ہم جب جانے لگے تو سائیڈ پر بے شمار موبائل جیسے آلے رکھے ہوئے تھے جب میں نے پوچھا تو خاتون نے کہا کہ یہ آپ اندر لے جائیں یہ ٹورسٹ گائیڈ کا کام کریں گے اس میں 3 زبانیں آتی ہیں جس جگہ کھڑے ہوں وہاں کا نمبر ڈائل کرکے کان سے لگا لیں تو آپکو بتائے گا تاریخ اس جگہ کی ۔واہ یعنی اب کسی کام کے لیے انسانوں کی ضرورت نہیں رہی

 حنا سہیل جدہ سعودی عرب

(دوسری  اور آخری قسط )

رات تو ہم ایسے سوئے ایسے سوئے جیسے سارے ہاتھی گھوڑے بیچ کر سوئے ہوں ۔ جب موبائل نے الارم بجایا تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ موبائل رکھا کہاں ہے  اورہم کہاں ہیں تھوڑی دیر بعد سمجھ آیا کہ بھئ ہم اپنے گھر میں نہیں ہیں ہوٹل میں ہیں خیر فجر کی نماز پڑھ کر ہم پھر  سوگئے اتنی لمبی رات ملی تھی سونے کے لیے شکر ۔

صبح سھیل نے 8 بجے اٹھا دیا کہ جلدی نکلنا ہے کیونکہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت یعنی آج سھیل کو برسٹل میں پہلے سسپینشن برج دیکھنا تھا پھر باتھ جانا تھا اور آنا بھی آج ہی تھا ۔ ہوٹل میں نیچے لابی میں ناشتا کرنے گئے تو کاؤنٹر پر کھڑی خاتون نے کمرہ نمبر پوچھنے کے بعد  ہمیں کہا کہ میں آپ کے لئے گلوٹن فری بریڈ لاتی ہوں آپ بیٹھیں ، اس نے حلیہ سے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم ویجیٹرین ہیں۔ یہ ایک عجیب سچ ہے کہ مسلمانوں کو بھی ویجیٹرین شمار کیا جانے لگا ہے ،  ناشتے سے فارغ ہوئے کمرہ میں گئے کہ برساتیاں اور چھتریاں لے لیں کیوں کہ آج بارش کی پیشین گوئی تھی اپنی جیکٹیں بھی چینج کیں سردی کی مناسبت سے  پہنیں یوسف بھی آگیا تھا پھر اوبر سے گاڑی بک کروائی اور ہم برسٹل کے کلفٹن کے علاقے کی طرف نکلے یہ امیر لوگوں کا علاقہ ہے جیسے کراچی میں کلفٹن امیر لوگوں کا علاقہ ہے ۔ یہیں سسپینشن برج بھی ہے ، بہت خوبصورت موسم میں ایک ایسا برج جو بغیر ستونوں کے ہے اور ہینگنگ hanging برج کہلاتا ہے سیاح اور مقامی لوگ بھی دیکھنے آتے ہیں۔ ہم نے اتر کر برج پر چہل قدمی کی کچھ لوگ جاگنگ کررہے تھے ۔ یہ پل ٹریفک کے لیے ہے لیکن لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں ایسا ہی ایک پل امریکا میں سان فرانسسکو میں گولڈن گیٹ ہے اور ترکی میں آبنائے باسفورس کے اوپر بھی ایسا ہی پل ہے ۔ الحمدللہ تینوں پل ہم نے دیکھ لیے ہیں۔  پل کی دوسری طرف اس انجینیئر کا گھر ہے جس نے یہ پل بنایا تھا اس کو بھی حکومت نے سیاحوں کے لئے کھول دیا ہے ، ہم نے اوپر چڑھ کر نیچے کا نظارہ دیکھنے کا سوچا چڑھائی زیادہ نہیں تھی اس لیے ہمت کرلی اور واقعی اوپر پہنچ کے نیچے پل کو دیکھنا کیا ہی خوبصورت نظارہ تھا ۔ اوپر بھی ایک پرانی observatory محکمہ موسمیات والوں کی ہے جو اندر سے دیکھنے کے لیے کھول دی گئ ہے اسے کاسل اور میوزیم بنادیا گیا ہے۔

برطانیہ میں یا یورپ میں بچے کم اور انسانوں کے ساتھ کتے بہت دیکھے، ہر ڈیزائن کا ہر نسل کا اور لوگوں کو ایسے لاڈ اٹھاتے دیکھا کہ کوئی اپنے بچوں کے بھی کیا اٹھائے گا۔

جلدی جلدی یہ سب دیکھ کر ٹرین پکڑنے کی جلدی تھی سو اسٹیشن کی طرف دوڑ لگادی۔ ہم جب ٹکٹ کاؤنٹر تک پہنچے تو ٹرین نکلنے میں 3منٹ تھے اس لیے ایک گھنٹے بعد والی ٹرین کے ٹکٹ لیے ۔ اور اسٹیشن پر ایک گھنٹہ ٹائم گزارنے کے لیے چائے وائے پینے کے لئے coffee shop  میں گئے، آرام سے بیٹھے ، اسٹیشن پر بہت رش تھا ویک اینڈ کی وجہ سے سب طالب علم اور عام لوگ گھومنے پھرنے قریب کے شہروں میں جانے کے لیے ٹرین کے انتظار میں موجود تھے ، اسٹیشن کا نام ٹیمپل میڈز اسٹیشن تھا ، اسٹیشن کے سامنے ہی ہمارا ہوٹل ہالیڈے ان ایکسپریس موجود تھا پیدل کے راستے پر سب چیزیں تھیں ۔ برسٹل سے باتھ ٹرین کا سفر آدھ گھنٹے کا ہے ۔ باتھ پہنچ کر ہم نے سب سے پہلے معلوم کیا کہ رومن باتھ کا ٹکٹ کیسے لیں خاتون نے بتایا کہ ان لائین ٹکٹ ہیں اور فورآ لے لیں ورنہ ٹکٹ تیزی سے فروخت ہورہے ہیں یہ بھی ایک ٹینشن کی چیز کہ وائی فائی سم  صرف یوسف کے پاس  تھی اور وہ کنکٹ نہیں ہورہی تھی خیر کسی نہ کسی طرح سھیل اور یوسف نے ٹکٹ لے ہی لیے ہمارا ٹائم دو گھنٹے بعد کا تھا اس دوران ہم نے رومن باتھ کے سامنے باتھ ایبی کیتھڈرل دیکھنے کا سوچا اور کیتھڈرل میں فیس تو نہیں تھی لیکن انھوں نے چیرٹی رکھی تھی آپ جو دینا چاہیں یہاں مزہ یہ آیا کہ سھیل دینا نہیں چاہ رہے تھےٹاو بیٹا شرما رہا تھا کہ چیرٹی تو کتنی بھی دے سکتے ہیں دے دیں خیر سھیل راضی ہوگئے یہاں ہمیں فخر ہوا کہ ہم بھی انگریزوں کو چیریٹی دے سکتے ہیں ۔

اندر پوری تاریخ تھی کہ یہ کب بنا کتنے ہزار سال پرانا چرچ ہے،یہاں ان لوگوں کی تصاویر بھی تھیں جو جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ کیطرف سے لڑے تھے ان میں ایک خاتون فوجی جو انڈین تھیں انکی تصویر بھی تھی ۔

کیتھڈرل اور چرچ میں بہت تھوڑا سا فرق ہے دونوں عیسائیوں کی عبادت گاہیں ہیں لیکن کیتھڈرل کیتھولک چرچ ہے اور یہاں بشپ بھی ہوتے ہیں مذہبی رسوم کے لئے بھی کیتھڈرل ہے چرچ میں سب عام عبادات ہوتی ہیں ۔ یہ چرچ بھی بہت قدیم ہے جو تاریخ لکھی ہے اس کے مطابق پہلی جنگ عظیم کے وقت سے ہے ، اور بادشاہوں کی عبادت گاہ رہا ہے ، اصل میں  باتھ خود ایک پرانا تاریخی شہر ہے اور انگلش کے ناولوں میں اس کا بہت ذکر ہے ۔ اس کا اسٹریکچر بہت مختلف ہے، پتلی پتلی گلیوں سے گزرتے ہوئے آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ پچھلی صدی میں سفر کررہے ہیں۔ ابھی ہم باہر نکلنے کا سوچ رہے تھے کہ پادری صاحب آگئے اور خطاب شروع کر دیا ، کچھ دعا کروانے لگے خیر ہمیں تو رومن باتھ دیکھنے کی جلدی تھی سو  ہم باہر نکل آئے اور لائین میں لگ گئے کیونکہ شائد یہ آخری گروپ تھا جو اندر وزٹ کرنے جارہا تھا اس کے بعد  ٹائم ختم تھا ، اندر داخل ہوئے خاتون نے ٹکٹ چیک کئے فون پر اور ہم جب جانے لگے تو سائیڈ پر بے شمار موبائل جیسے آلے رکھے ہوئے تھے جب میں نے پوچھا تو خاتون نے کہا کہ یہ آپ اندر لے جائیں یہ ٹورسٹ گائیڈ کا کام کریں گے اس میں 3 زبانیں آتی ہیں جس جگہ کھڑے ہوں وہاں کا نمبر ڈائل کرکے کان سے لگا لیں تو آپکو بتائے گا تاریخ اس جگہ کی ۔واہ یعنی اب کسی کام کے لیے انسانوں کی ضرورت نہیں رہی ٹورسٹ گائیڈ کو ہاتھ میں پکڑ کر ہم اندر گئے۔ اصل میں یہ رومن باتھ اس لئے مشھور ہے کہ یہاں رومن فوجیں اور شاہی لوگ نہانے آتے تھے یعنی یہ ایک طرح سے شاہی حمام تھے اور گرم پانی کے قدرتی چشمہ چاروں طرف مشھور بادشاہوں کے مجسمے نصب تھے جن میں جولیس سیزر کا مجسمہ بھی تھا ، پانی ہرا ہورہا تھا اور کائی جمی ہوئی نظر آرہی تھی ، پتا نہیں اتنی بھی اصلی حالت میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اندر بہت سی ایسی چیزیں رکھی تھیں جو کھدائی کے دوران ملیں ، خاص طور پر وہ حوض اور اندر اس کے پانی کی لائنیں سب ۔ ہر کمرے میں آلگ تاریخ تھی جو ویڈیو کی شکل میں چل رہی تھی ۔ روم کا ذکر ہو، قلوپطرہ کا ذکر نہ ہو، جی ایک خاتون روم کی ملکہ کا گیٹ اپ کئے بیٹھی تھی میں نے ان کی تصویر کھینچی اور تعریف کی کہ آپ تو بالکل قلوپطرہ لگ رہی ہیں

وہاں سے نکلتے ہوئے  ایک جگہ اسپرنگ واٹر کا انتظام تھا ڈسپوزیبل گلاس اور واٹر ڈسپینسر کے ساتھ لیکن اتنا گرم اور بدبودار پانی کہ الٹی آگئ ۔ جب حوض کے پانی میں ہاتھ ڈالا تھا تو گرم تھا بلکہ اس میں سے بھاپ نکل رہی تھی ۔  اسی رومن باتھ کے برابر میں اصلی باتھ لینے کا انتظام بھی تھا لیکن ہم وہاں نہیں جاسکتے تھے اور نہ جانا چاہتے تھے ۔

 ہم سب کے پیٹوں میں بھوک سے چوہے دوڑ رہے تھے سو فٹافٹ حلال کھانے کے تلاش شروع ہوئی اور قریب ہی ٹرکش ریسٹورنٹ نظر آگیا ۔ اسٹاف بہت خوش اخلاق صاف ستھرا ہوٹل میاں صاحب نے ایک دو لفظ ترکی کے بولے تو وہ سب بہت خوش ہوئے کہ اپ کو ترکی زبان آتی ہے آرڈر میں اسکندریہ اور  کوفتہ آرڈر کیا اسکندریہ میں چربی اور بکرے کی چھوٹی بوٹیاں اور ڈبل روٹی کے چھوٹے ٹکڑے اوپر سے دہی اور چیز ڈلی ہوتی ہے ترکی کے کھانوں میں چیز کا استعمال بہت زیادہ ہے ، لیکن کھانے سے پہلے سلیقے سے ایپیٹائزر آیا جس میں چٹنیاں اور زیتون روٹی کے ساتھ تھے اس دوران ہم نے ریسٹورنٹ میں اوپر ظہر عصر کی نمازیں بھی پڑھ لیں ، کھانا بہت لذیذ تھا  اسٹاف بھی مہمان نواز تھا آخر میں جب انھوں نے سوئیٹ کا پوچھا تو ہم نے منع کردیا لیکن پھر بھی سلیقے سے تین ڈلیاں ترکش مٹھائی کی لاکر سامنے رکھی گئیں ، ریسٹورنٹ سے نکلتے ہی سامنے River Avon  کا حسین منظر تھا کتنی دیر ہم وہاں کھڑے رہے آخری ٹرین 5:30 پر واپس برسٹل جاتی ہے تو ہم نے بھی آخری ٹرین میں ہی واپس جانا تھا واپسی کے راستہ میں باتھ کا سب سے پرانا گھر دیکھا کہتے ہیں کہ جو شخص یہاں پہلا آیا تھا اس کا گھر ہے یہ Sally Lunn,s(1482) نام تھا ۔ اب تو چھوٹا سا میوزیم بنادیاہے ۔

اسٹیشن پر بلا کا رش تھا آخری ٹرین تھی اور سب کو ہی واپس جانا تھا شکر ہے کہ واپسی کے ٹکٹ بھی برسٹل سے لےکر آئے تھے ، جیسے ہی ٹرین آئی لوگوں نے تیزی سے چڑھنا شروع کیا لیکن شکر ہے پاکستان والی دھکم پیل نہیں تھی کہ کھڑکیوں میں سے سامان پھینکو اور خود بھی اکثر ایسے ہی اندر آرہے ہوتے ہیں ۔ برسٹل میں اسٹیشن کے سامنے ہی ہوٹل تھا چہل قدمی کرتے ہوئے ہوٹل پہنچے۔ آگلے دن کا پروگرام بنایا یوسف نے پوچھا کہ کسی کو کھانا کھانا ہے تو کچھ لے آؤں اس وقت 7 بج رہے تھے اور برسٹل میں آدھی رات کا سماں تھا یعنی سب بند ہونا شروع ہو گیا ، ہمیں کسی کوبھی بھوک نہیں لگ رہی تھی لیکن رات کو لگ سکتی تھی ہلکا سا کچھ کھانے کو لے آؤ یوسف سے کہا تو وہ نگٹس فرائیس اور ایک برگر لے آیا سھیل کو تو بالکل بھوک نہیں لگ رہی تھی میں نے تھوڑا سا کھایا پھر واپس یوسف کو دے دیا کہ وہ جاکرفرج میں رکھ لے یا گھر جاکر کھالے اگلے دن یونیورسٹی گھومنا تھی اور واپسی کا سفر تھا جو کافی کم لمبا تھا۔ اگلے دن اور صبح اٹھے 8 بجے سے ہی ٹینشن شروع ہوگئی واپسی کا سفر شروع ہونے سے پہلے ہی تھکا دیتا ہے ۔

 صبح ناشتا ہوٹل کی لابی میں خوبصورت حسین میزبانوں کے ساتھ کیا۔  گلوٹن فری ٹوس آج بھی لائے گئے ، ہم ابھی ناشتا شروع کرنے والے تھے یوسف بھی آگیا اور ہمارے ساتھ ناشتے میں شامل ہوگیا 15 منٹ کے اندر ناشتے سے فارغ ہوئے، وہیں سےاوبر بک کروائی  اور یونیورسٹی گھومنے گئے  ۔ ٹیکسی ڈرائیور سردار جی تھے بڑے خوشی کا اظہار کرنے لگے اور پنجابی میں ہی شروع ہو گئے جب معلوم ہوا کہ ہماری پنجابی اسی تسی کے بعد ختم ہے تو خاموش ہوگئے لیکن کہنے لگے جی یہیں آجاؤ ہمارے ملکوں میں کیا رکھا ہے یہاں جو آرام ہے ہم نے سوچا  اکلوتے فرزند کو بلانے کے چکر میں ہمیں یہ الٹی پٹیاں پڑھا رہےہیں۔

برسٹل میں دو یونیورسٹیاں ہیں ایک یونیورسٹی آف بریسٹل دوسری یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ ۔

تو جناب ہمارے بیٹے کی یونیورسٹی university of West of England  ہے یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی ہم دونوں اپنے آپ کو نوجوان محسوس کرنے لگے بے حد خوبصورت یونیورسٹی اور جدید آلات سے آراستہ کہاں میں نے کراچی یونیورسٹی دیکھی تو کہاں یہ اتنی ایڈوانس یونیورسٹی  باہر اتنے خوبصورت درخت لگے ہوئے تھے ان کے رنگ برنگے پتے اللہ کی شان بیان کررہے تھے ایک درخت تو ایسا تھا جس میں ہرا  پیلا  اورنج اور لال رنگ سب تھے انتہائی دلکش ۔ لائیبریری دیکھی کیونکہ اتوار کا دن تھا تو لوگ نہیں تھے لیکن لائیبریین موجود تھیں  چار منزلہ لائیبریری کمپیوٹر ، پرنٹر ، اسمارٹ بورڈ  ، پروجیکٹر لیپ ٹاپ سب کچھ موجود اور اگر کسی کا لیپ ٹاپ خراب ہوگیا ہے تو کچھ پیسے دیکر کرایہ پر لیپ ٹاپ لےلیں ، باٹنی کی لیب دیکھی طرح طرح کے پودے لگائے ہوئے تھے اس کے بعد اصل ڈپارٹمنٹ یعنی انجینیرنگ کے ڈپارٹمنٹ میں گئے اور خوب کلاس میں بیٹھ کر تصاویر لیں ۔ ہاسٹل دیکھے بہت اچھی رہائش گاہ بنائیں ہیں ،کھیلوں کے میدان اور  جم وغیرہ کافی شاپ سب کچھ بہت شاندار تھا ۔ یوسف اور اسکے پاپا کی گفتگو چل رہی تھی وقت کم تھا اور مقابلہ سخت کیونکہ بس پکڑنا تھی برسٹل بس اسٹینڈ سے لندن ہیتھرو ائیرپورٹ کے لیے ۔ بھاگم بھاگ ہوٹل پہنچے چیک آؤٹ ٹائم آؤٹ ہوگیا تھا تو کارڈ نہیں چل رہے تھے خیر کاوئنٹر پر خاتون نے مدد کی اور سامان نیچے لائے رش ٹائم تھا اوبر کا ملنا بھی مشکل سو یوسف اسٹیشن سے ٹیکسی لے آیا اور ہم سب بس اسٹینڈ کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوا یوسف اداس تھا اور ہم سب بھی اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے کہ دل خراب ہوگا بس اسٹینڈ پر بس آگئ تھی اور ڈرائیور نے بٹھانا شروع کردیا تھا یوسف ہمیں کھڑا کرکے برگر لینے چلا گیا کیونکہ فلائیٹ تو رات 9 بجے کی تھی ہم نے تو دوپہرکا کھانا بھی نہیں کھایا تھا ۔ جب ہم بس میں بیٹھنے لگے تو یوسف بھاگا بھاگا برگر دینے آیا ہم آخری مسافر تھے بس میں بیٹھنے والے آخر تک ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ پڑھائی ہو نوکری ہو اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ اولاد کو اپنے پروں میں چھپا کر رکھیں آخر کبھی نہ کبھی تو باہر نکالنا ہی ہے۔

ائیرپورٹ پر وہی بس سے ٹرین کا سفر شروع وہاں ہڑتال بھی تھی ایک کوئی آدمی نے سہیل کو اشارہ سے بتایا کہ پلیٹ فارم نمبر 4 کون سی ٹرین جائے گی ۔ جب ہم بورڈنگ سے فارغ ہوگئے تو کھانا کھول کر کھایا ایک کافی شاپ پر بیٹھ کر ۔ وہاں سے اٹھ کر آگے گئے تو امیگریشن کی جگہ آگے جاکر سہیل کو خیال آیا جیکٹ تو وہیں چھوڑ دی پھر سیکیورٹی فورس والوں سے درخواست کی کہ پیچھے جیکٹ لینے دوبارہ جانا ہے اس نے سہیل کا بورڈنگ کارڈ لےکر کمپیوٹر پر  کچھ لکھا اور جانے دیا شکرہے جیکٹ وہیں رکھی تھی  ، پھر ہم اطمینان سے ڈیوٹی فری شاپس پر گھومتے رہے اپنے گیٹ کے پاس گئے تو وہاں نماز کی جگہ بنی ہوئی تھی باقاعدہ اندر جاءنمازیں اور بڑے نماز کے اسکارف رکھے تھے۔ مغرب عشاء پڑھی بہت ساری خواتین اور حضرات عمرہ کرنے آرہے تھے دل خوش ہوا دیکھ کر اللہ جس کو توفیق دے ایک خاتون لاس اینجلس سے لندن آئیں اور اب عمرہ کرنے جارہی تھیں ، لوگوں کے اندر جوش و خروش بہت تھا ۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ جب ہم جدہ ائیرپورٹ پر اترے تو باہر نکل کر گرین ٹیکسی کھڑی ہوتی ہے وہی ہم نے لی مجھے ڈرائیور کو دیکھ کر شک ہوا کہ اسے دیکھا ہوا ہے شاید لیکن رات کے 3:30 بجے نیند میں تھی تو سمجھ نہیں آیا پھر جب انھوں نے ایڈریس بتایا اور ٹیکسی ہمارے کمپاونڈ میں داخل ہوئی تو ڈرائیور کہنے لگا میں دو دن پہلے بھی اسی کمپاونڈ میں آیا تھا اسی گھر میں  سھیل نےکہا اچھا حیرت ہے ، سر آپ ہی تو تھے اب بڑی  تفریح رہی سھیل نے کہا ہاں میں ہی تھا ، لیکن ٹیکسی والا کنفیوژ اور ڈر بھی گیا ہمیں اتار کر دور کھڑا ہوگیا کہ ہم جن ہیں یا انسان ہیں جو راتوں کو سفر کرتے ہیں میں نے سہیل سے کہا اس کو بولیں ہم کل پھر اسی ٹائم پر آئیں گے   ۔ یہ ہنسنےلگے کہ رہنے دو بے چارے کو کہیں ہارٹ اٹیک ہی نہ اجائے کہ وہ دو دن  کے وقفے سے جنات کو لارہا ہے ۔