الٰہی میں اضافہ ہوگا ،اتنا ڈریمی اور خوبصورت ازدواجی زندگی حاصل ہوگی ۔ 

ایک دلہن کو ،اسی عمل پر محنت کی نیت سے اپنے شوہر کی زندگی میں داخل ہونا  ہے،جس کو نبیﷺ نے شوہر کا بہترین سرمایہ اور مال فرمایا :

چنانچہ فرمان رسولﷺ ہے :

أفْضَلُہٗ ۔۔زَوْجَۃٌ مُّؤمِنَۃٌ تُعِیْنُہٗ عَلٰی إیْمَانِہٖ۔(جامع الترمذی)

سب سے بہترین مال۔۔ وہ مؤمنہ بیوی جو شوہر کی اس کے ایمان (کی حفاظت)پر مدد کرے“

گویا مرد کی بہترین investment ایسی دلہن ہوگی جو اپنے شوہر کے ایمان کی حفاظت کرنے والی ہو ،اس کے لیے دلہن کا خود بھی ایمان و عمل صالحہ والی زندگی گزارنا ضروری ہوگا۔

جنتی کنجیوں کی حقدار:

دو شیزہ جب عروسہ(دلہن) بنتی ہے تو  شریعت اس کو  چند کاموں پر ہی ایسا زبردست مقام عطا کرتی ہے جو مرد کو کئی مشقتوں اور ریاضتوں کے بعد حاصل ہوتا ہے ،پھر قولِ نبیﷺ سے تو سنداً وہ مقام صرف حضرت ابو بکر صدیقؓ  کو ہی حاصل  ہوسکا ہے :

فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق ”حضرت ابو بکر صدیق ایسے مقام پر فائز ہوگئے تھے کہ  جنت کے آٹھوں دروازےان کے لیے اعزازاً کھولے جائیں گے “

لیکن ایک دلہن جب چار چیزوں کا اہتمام کرے ،تو مقام ابوبکر ؓ اس کے لیے تیار ہوجاتا ہے :

فرمان نبیﷺ ملاحظہ فرمائیے :

اذاصَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا قِيلَ لَهَا: ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ(بیہقی)

”عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے مہینے کے روزے رکھے ،اپنی عزت آبروکی حفاظت کرے اور شوہر کی فرماں برداری کرے تو وہ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے“

اندازہ کیجیے کہ جو مقام ،ایک مرد کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نقش قدم پر چلنے کی صورت میں مل سکتا ہے  وہ مقام  دلہن کو محض ان چار چیزوں کا اہتمام کرنے سے  ہی حاصل ہورہا ۔اصل تو پھر حقوق نسواں کا سب سے بڑا علمبردار مذہب اسلام ہوا نا!!

 مقامِ دلہن:

رشتۂ ازدواج میں قدم رکھنے والی ہر دلہن تک خدائے ربِ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچ چکا ہے کہ آپ کا شوہرآپ  پر نگران ، منتظم اور حاکم ہے نیز وہ آپ سے ایک درجہ فضیلت  رکھتے ہیں ،گویا جھگڑا ہی ختم!!

 فضیلت تو کسی نہ کسی کو حاصل ہونی ہی ہوتی ہے ،جیسے ایک علاقے کے دو کونسلر ،ایک ملک کے دو حکمران ،ایک جماعت کے دو امیر نہیں ہوسکتے، ایک لازماً نائب جبکہ  دوسرا منتظم کی حیثیت سے کام کرے گا ۔بالکل یہی دو درجات آپ دونوں کے بھی ہیں ۔آپ نائبہ ہیں وہ آپ کے منتظم!!

ألرِّجَال قَوَّامُوْنَ عَلی النِّسَاءِ (مرد عورتوں کے منتظم ہیں ) (النساء)

وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ(مردوں کو ان عورتوں پرا یک گونہ برتری حاصل ہے) (البقرۃ)

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ، مرد کی نگرانی میں ،باقی سب کچھ یعنی شوہر کا گھر،اس کی اولاد سب  آپ کی نگرانی میں ۔

والمَرْأةُ في بَيْتِ زَوجِها راعيةٌ (البخاری)

”اور عورت اپنے شوہر  کے گھر کی نگہبان ہے“

اس ازدواجی رشتے میں قدم رکھتے ہوئے اپنے شوہر کا یہ مرتبہ اور  بحیثیت زوجہ اپنا مقام و مرتبہ ذہنی طور پر تسلیم کیجیے۔

دلہن بنےجادوگرنی:

ہر دلہن  کواپنے شوہر کے لیے ساحرہ ہونا چاہیے!!  لیکن یہ سحر اور جادو ،کوئی  غیر شرعی تعویذوں سے نہیں چلے گا ،بلکہ یہ جادو آپ کی اپنے شوہر کے لیے بے مثال محبت سے چلے گا ۔ ہر دلہن کو،خدا کی جانب سے دی گئی خداداد ادائیں ،اس کو اس کے شوہر کے لیے پرکشش،خوبصورت اور محبوبہ بنا سکتی ہیں ، ایسے عاملوں اور پیروں سے دور رہیں جو”محبوب قدموں میں“ کا اشتہار لگا کر  ،عورت کے ایمان اور عزت سے کھلواڑ کرتے ہیں !! محبوب  سر کا تاج ہوتا ہے ،قدموں میں لانے کے لیے نہیں !!

فرمانِ رسول ﷺ اسی چیز کی تعلیم دلہنوں کو دیتی ہے :

ألَا اُخْبرُکُم بِنِساءِکُم مِنْ أھْلِ الْجَنۃِ الوَلُوْدَ،الوَدُوْدَ(المعجم الاوسط)

”کیا میں تمہیں جنتی عورتوں کے بارے میں بتاؤں؟ وہ عورتیں ہیں جو زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہیں “

باسعادت، عورت شوہر سےخوب  محبت کرنے والی ہوتی ہے ، نیز یہ بھی معلوم ہوا    کہ صحت مند عورت کے لیے کثرتِ اولاد، گرانی کا باعث نہیں بننی چاہیے ۔

کامیاب سُہاگ:

یاد رکھیے ! دلہن کوئی صرف پہلی رات کی نہیں ہوتی ، بلکہ کامیاب سہاگ ، تا عمر دلہن کے مرتبے پر فائز رکھتا ہے ، لہذا اپنی ساری کوششیں صرف پہلے دن خوبصورت ، پرکشش لگنے پر نہیں لگانا ،دلہن کی زینت و خوبصورتی صرف اس  کے شوہر کی امانت ، اس کو غیر مردوں کو دکھا کر ہرگز داغدار نہ کیجیے!!

فرمانِ رسولﷺ ہے:

خيرُ نسائِكمُ الوَدودُ الوَلودُ المُواتِيَةُ المُواسِيَةُ إذا اتقَيْنَ اللهَ وشرُّ نسائِكمُ المُتَبَرِّجاتُ المُختالاتُ هن المُنافِقاتُ لا يدخُلُ الجنةَ منهن إلا مِثلُ الغُرابِ الأعصَمِ ( سنن البيهقي لأبو بكر البيهقي)

”تم میں سے بہترین عورت وہ ہے جو خوب بچے پیدا کرنے والی ہو، خوب محبت کرنے والی ہو، شوہر کی غم خوار ہو، شوہر کی موافقت کرنے والی ہو، اللہ سے ڈرنے والی ہو  اور تم میں سے بدترین عورت وہ ہے جو اپنی زینت اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر کرتی ہو، تکبر کرنے والی ہو، ایسی عورتیں منافقات کے مشابہ ہیں، ایسی عورتیں جنت میں اتنی جائیں گی جیسے سفید پر والے  کوّے“(یعنی جس طرح سفید  پَر والے کوّے بہت کم ہوتے ہیں اسی طرح یہ عورتیں جنت میں بہت کم جائیں گی)

حدیث یہ اہم نصیحت کرتی ہے کہ سمجھدار ،پاکباز دلہن کی ذات کا محور بس اس کا ”شوہر“ ہوتا ہے !!غم میں تسلی دینے والی،اس کی ہاں میں ہاں ملانے والی،اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بعد اس سے محبت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا ہدف ماننے والی !!ایسی دلہن  کا صرف ایک دن نہیں ،بلکہ پوری زندگی ،جو شوہر کی معیت میں گزرے ،کامیاب سہاگ ہوتی ہے ۔

دلہن کا آئینہ:

رفیقہ حیات بنتے ہی ہر دلہن کو یہ نبوی پیغام پہنچ جاتا ہے کہ اب اس کا جو عکس ،مقام اس کے شوہر کی نظر میں ہوگا وہی معتبر مانا جائے گا ، ساری دنیا میں دلہن کے کارناموں کے ڈنکے ہوں ،تمام لوگ ہماری خوبیوں کے معترف ہوں ،لیکن شوہر کی نظروں  خدانخواستہ اگر ہمارا عکس دھندلا یا گدلا ہوا، تو یہ کامیابی کسی کام کی نہیں !!

ایک صحابیہ ؓ کو آپﷺ نے اسی بات کی تلقین فرمائی :

انْظُرِیْ اَیْنَ اَنْتِ مِنْہُ فَاِنَّمَا ھُوَ جَنَّتُکِ وَنَارُکِ(مسند احمد)

خیال رکھنا! کہ اس کی نگاہ میں تو کیسی ہے؟ وہی تمہاری جنت اور وہی تمہارے لیے آگ بھی ہے“

اپنا کیا مقام شوہر کی نظر میں رکھنا ہے ،کیا ایسا مقام جو جنت تک لے جائے یا خدانخواستہ جہنم کی منزل!!آپ کا آئینہ ،درحقیقت اب شوہر کی آنکھوں کا عکس ہے ،اگر تو وہاں آپ کا مقام بلند ہے تو پھر کسی حسی آئینے سے تعریفیں وصول کرنے کی  یا لوگوں کا تعریفی یا تنقیدی انداز قابل غور نہیں ،لیکن اگر وہ آئینہ گدلا گیا ہے تو دنیا کا کوئی آئینہ آپ کو حسینہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ نہیں دے سکتا ۔

گویا شوہر راضی تو  رب راضی ،شوہر ناراض تو رب ناراض !!

وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا(سنن ابن ماجہ)

”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،عورت اپنے رب کا حکم کبھی پورا نہ کرسکے گی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہ کرے“

سکون کا گہوارہ:

دلہن کی زندگی کا مقصد شوہر کے لیے  سکون،راحت ،آرام کا گہوارہ بننا ہے ،جو دلہن خود کو شوہر کے لیے باعث آزار اور تکلیف بنائے ، بھلا اس کا ازدواجی تعلق میں کیا  کام !!

جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا (اعراف:189)

”مرد کا جوڑا اسی سے بنایا گیاتاکہ وہ مرد اس عورت سے سکون حاصل کرے “

اسی بات کو حدیث مبارک میں بھی اسی طرح بیان کیا گیا:

أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ ؟ قَالَ : الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ ، وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ ، وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ(سنن نسائی)

سوال کیا گیا: سب سے بہترین عورت کون ہے؟ تو ارشاد فرمایا” جب شوہر اسے دیکھےتو اسے  خوش کردے جب شوہر اسے حکم دے تو اطاعت کرے اور اپنے نفس و مال میں کوئی ایسا کام نہ کرے جو شوہر کو ناگوار ہو“

غرض ایک دلہن، اپنے دلہا کے لیے رفیقہ حیات، شریکِ حیات،حو رِ عین،نورِ عین،راحت و سکون کا گہوارہ،زندگی کا سب سے حسین سرمایہ بنے گی تو کامیاب ازدواجی زندگی اس کی منتظر رہے گی ۔تاہم استثنائی صورتیں ہر مقام پر موجود ہوتی ہیں جہاں صرف ان طُرُق سے کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے ،ان کو ان شاء اللہ ہم اپنے آئندہ آرٹیکل  میں سمیٹیں گے۔

تب تک کے لیے دلہنیں اس خوبصورت دعا کے تحفے کو سنبھال لیجیے :

”اللّٰھمّ الِّفْ بَیْنِی وَبَیْنَ زَوْجِی کَمَا ألَّفْتَ بَیْنَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَ خَدِیْجَتَہ رضی اللہ تعالٰی عنہا“

اے اللہ مجھ میں اور میرے شوہر میں ایسی محبت پیدا فرما جیسی تو نے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ کے درمیان پیدا فرمائی۔(اسی دعا میں امی خدیجہ ؓکی بجائے امی عائشہؓ کا نام لے لیا جائے،اور دونوں دعاؤں کا اہتمام  قول و عمل سے رکھا جائے )