توہمات کا صرف برصغیر میں ہی رواج نہیں ہے بلکہ دنیا بھی اس کا شکار ہے ،ان تالوں کوچابی سے بند کرکے چابی پانی میں پھینک دی اب انکا یہ تصور ہے کہ جب تک یہ تالا لگا ہوا ہے ہماری شادی یا ریلشن شپ رہے گی

 حنا سہیل

(پہلی قسط )

یوسف بیٹا جب ملائشیا میں تھا تو اس کو شکایت تھی کہ امی آپ نہیں آتیں مجھ سے ملنے پاپا آگئے تھے ، پھر وہ ملائشیا سے برسٹل شفٹ ہوا تو ہم نے سوچا کہ اسے سرپرائز دیں گے لیکن سرپرائز ہو نہیں سکا کیونکہ بس کی ٹکٹ بک کروانے سے لے کر ہر جگہ یوسف کی مدد چاہیے تھی ، جی یوسف یعنی سھیل اختر کے ولی عہد ۔ سھیل کا تو معلوم ہی ہے

سب کو کہ گھومنے کے شوقین ہیں ہم انکے ساتھ اٹیچ ہیں تو بس یہ ساتھ تو قیامت تک کے لئے ہے جہاں جائیں گے ساتھ جائیں گے ۔ خیر مختصراً بیان کرتی ہوں کہ انگلینڈ کا ویزہ لگا ہوا تھا لیکن مصروفیت کی وجہ سے جانا نہیں ہوسکا تھا ، سھیل کی چھٹیوں کا مسلہ تھا تو صرف تین دن کا پروگرام بنایا اور جمعرات کی رات یعنی 17 نومبر کا دن گزار کر جب 18ںومبر کی رات شروع ہوئی تو ہماری سیٹ تھی اس سے دو دن پہلے کراچی سے آتے ہوئے  مشھور جاوید نہاری سے مختلف کھانے ٹن پیک   خرید لیے تھے تقریباً 18 ٹن پیک تھے مختلف کھانوں کے تاکہ یوسف کو حلال کھانے کا مسلہ نہیں ہو ویسے تو حلال کھانا مل جاتا ہے لیکن مہنگا ہوتا ہے اور یوسف کو خود بھی پکانے کا شوق ہے ۔مگر اس کے بعد جو پھیلتا ہے وہ سمیٹنے کا بالکل شوق نہیں ہے ، خیر سامان ہمارا کم تھا یوسف کا زیادہ تھا اسکی گرم جیکٹیں اور موزے جوتے سب جو چھوڑ گیا تھا وہ بھی تھا ، یہ اس لیےبتا رہی ہوں کہ آگے جو خواری ہوئی تو میاں صاحب کہنے لگے یہ ہم انڈین پاکستانی ہیں جو اتنا سامان لے کر چلتے ہیں باقی قوم کے لوگوں کو دیکھو ایک ہلکا سا ہنڈ کیری ہے انکے ساتھ ۔

سعودی ائیرلائن سے رات دو بجے کی فلائٹ تھی آرام دہ سفر اور رات کا وقت تھا نیند کا شدید ٹائم، مجھے جہاز میں عام طور پر نیند نہیں آتی لیکن نیند سے اتنی بری حالت تھی کہ وہ کہتے ہیں نا کہ نیند تو کانٹوں پر بھی آجاتی ہے سو  سارا راستہ سو کر گزارا  کھانا کب آیا کب واپس بھی کے گئ ائیر ہوسٹس مجھے معلوم نہیں ہوا میاں صاحب بھی کبھی آنکھ کھول کر ادھر اُدھر کا جائزہ لیتے اور پھر نیند میں چلے جاتے ، جب ہم ہیتھرو ائیرپورٹ پر اترے تو اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں کتنا بھاگنا پڑے گا ۔

امیگریشن والے کے سوالوں سے فارغ ہوئے سامان لیا اور ٹینشن یہ تھی کہ ہمیں برسٹل کی بس لینی تھی 45 منٹس تھے لیکن سامان آنے میں ٹائم لگا پھر بھی 15 منٹ باقی تھے اب صورتحال یہ کہ ٹرالی میں چاروں سوٹ کیس ڈال کر دوڑ لگادی بس اسٹینڈ کی طرف باہر گئے تو بس والے نے بتایا کہ یہ بس نہی جائے گی آپ کو پلیٹ فارم نمبر 2 سے ٹرین پکڑنی ہے وہ فری سروس ہے وہ اپکو بس اسٹینڈ پر پہنچائے گی ہم نے تو سر پکڑ لیا بیٹے کو بتایا کہ بس تو اب نکل گئ پھر یوسف نے ہی کہا کہ آپ وہاں نہ کھڑے ہوں آپکو پلیٹ فارم 2 پر جانا ہے پھر ہم نے ٹرالی وہیں چھوڑی دو سوٹ کیس میرے ہاتھ میں دو سھیل کے ہاتھ میں پھر دوڑ لگائی اتنا تیز چل رہے تھے سھیل کہ مجھے بھاگنا پڑ رہا تھا پوچھتے ہوئے لوگوں کے پیچھے ہم بھی ٹرین تک پہنچ گئے دم لیا ٹرین سے پھر بس اسٹیشن پہنچے جی یہ پورا جنکشن ہے بڑی بڑی لگژری بسیں یہاں سے ہر شہر کے لیے نکل رہی تھیں مجھے ایک طرف بٹھا کر سامان کے ساتھ یہ بھی معلومات لینے گئے کہ اگلی بس کتنی دیر میں آئے گی ور ٹکٹ وغیرہ کے لیے ، تو معلوم ہوا کہ برسٹل جانے والی بس کھڑی ہے اس میں جگہ نہیں ہے جب سھیل نے اپنا مسلہ بتایا کہ سامان اور فلائیٹ لیٹ ہونے کی وجہ سے ہماری بس چھوٹ گئ ہے تو ڈرائیور نے کہا میرے پاس جگہ نہیں ہے نیکسٹ بس پانچ منٹ بعد آئے گی تو اس کے ڈرائیور سےکہنا اگر جگہ ہوگی تو وہ بٹھا لے گا  ، دوسری بس جب آئی تو ڈرائیور اچھا شریف اور ایشین آدمی تھا اس نے آخر میں ہمیں بٹھا لیا بلکہ کئ مسافروں کو ایڈجسٹ کیا ،  سکون کا سفر چاروں طرف اتنے خوبصورت نظارے ہرے بھرے باغات اور کھیت ، گھوڑوں کے اصطبل ، اور صحت مند گھوڑے ، چراگاہوں میں گھومتی بھیڑیں  سفید رنگ کی کیا ہی خوبصورت منظر تھا لیکن یہاں اتنا سکون تھا کہ نیند آگئ اور دو گھنٹے کا سفر آرام سے طے ہوگیا مجھے یاد آیا کراچی سے حیدرآباد کوچ میں بیٹھ کر بے ہنگم گانوں سے سر میں درد ہوجاتا تھا ۔

جب ہم بس اسٹیشن پر اترے تو یقین تھا کہ بیٹا انتظار کررہا ہوگا مگر وہاں کوئی نہیں تھا زرا سی دیر میں سردی سے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونے لگے میرے تو دانت بجنا شروع ہوگئے اب ہنسی بھی آرہی تھی کہ اتنا موٹا کوٹ موزے سب پہننے کے باوجود اتنی سردی کیسے گھومیں گے بھئ۔ اتنے میں سھیل کی نظر ایک حلال فاسٹ فوڈ دکان پر گئ اور انھوں نے اشارہ کیا کہ یہاں آجاؤ اتنی دیر کافی پیتے ہیں  اندر گرم ہے دکان میں ہیٹر چل رہے تھے ابھی دو چار قدم ہی لیے تھے کہ پیچھے سے یوسف نے آکر کندھے پر ہاتھ رکھا کدھر جاری ہیں ؟۔ میں اتنی زور سے اچھل گئی لیکن ایک سیکنڈ میں سمجھ آگیا کہ یہ اپنا جگر کا ٹکڑا ہے۔  یوسف بہت خوش ہوا اور ہم دونوں کی خوشی دوگنی ہوگئ بیٹے کو دیکھ کر تھکن ختم ہوگئی ۔۔ صبح کا وقت تھا ہم نے کافی اور چائے پی ، دوسری میز پر کوئی عرب فیملی بھی ناشتہ کررہی تھی ،یوسف نے بتایا کہ اس کا گھر بھی قریب ہے مگر سامان کے ساتھ پیدل نہیں جاسکتے اس لیے اوبر کال کی ، پوری دنیا میں اب اوبر سروس نے ٹیکسی سسٹم تقریباً ختم کردیا ہے ۔ یوسف کے ایک کمرے کے فلیٹ میں جاکر اس کی چیزیں دیں اور جمعے کی نماز پڑھنے کی تیاری کی ،باتھ روم میں بوتل دیکھ کر پاکستانی لوٹے بہت یاد آئے ، ( سیاسی لوٹے) نہ سمجھ لے کوئی۔ اس کا علاقہ افریقن کمیونٹی کا ہے حلال کھانے پینے کی چیزیں اور دکانیں بھی ہیں مسجدیں قریب ہی ہیں  "البصیرہ مسجد" پہنچے تو وہاں نماز اسی وقت ختم ہوئی تھی ٹائم کا صحیح اندازہ نہیں ہوا خیر جب سب لوگ نکل گئے تو ہم نے نماز پڑھی  مسجد سے باہر ایک انتظامیہ کا بندہ چندہ جمع کررہا تھا اور وہ بھی کارڈ سے ، چندہ لے رہا تھا ، دنیا میں کرنسی کا استعمال اب ختم یعنی کارڈ کرنسی چلے گی۔ کرونا کے بعد یہی ہونا تھا سب ان لائین اور ڈیجیٹل ہوگیا ہے ، یوسف کا علاقہ Easton  کہلاتا ہے ۔

پھر اوبر بک کروائی اور  کھانا کھانے ہاربر سائیٹ پر گئے ریسٹورنٹ کا نام تھا zaza bazar  ، کاؤنٹر پر ایک انڈین لکھنؤ کی خاتون بیٹھی تھی اس نےبڑی خوش ہوکے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ انڈین اسٹال پر حلال کھانا ہے باقی کہیں نہیں ہے کوئی دس اسٹال تھے اور بوفے سسٹم تھا ۔ ہم تو ویسے ہی کم کھانے والے لوگ اور پھر سفر میں جتنا پیسا حلال کرسکتے تھے کیا لیکن پھر پیٹ بھی اپنا ہے خیال آیا ۔ یہ ہوٹل ہاربر کے علاقہ میں ہی تھا تو نیچے اتر کر واک کی سامنے ہی کشتیاں کھڑی تھیں ذیادہ تر لوگوں کی آپنی تھیں اور کچھ کرایہ پر بھی تھیں ۔ 

برسٹل برطانیہ کی وہ بندرگاہ ہے جہاں سے نکل کر  انگریز اور شاہی خاندان کے لوگ دنیا فتح کرنے جاتے تھے ایک زمانے میں انکی نیوی بہت مضبوط تھی یہں سے نکل کر یہ لوگ انڈیا گئے اور تجارت کے بہانے پورے برصغیر پر قابض ہوگئے ایسٹ انڈیا کمپنی ایسے ہی بنی ۔ یہاں انکے وہ سارے جہاز رکھے ہیں جن پر شاہی خاندان سفر کرتا تھا اور اس کا میوزیم بھی ہے ۔ ہم کنارے کنارے چلتے ہوئے اس پانی کے جہاز کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جگہ جگہ جہاں چھوٹا سا پیڈسٹل برج بنا ہوا دیکھا وہاں تالوں کی بہتات دیکھی ، توہمات کا صرف برصغیر میں ہی رواج نہیں ہے بلکہ دنیا بھی اس کا شکار ہے ،ان تالوں کوچابی سے بند کرکے چابی پانی میں پھینک دی اب انکا یہ تصور ہے کہ جب تک یہ تالا لگا ہوا ہے ہماری شادی یا ریلشن شپ رہے گی ، اکثر تالوں پر نام لکھا ہوا تھے اور زنگ لگ چکا تھا ، یورپ میں ان تعلقات کی جو حالت ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے ، سھیل صاحب نے مسکرا کر دیکھا کہنے لگے تم بھی گھر کا بڑا سا تالا لے آتیں ، میرا جواب تھا تین تالے تو ہیں جو اللہ نے اس تعلق کو مضبوط رکھنے کے لیے دیے ہیں ہمیں ان علامتی تالوں کی کیا ضرورت ۔

بحری جہاز  Brunel,sSs Great Britain دیکھنے کے لئے ایک تھوڑا سا نہر کا حصہ کراس کرنا تھا جس کے لیے کشتی میں بیٹھ کر جا سکتے تھے ، اور کشتی کا معمولی سا کرایہ بھی دنیا تھا صرف تین منٹ کے سفر کے لیے حکومت نے کوئی پیڈسٹل کراسنگ یا پل نہیں بنایا بلکہ آپ کشتی کے سفر کو انجوائے کرتے ہوئے جائیں ۔  پھر وہاں جاکر بھی 20 پاؤنڈ کا ٹکٹ لیں اس بحری جہاز کو  دیکھنے کے لیے باہر سے وہی 18ویں صدی کا ماحول بنایا ہوا ہے اندر بھی وہی ماحول ہوگا لیکن ہم سب کا کوئی ارادہ نہیں تھا 5000 روپے ایک بندہ کے خرچ کرکے جہاز دیکھنے جائیں ، وہیں سے کاؤنٹر پر تاریخ معلوم کی اور خالص پاکستانی والا کام کیا باہر سے گھوم کر واپسی کی راہ لی۔

یہ ایک طویل عرصے تک دنیا کا سب سے بڑا جہاز رہا ،اس کے بارے میں مشھور ہے کہ آسٹریلیا کا تین مہینے کا بغیر رکے سفر ہوتا تھا ۔

وہاں سے نکل کر ہم نیکولس مارکیٹ گئے چھوٹے چھوٹے اسٹال لگائے ہوئے تھے کرسمس کی وجہ سے کافی رونق تھی یہاں ایک خاص چیز دیکھی جیسی پاکستان میں رلیاں بناتی ہیں اسی طرح کا کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لیکر انھیں جوڑ کر ایک کوٹ بنایا جاتا ہے جسے پیچ ورک patch workکہا جاتا ہے۔ بہت مہنگے مل رہے تھے یہ خواتین کے لمبے کوٹ ۔ ہر طرح کی دکانیں تھیں ، ہر ملک کی خاص مٹھائی ہوتی ہے ،یہاں کی مٹھائی فج faj کہلاتی ہے ، بچیوں کے لیے کچھ نہ کچھ لینا تھا مگر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لوں خیر آگے گئے تو ایک بڑی مارکیٹ اور  بڑی دکانیں نظر آئیں یوسف نے بتایا کہ اس علاقے کو Cabot Circus  کہتے ہیں بچیوں کے لیے شاپنگ کی اور یوں واپسی کا سفر شروع کیا میاں صاحب جو ڈبل ڈیکر بس میں بیٹھنا تھا اور جو بس یوسف کے علاقے میں جاتی ہے اس کا اسٹاپ تلاش کرنے میں ٹائم لگا ، خیر ہم تو گئے ہی گھومنے تھے تو سڑکوں پر یہاں سے وہاں گھومتے ہوئے اسٹاپ تلاش کیا چسکا سفر بھی انجوائے کیا ،  گھر کے پاس ہی دیسی ریسٹورنٹ ہے خان نام ہے اس کا وہاں سے گرم نان اور کباب کھائے پھر اوبر منگوائی اور اپنے ہوٹل آگئے کیونکہ یوسف کے کمرہ  چھوٹا تھا ایک بندہ کے لیے کافی تھا ، یوسف ہوٹل چھوڑنے آیا کافی دیر گپ شپ کی چائے پی مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں پھر یوسف اپنے گھر کے لئے نکل گئے ۔ اگلا دن ایک نئے سفر کاآغاز تھا یعنی باتھ گھومنا تھا پلیز کوئی باتھ روم نہ سمجھ لیں باتھ ایک جگہ کا نام ہے جہاں بڑے بڑے حمام بنے ہوئے ہیں جہاں رومن بادشاہ نہانے جاتے تھے تو اس جگہ کا نام باتھ ہی رکھ دیا گیا ۔

ان شاءاللہ اگلی قسط باتھ کے سفر کے ساتھ

(جاری ہے )