سیرت   طیبہﷺ کی روشنی میں ازدواجی سفر  “  کا پہلا عنوان ”  انتخاب زوجین “  کی دوسری شق کو آج ہم موضوع بحث بنائیں گے ۔ دیکھیں انتخابِ زوجین میں فریقین کے انتخاب   کا معیار (criteria) کیا ہوگا؟

اہلیہ محمد عبید خان

”دیو مالائی حسن“واقعی!یہ حسن تو  عنقا ہے ، بھلا کہاں ملتا ہے ، پھر کیوں ہم اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ؟؟ 

ایسا ہی ہے نا؟ لڑکی کے انتخاب میں تو حسن صورت  سے نیچے ہم معیار سیٹ کرنے کو تیار ہی نہیں ،لیکن دنیا کے دیس میں دیو مالائی حسن لائیں کہاں سے ؟

بھئی!   آپ نے سنا تو ہوگا ”سہاگن وہی جو پیا من بھائے “ اور نکاح تو ویسے ہی فریقین کے درمیان خوب محبتوں کو بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :

”دو اشخاص کی محبتیں نکاح جیسی کسی اور چیز سے ہم نے( پیدا ہوتی )نہیں دیکھیں“  (سنن ابن ماجہ)

یعنی حسن نہیں نکاح کے بولوں  میں طاقت ہے ،جو دو اجنبیوں کے درمیان محبت پیدا کر دیتی ہے ،لہذا حسن کو معیار اعلیٰ مت بنائیے۔

لیکن مسئلہ صرف حسن کا بھی تو نہیں رہا ، روز برز ڈیمانڈز بہت ہائی فائی ہوتی جا رہی  ہیں ۔

جی ہاں! لڑکی کا حسن صورت کے ساتھ ساتھ ، مضبوط بیک گراؤنڈ، اعلی تعلیم یافتہ ،ٹرک بھر جہیز لانے والی ،اس کے ساتھ بعض کی ڈیمانڈ تو پروفیشنل جاب ہولڈر پھر اس کے ساتھ گھریلو کاموں میں طاق،اونچے طبقے میں تو خیر فلیٹ اور گاڑی سے نیچے  معیار ہی نہیں آتا ۔

اتنے ”اعلیٰ “معیاررکھنے کے باوجود ازدواجی رشتے کا سکون و اطمینان پھر بھی ندارد! ساس  بہو اور نند و بھاوج کے مزاج نہ ملنے سے خاندان کی جڑیں  کھوکھلی ہو رہی ہیں ، بچوں کی تربیت الگ سوالیہ نشان!! 

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخ نازک  پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

آئیے ! ذرا معیار نبیﷺ تو دیکھیں !

”عورت سے چار چیزوں کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے ،اس کا مال،حسب نسب،خوبصورتی اور دِین ۔تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں تو دیندار (کے انتخاب )سےکامیابی حاصل کرنا“ (صحیح بخاری)

حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ زمانہ رسولﷺ سے  آج تک لوگوں کی عمومی سوچ،انتخاب زوجین کے حوالے سے بالکل نہیں بدلی  ۔ وہی  (لِمَالِھَا) اعلیٰ تعلیم یافتہ،جاب ہولڈر ، خوب جہیز لانے والی،(لِحَسَبِھَا)مضبوط بیک گراؤنڈ ہو،اعلیٰ خاندان، (جَمَالِھَا)خوبصورتی ،گھریلو کاموں میں طاق اور فی زماننا یوٹیوبر ، ولاگر،شیف یا فری لانسر ہونا بھی اضافی خوبی مانی جاتی ہے ۔

آپ نے مشہور زمانہ قول تو سنا ہوگا ”ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے“ تو رسولﷺ  واضح فرما چکےنا ”کامیابی ،کامرانی تو  دیندار کو ترجیح دے کر حاصل کرنے ہی مل سکے گی“گھر کا بہترین ماحول اس وقت ہی بن سکے گا جب دین عورت کی بنیادوں میں رچا بسا ہو ۔

مفہوم حدیث: ”دنیا متاع (چند روزہ سامان) ہے اور دنیا کا بہترین متاع (یعنی فائدہ بخش سامان) نیک عورت ہے“(مسلم )

قارئین و قاریات ! افسوس!  ہمارے معیار گر چکے ہیں ۔

 آئیے !!ناکام شادی  کی وجوہ ،کو  ارشاد بنیﷺ  کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں:

مفہوم حدیث:”جس نے کسی عورت سے اس کی عزت  کی وجہ سے نکاح کیا(کہ اس کی وجہ سے مجھے بھی عزت و شہرت نصیب ہوگی)

تو اللہ اس (مرد)کی ذلت میں اضافہ کرتے  ہیں ، جس نے کسی عورت سے اس کے ما ل کی وجہ سے نکاح کیا تو اللہ اس (مرد) کے فقر میں اضافہ کرتے ہیں ، اور جس نے کسی عورت سے اس کے حسب نسب(خاندانی شہرت ،مضبوط بیک گراؤنڈ) کی وجہ سے نکاح کیا تو اللہ اس (مرد) کی پستی میں اور اضافہ کرتے ہیں ، اور جس نے کسی  عورت سے اس وجہ سے نکاح کیا تاکہ اپنی نگاہ نیچی رکھ سکے یا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرسکے(حرام کاری سے بچے) یا رشتے ناطوں کو جوڑ سکے ، تو اللہ اس مرد کے لیے اس عورت میں برکت دیتے ہیں اور عورت کے لیے اس مرد میں برکت رکھ دیتے ہیں“(المعجم الاوسط للطبرانی)

عورت کو سہارا بنا کر اپنے لیے مال،عزت و مرتبہ مت چاہیں ،بلکہ یہ سب تو آپ کے فراہم کرنے کی چیزیں ہیں ،انتخاب دینداری کی بنیاد پر کریں ۔

لیکن دینداری صرف نماز روزے کا ہی پابند ہونا نہیں کہلاتا ،بلکہ صحیح عقائد کے ساتھ ،فرائض و واجبات کا اہتمام اور سنن  و آداب و اخلاقیات سے  زندگی میں خوبصورتی پیدا کرنا  یہ عورت کا کمال ہے ۔ پھر As a result دعائے نبیﷺ کی برکت سے اپنے دامن کو بھریں ۔بھلا نبیﷺ کی دعا کا مستحق ہونے والا جوڑا بھی ناکام زندگی گزار سکتا ہے؟؟

مشہور زمانہ مقولہ تو سنا ہی ہوگا ”کہ جب گھر کا مرد دیندار ہوتا ہے تو دین گھر کی دہلیز پر آجاتا ہے اور جب عورت دیندار ہوتی ہے  تو دین سات نسلوں تک جاتا ہے “

مرد لاشعوری طور پر عورت سے وفا،محبت،عزت،خلوص،چاہت ،اولاد کی بہترین تربیت،خاندان کو جوڑ کر رکھنا ،expectکررہا ہوتا ہے ،یہ سب چیزیں یقیناً خوف خدا رکھنی والی عورت سے ہی متوقع ہے۔

ہوسکتا ہے ہماری اس تحریر سے یہ غلط مطلب اخذکرلیا جائے کہ عورت کے لیے صرف دینی تعلیم ہی ضروری ہےاور دنیوی جدید علوم سیکھنا عورت کے لیے منع ہے ۔ تو ایسا نہیں ہے ! 

*بزنس لیڈی حضرت خدیجہ ؓ کو  آپﷺ نے اپنے پہلے نکاح کے لیے منتخب کیا ،معلوم ہوا  عورت کا خود مختار ہونا بھی برانہیں۔

* حضرت حفصہ ؓ جیسی پڑھی لکھی خاتون کو نکاح کا پیغام دیا ،معلوم ہوا کہ  پڑھی لکھی عورت سے نکاح بھی منع نہیں ۔

آپ نے قصۂ نوح ؑ تو پڑھا ہی ہوگا،کیسے نبیؑ کی تربیت پر ماں کی تربیت غالب  آجاتی ہے اور بیٹا ،اپنے والد شفیق جو کہ نبیؑ بھی ہیں ان کی بات پر ماں کی بات کو مان کر بدبختی منتخب کرلیتا ہے ۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ ترجیحی بنیاد دیندار ی اور تقویٰ ہو،اس کے ساتھ باقی خصوصیات بھی ہوں تو ”نور علی نور“ ہے۔

            اختتام پر  ،لڑکی کے انتخاب کے وقت  ایک دعا کو معمول بنانے کا ذکر کیے دیتے ہیں:

”اے اللہ!آپ کی پناہ میں آتا ہوں ایسی بیوی سے جو بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کردے“(یعنی ایسے غم و پریشانی کا سبب بنے جس سے اعصاب کمزور ہوجائیں اور جلد بڑھاپا طاری ہوجائے ) (العزلۃ للخطابی :79)