عورت میں فطری طور پر ٹیڑھا پن ہوتا ہے، جس کو  تشدد اور سختی یا زبردستی کی بنیاد پر سیدھا نہیں کیا جاسکتا ،الٹا اس سے مزید خرابی کا اندیشہ ہے ۔لہذا اس کے ٹیڑھے پن سے کمپرومائز کرتے ہوئے نرمی و ملاطفت سے اس کو ڈیل کیا جائے۔ پھر! کہاں ہیں وہ لوگ؟؟ جو ”بیوی کو جوتی کی نوک پر رکھنے“کی نصیحت کرتے ہیں، اپنی لغویات  کاکیا جواز دیں گے ؟؟

اہلیہ محمد عبید خان

ہمارے معاشرے میں ،دُلہا ،دُلہن کو نصیحت  کرنا   عمومی بات ہے۔ کبھی دوست ،یار مذاق کے پیرائے میں دلہا کو،بیوی کی جانب سے غیر ضروری محتاط، بلکہ کسی حد تک بد گمان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، کہیں فرضی لطائف و قصے سنا کر ورغلایا جارہا ہے ،تو کہیں اپنے 

ذاتی واقعات پر ملمع سازی کرکے ، حقیقت کا رنگ بھرا جا رہا ہے ،کبھی یہی فریضہ ،مستقبل کے متعلق اپنے خوف و اندیشوں کو چھپاتے ہوئے ، خاندان کے بزرگ حضرات   تجرباتی یا مشاہداتی واقعات کی روشنی میں ،سر انجام دیتے ہیں  ،اسی طرح دیگر اعزاء و اقارب بھی اسی سرگرمی میں مصروف عمل نظر آتے ہیں ۔غرض ہر کوئی اپنی غرض کو چھپائے ، کوئی نہ کوئی نصیحت کرتا پایا جارہا ہے ۔

نصیحت اچھی اور بری دونوں طرح کی ہوتی ہے، تاہم عمومی سروے کے مطابق  شادی کے موقع پر اکثر نصائح کی بنیاد ،معاشرتی تلخ رویوں ،دلوں میں پنپتے نظرا ندازی یا جدائی کے خوف،مَردوں کی جانب سے پائی جانے والی بے اعتدالیاں  ،یک طرفہ جھکاؤ ہوتا ہے ۔نتیجتاً   ہر کوئی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑے ،ذہن سازی میں مصروف  رہتا ہے ۔ در حقیقت ! معاشرے کے اندر رشتوں میں  عدم توازن کی فضا  ہی کچھ ایسی رچ بس گئی ہے کہ نئے تعلق استوار کرتے ہوئے، طرفین خوف و اندیشوں کا شکار ہوتے ہیں۔جبکہ یہ عمل ہی” توکل علی اللہ“ کے خلاف ہے ۔

جیسی نیت ویسا پھل:

ازدواجی رشتے کو خوبصورت نہج پر چلانے کے لیے سب سے پہلے ”نیک نیتی“ ضروری ہے  یعنی  کسی بھی بدگمانی کو دل و دماغ میں جگہ دیے بغیر ،نبوی تعلیمات کی روشنی میں اس خوبصورت رشتے کا آغاز کیا جائے ۔ اچھا گمان ،اچھے انجام کا سبب بنتا ہے ۔

حدیث قدسی کے مطابق :      انَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی (سنن الترمذي)

”میں اپنے بندے سے اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں“(جیسا گمان وہ مجھ سے رکھتا ہے)

لہذا جس طرح کے گمان  و اوہام کا شکار ہوں گے ،اسی کے مطابق نتیجہ سامنے آئے گا،چنانچہ !شادی کے وقت ،دل و دماغ  کوخالی الذہنی، پرسکون اور مطمئن ہونے کی حالت میں رکھیں تاکہ آنے والے نئے اضافے کو زندگی میں خوشدلی سے welcome کہہ سکیں ۔

محسنِ اِزدِواجیت:

یہ بات تو مسلَّم ہے کہ کائنات میں ہمارےسب سے خیر خواہ انسان ،محبوب ِ رب ذوالجلال ”حضرت محمدﷺ“ہیں ،لہذا جو تعلیمات ، ہمیں ان کی جانب سے ملی ہیں ،انہی کی تقلید میں دنیا و آخرت کا فائدہ پوشیدہ ہے ، باقی ہر رشتے میں ذاتی اغراض کا پہلو موجود رہتا ہے ۔

ایسے میں نئے جوڑے پر لازم ہے کہ خود کو شرعی تعلیمات سے روشنا س کرے، اور ان نصیحتوں اور وصیتوں کو تھامے جو نبیﷺ کے قول و عمل کے ذریعے ہماری جانب پہنچی۔یہی کامیاب ،خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز ہے ۔

First impression matters:

یاد رکھیے ! پہلا تأثر اگرچہ آخری تو نہیں ہوتا ،تاہم اہم ضرور  ہوتا ہے ،لہذا کسی بھی نادان  کی بات پر عمل کرتے ہوئے اپنا پہلا تأثر ، اپنی زوجہ پر ہرگز برا مت پڑنے دیجیے ۔

آپ کو اپنا آپ، ایسا مسحور کن اور شاندار وپرکشش  پرسنلٹی کا مالک بناناہے  کہ آپ کی شریک حیات پہلے دن سے آپ کی اسیر  و فریفتہ ہوجائیں ،نہ کہ آپ سے دور،بدگمان  اور مایوس ۔ اور یاد رکھیے! اس کے لیے مال و دولت کی کثرت  یا جسمانی خوبصورتی کا ہونا ضروری نہیں  بلکہ  شجرِ محبت  کی آبیاری کے لیے توجہ،وفا اور ملاطفت  کا بیج بویا جاتا ہے ۔

آپ کو اپنی اہلیہ کے لیے ایسا شوہر بننا ہے کہ انہوں نے جو خواب لے کر اس رشتے میں قدم رکھا ہے ،وہ رخصتی کی اگلی صبح منتشر نہ ہوجائیں ،بلکہ  جن اندیشوں ا  ور خوف سے دل سہما ہوا تھا، وہ بھاپ بن کر قصۂ پارینہ بن جائیں ۔

بیوی یا دیوانی:

آپ کے طور و اطوار ،اخلاقیات  میں  دل موہ لینے والی ایسی  حسنِ معاشرت موجود ہو،جوآپ کی اہلیہ کو آپ کی شخصیت کا اسیر کردیں

جی ہاں!یہی تو معروف معاشرت کا معنیٰ ہے:

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ. (النساء)

’’عورتوں کے ساتھ معاشرت میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو۔‘‘

سوچیے ذرا! رب تعالیٰ کی جانب سے ،مردوں کو سفارشی نوٹس آیا ہے ، بھلا اس سے بڑھ کر کوئی اور سفارش ،اہلیہ سے حسن سلوک کی  مل سکتی ہے؟

نبی ﷺ بھی اپنے قال وحال سے اسی  حسن معاشرت کی تعلیم دیتے ہوئے نظر آتے :

’’خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لإٔھْلِہٖ وَأنَا خَیْرُکُمْ لِأہْلِيْ ‘‘(سنن الترمذی)
ترجمہ: ’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب میں سب سے زیادہ اچھا ہوں۔‘‘

گویا یہ  تلقین کی گئی کہ اپنے گھر والوں کے لیے آئیڈیل شخصیت بن کر ابھریں اور اگر کسی شخصیت  کو اس معاملے میں رول ماڈل بنانا ہے تو نبی ﷺ کی ازدواجی زندگی کو بنائیے کہ آپ ﷺ سے بڑھ کر best کوئی اور شوہر اپنی زوجہ کے حق میں نہیں ہوسکتا!!

حدیث مبارکہ کی خوبصورتی چیک کیجیے :یہاں ”خیر “کا لفظ ذکر ہے اور خیر مفہوم کے اعتبار سے” goodکی تھرڈ ڈگری“ ہوتی ہے ، یعنی ”best“  ۔ہر لحاظ سے  اپنا best اہلیہ کو دینے کا ارادہ ہونا چاہیے ۔

بیوی کو جوتے کی نوک پر رکھنا:

اس جملے میں تکبر کی انتہائی کیفیت ہے ، یعنی نامعقولیت کی حد ہے !!

ہر ایسی نصیحت  سننے والے کو یہ سوچنا چاہیے کہ نبی کی نصیحت ہر ایسی  نصائح سے بلند و بالاتر ہیں جو لوگوں کی جانب سے ہماری  غلط ذہن سازی کرتی ہیں۔نبی عورتوں کے متعلق یہ وصیت فرما کر گئے ۔

اسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا؛ فَإِنَّ المرأة خُلِقَتْ مِن ضِلعٍ، وَإنَّ أعْوَجَ مَا في الضِّلَعِ أعْلاهُ، فَإنْ ذَهَبتَ تُقيمُهُ كَسَرْتَهُ، وإن تركته، لم يزل أعوج، فاستوصُوا بالنساء ۔(بخاری)

عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور سب سے اوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو۔‘‘

یہ اور اس طرح کی دیگر قیمتی نصائح ہیں،جو ازدواجی رشتے میں قدم رکھنے سے پہلے دُلہا کو حرز جان بنانی چاہیں ،یہی تو ایسی احادیث کا ”motto“ ہے 

پھر کلام کا حُسن ملاحظہ ہو، ابتدااور انتہامیں تاکیدی نصیحت  (استوصوا بالنساء خیرا)سے  کلام کو لاک کیا گیا ۔

”محسن ِنسوانیتﷺ“ نے  قولِ ذریں کے ذریعے اِس   اہم بات کی تلقین کی کہ فطرتاً عورت میں ٹیڑھا پن ہوتا ہے، جس کو  تشدد اور سختی یا زبردستی کی بنیاد پر سیدھا نہیں کیا جاسکتا ،الٹا اس سے مزید خرابی کا اندیشہ ہے ۔لہذا اس کے ٹیڑھے پن سے کمپرومائز کرتے ہوئے نرمی و ملاطفت سے اس کو ڈیل کیا جائے۔ پھر! کہاں ہیں وہ لوگ؟؟ جو ”بیوی کو جوتی کی نوک پر رکھنے“کی نصیحت کرتے ہیں، اپنی لغویات  کاکیا جواز دیں گے ؟؟

بارعب شوہر:

بھلا بیوی پر کونسا رعب ڈالنے کی تلقین ،شوہر کو کی جاتی ہے جس کی بنا پر وہ اپنی شب زفاف خراب کرتا ہے ، جو لوگ دلہا کو پہلی ہی رات اپنا رعب قائم کرنے کا درس دیتے ہیں ان کی اور دلہا کی خدمت میں عرض ہے کہ شریعت مرد کو پہلے ہی ”قوام“بنا چکی ہے ۔

الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلی النِّسَاءِ ۔(النساء)

مرد عورتوں پر سربراہ ،منتظم ہیں ۔

 سربراہ آٹومیٹکلی بارعب  پرسنلٹی کا مالک ہوتا ہے ، نبیﷺ سب سے زیادہ با رعب شخصیت  تھی ،بلکہ اسی رعب کے ذریعے سے سینکروں میل دور دشمن پر آپ ﷺ کو غلبہ حاصل تھا لیکن  آپﷺ کا یہ رعب و دبدبہ اپنی زواج کے لیے ہرگز نہ تھا ۔

یاد رکھیے!آپ کا مزاج ،آپ کی شخصیت کا آئینہ دار ہے ،اس کو کسی بھی نامعقول لوگوں کی باتوں میں آکر مسخ مت کیجیے ۔

صرف یہ ذہن نشین رہے کہ نبی ﷺ بیویوں کے متعلق تقویٰ،خیر کی نصیحت فرما گئے ہیں تو باقی کسی کا کہنا کیا اثر رکھتا ہے ؟؟

اتَّقوا اللهَ في النساءِ؛ فإنَّكم أخذتُموهنَّ بأمانةِ الله، واستحلَلْتُم فروجَهنَّ بكلمةِ الله ۔(مسلم)

غور تو کیجیے ! کیسی زبردست،متنبہ کرتی ہوئی حدیث ہے ، آپ نے اپنی بیوی کو ”اس ذات باری تعالیٰ “کا نام لے کر حلال کیا ، کیا اللہ کا نام  و واسطہ ،معاذ اللہ آپ کے لیے ایسا غیر ضروری ہے جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ،جو جی چاہے سلوک روا رکھنا ہے؟؟ تقویٰ کی نصیحت اسی لیے کی گئی کہ  خوف خداوندی کے بغیر اس رشتے میں خوبصورتی پیدا ہونا محال ہے !!

بیوی پر بد گوئی:

 آپ کو میٹھی اور دل موہ لینے والی گفتگو کا فن آتا ہو، بد گوئی،فحش کلامی یا پہلی ہی رات تلخ گفتگو،بیزار کن نصیحتیں، آپ کی بیوی کا دل جلد ہی آپ سے اچاٹ کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ وَدَعَهُ أَوْ تَرَكَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِهِ (صحیح بخاری)

روز قیامت اللہ کے ہاں ،سب سے برا مقام اس شخص کا ہوگا جسے لوگوں نے اس کی بدگوئی کی وجہ سے چھوڑ دیا۔

بدگوئی تو کسی کی جانب سے ہو، نا قابل برداشت ہے تو سوچیے آپ کی بد گوئی و بدکلامی ،آپ کی اہلیہ کو آپ سے کس قدر متنفر کرنے کا باعث بن سکتی ہے !! اور خشک نصیحت کے لیے آپ کے پاس ،بقیہ زندگی موجود ہے ،اس ”اہم کام“کو پھر کسی وقت اٹھا رکھیے ،اپنی پہلی ملاقات کی خوبصورتی اس سے خراب نہ کیجیے!!

Give & Take:

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرة: 228)

”اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا حق ان پر ہے دستور کے مطابق“

جس طرح آپ نے شعوری یا لا شعوری طور پر ایک خاکہ اپنی اہلیہ کے حوالے سے دل و دماغ میں فٹ کررکھا ہے ، اسی طرح سوچیے کہ وہ بھی آپ سے یہی سب کچھ چاہتی ہوگی ۔ جس وفا ،محبت و انسیت کے آپ اہلیہ سے امید وار ہیں ایسے ہی وہ بھی لطف و مہربانی آپ سے expect کرتی ہیں ، لہذا ”ہر حق والے کو اس کا حق دینا چاہیے“

یاد رکھیے! ایمان کی کاملیت،  آپ کے پاس موجود اعلیٰ اخلاقیات  کی ڈگری  ،اوکے کرتی ہے ،اور اعلیٰ اخلاق کی سب سے زیادہ مستحق ، آپ کی بیوی اور دیگر اہل وعیال ہیں ،ان کو اپنی اخلاقیات کے لیے مت ترسائیے!!

حضرتِ عائشہ صدیقہ نبیﷺ کا یہ فرمان نقل فرماتی ہیں :

” مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاوٴ (سب کے ساتھ )(اور خاص طور سے )بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف ومحبت کا ہو“ (المستدرک: کتاب الایمان)

اس دعا کے اہتمام کے ساتھ ازدواجی تعلق کی ابتداء  کیجیے ،

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا(سورت فرقان)

”ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے“

نسلوں کو بخت لگانے والی اس دعا کی پابندی دلہا اور دلہن دونوں کو  کرنی چاہیے