ختمِ نبوت کے حوالے سے معاشرے میں خواتین کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ مردوں کا۔ تحفظ ختمِ نبوت اور دفاعِ ختم نبوت کے لیے تاریخ میں صحابیات نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ہر دور میں خواتین اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہیں۔آج بھی قوم کی غیور و نڈر مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں اس عظیم الشان عقیدے کی پاسداری اور نگہبانی کر سکتی ہیں۔
بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد کراچی


عقیدۂ ختم نبوت ہر بندۂ مومن کے ایمان کا جزوِ لازم ہے۔ مسلمانوں کے لہو میں دوڑتے اس پاکیزہ عقیدے کے حوالے سے امتِ مسلمہ کا ہر فرد عقلی و جذباتی ہر دو سطح پر تیقن کے اس پختہ مرحلے میں ہے کہ بظاہر اسے کسی دلیل و برہان کی ضرورت نہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ارشاد فرمایا: ”میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔“

(کتاب المناقب باب 18، حدیث: 3535، صحیح البخاری)
ختم نبوت اسلام کا لازمی تقاضا اور ہر صاحبِ بصیرت و بصارت کے ایمان کا اولین حصہ ہے۔ ہمارا ایمان ناقص ہوگا اگر ہم ختمِ نبوت پر ایمان نہ رکھتے ہوں کیونکہ ختمِ نبوت پر ایمان نہ رکھنے والا بندہ کافر و مرتد ہو جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عقیدۂ ختمِ نبوت کے ذریعے امت مسلمہ پر احسانِ عظیم کیا ہے کہ عقیدۂ توحید کے ساتھ ساتھ عقیدۂ ختمِ نبوت نے دنیائے عالم کے پونے دو ارب مسلمانوں کو وحدت کے عَلم کے نیچے جمع کر رکھا ہے۔

اسی جذبۂ حب محمدی سے سرشار خطۂ پاک و ہند کے مسلمان روزِ اول سے ہی ختمِ نبوت کے محافظ تھے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں منکرینِ ختمِ نبوت اہلِ ایمان کے لیے سخت آزمائش کا باعث بھی بنتے رہے ہیں۔ ایسے ہر دور میں اہلِ علم و دانش اور مجموعی طور پر پوری امت مسلمہ اس فتنے کے سدِّباب کے لیے بھرپور مزاحمت کرتی رہی ہے۔ بدقسمتی سے امتِ اسلامیہ کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ باہمی تعصب نے بار بار ملت کے امن و سکون کو درہم برہم کیا اور فتنہ و فساد کے شعلوں نے بڑے المناک حادثات کو جنم دیا لیکن اتنے شدید اختلافات کے باوجود سارے فرقے اس پر متفق رہے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ چنانچہ گزشتہ تیرہ صدیوں میں جس نے بھی نبی بننے کا دعوی کیا اس کو مرتد قرار دے دیا گیا اور اس کے خلاف علم جہاد بلند کر کے اس کی جھوٹی عظمت کو خاک میں ملا دیا گیا۔
آتے رہے انبیا٫ کما قیل لھم
و الخاتم حقکم کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخر میں ہوئی مہر کہ اکملت لکم
برصغیر پاک و ہند کے علاقے قادیان میں پیدا ہونے والے ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کیا کہ وہ ہی مسیح موعود اور مہدی آخر الزمان ہے اور بعد ازاں نبی ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ 1888ء میں مرزا نے اعلان کیا کہ اسے بیعت لے کر ایک جماعت بنانے کا حکم ملا ہے اور اس طرح 23 مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت لے کر جماعت احمدیہ کے نام سے ایک جماعت بنائی جسے قادیانیت اور مرزائیت بھی کہا جاتا ہے۔ اس مرزا ملعون نے انگریزوں کے ماتحت رہتے ہوئے اور ان سے تربیت پا کر، ایک مسلمان کی حیثیت سے ختمِ نبوت پر ایمان اور یقین رکھنےکی بجائے خود نبوت کا جھوٹا دعوی کر دیا۔

جبکہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق حضرت محمد مصطفیٰﷺ آخری اور رہتی دنیا تک نبی ہیں، نزولِ عیسیٰ علیہ السلام ختمِ نبوت کے منافی نہیں ہے کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام بھی آپ ہی کی شریعت پر چلیں گے۔ اس عقیدے کی رو سے قادیانی غیر مسلم اور کافر ہیں۔ پاکستان میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح وہ اقلیت قرار دیے گئے ہیں۔ پیارے نبیﷺ کے دشمن کبھی اسلام اور مسلمانوں کے کبھی بھی خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح قادیانی پاکستان اور پاکستانیوں کے خیر خواہ بھی نہیں ہیں۔ پاکستان دنیائے اسلام میں ایٹمی طاقت رکھنے والا واحد ملک ہے۔ اس کی طاقت اسلام و ملک دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ ہمہ وقت سازشوں کے جال بننے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ پاکستان عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف قادیانیوں کی سازشوں کا مرکز رہا ہے۔ اور ان کی سرکوبی کے لیے بھی سچے اور مخلص مسلمان جان توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن جب ایسوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو جائے تو معاملات نہایت پیچیدہ اور گھمبیر ہو جاتے ہیں۔ اہم کلیدی حکومتی عہدوں پر قادیانیوں کی وقتاً فوقتاً تعیناتی کی خبریں ہر پاکستانی مسلمان کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ان کی سازشوں کا بھانڈا پھوڑ کر انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے ہر مسلمان کا چاق و چوبند رہنا اور ان کی دجل وفریب سے باخبر ہونا اشد ضروری ہے۔ ختمِ نبوت کے حوالے سے معاشرے میں خواتین کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ مردوں کا۔ تحفظ ختمِ نبوت اور دفاعِ ختم نبوت کے لیے تاریخ میں صحابیات نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ہر دور میں خواتین اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

آج بھی قوم کی غیور و نڈر مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں اس عظیم الشان عقیدے کی پاسداری اور نگہبانی کر سکتی ہیں۔ گھروں میں دادی نانیاں اپنی پود کو سیرتِ نبوی اور ختمِ نبوت کی صحابہ کرام اور دیگر مُحبانِ و عاشقان رسولﷺ کی سچی کہانیاں اور واقعات سنایا کریں۔ مائیں اپنے بچوں کو سیرت النبیﷺ کے سانچے میں ڈھلنے اور عمل پیرا ہونے کے لیے مسلسل آمادہ کرتی اور ترغیب دلاتی رہیں۔ انہیں ختم نبوت والی آیات مع تراجم اور چھوٹی چھوٹی احادیثِ مبارکہ مع تراجم حفظ کروائیں۔ مدارس میں معلمات ، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں خواتین اساتذہ اپنے طلبہ وطالبات کو عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت وعظمت اور ضرورت وحفاظت کے بارے میں ممکنہ حد تک آگاہی دیتی رہیں۔ نوجوان نسل کو معیشت کے میدان میں تمام قادیانی مصنوعات (products) خصوصاً شیزان کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی سخت تاکید و تلقین کریں انہیں یہ بھی بتائیں کہ اگر اس بائیکاٹ کو مسلسل جاری رکھا جائے تو قادیانیوں کو بھرپور خسارے اور امت محمدیہ کی مدافعت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اس طرح ان کا مال و دولت ختمِ نبوت کے خلاف کاروائیوں میں خرچ نہ ہوسکے گی۔

گھر گھر میں ختم نبوت کی مہم چلائیں۔ سارا سال یہ ذکرِ خیر جاری رکھیں۔ ختمِ نبوت کی یاد دہانی کے لیے خواتین اپنے گھروں، مدارس، اسکولوں، کالج، رفاہی اداروں ، دفتروں، فیکٹریوں ، دکانوں ،شاپنگ سینٹرز، وغیرہ کی دیواروں اور اہم و نمایاں جگہوں پر عقیدۂ ختم نبوت کی آیات اور احادیث کے چارٹ یا فلیکس جا بجا آویزاں کریں۔ اللہ کے محبوب بندے اور آخری رسولﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ خود بھی کریں اوروں کو بھی ترغیب دیں۔ سیرتِ سرورِ کائنات پر سختی سے عمل پیرا ہو کر آپﷺ کی روشن سنتوں کا چرچا ہر سو عام کریں۔ غرض یہ کہ ہر طبقے کی خواتین اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی اولاد کو، اپنے طلبہ و طالبات کے دلوں میں نبی جیﷺ کی سیرت، محبت اور اطاعت و اتباع کے واضح بیج بوتی رہیں اور ان کی جانفشانی سے ان کی آبیاری کرتی رہیں۔

سیرتِ مطہرہ اور عقیدۂ ختمِ نبوت مختلف عنوانات پر گھروں اور تعلیمی اداروں میں بیانات ، مکالمے ، تحریری و تقریری مسابقات اور کوئز مقابلہ جات وغیرہ منعقد کریں۔

سوشل میڈیا پر فعال خواتین وقتاً فوقتاً عقیدۂ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کو اجاگر کرتی رہیں۔ نبی جی کے پیاری امتی صرف زبانی کلامی محبت رسولﷺ کا دعویٰ نہ کریں بلکہ اپنے قول و فعل ، سچی اطاعت و فرماں برداری سے یہ ثابت کریں کہ جن سے محبت و عقیدت ہوتی ہے، ان کی کامل اتباع کی جاتی ہے۔ قادیانی ہمسایوں یا عزیزوں کی مذہبی عبادات، تہواروں اور شادیوں وغیرہ میں کبھی بھی شامل نہ ہوں۔ تاکہ خصوصاً مسلمان بچے اور بچیاں ان کی، تہذیب و تمدن اور طور طریقوں سے متاثر ہو کر دین سے متنفر نہ ہو جائیں۔ اپنے بچے بچیوں کے رشتے قادیانیوں سے ہرگز نہ کریں۔

عزیز اخوات!
یاد رکھیں کہ ختمِ نبوت
کوئی وقتی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کی ایک لمحہ کی غفلت زندگی بھر کی محنت پر پانی پھیر سکتی ہے۔ آپ کی نسلوں کی دنیا ہی آخرت بھی برباد کر دے گی۔

سو دلوں کو گرمانے کے لیے حب نبی کی آگ بھڑکانا ضروری ہے۔ کہ آپ کا بچہ بچہ درج ذیل اشعار کی تفسیر نظر آئے۔ اسی رعایت انسب سے نیک نام ہوں میں
حضور سرور کونین کا غلام ہوں میں
مروں گا ختم نبوت کی پاسبانی میں
جہاد عشق رسالت میں تیز گام ہوں میں