پار ٹ ٹو

انتہائی حسین وجمیل خاتون ویٹر کو دیکھ کر میاں کی ساری ہمدردی اس طرف ہونے لگی، پتا نہیں  بے چاری کتنی دیر کام کرتی ہوگی ،معلوم نہیں اس سنسان جگہ کیوں نوکری کررہی ہے !!!

 حنا سہیل ریاض سعودی عرب

اگلی صبح  بہت خوش گوار اور سہانی تھی ، ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی ،ہوٹل سے باہر کا منظر دیکھ کر دل چاہا کہ  نیچے اتر کر تھوڑا بازار کا چکر لگا لیں کیونکہ آگے ہماری پلاننگ میں شاپنگ نہیں تھی ،  یہ ہی سوچ کر  بازار کا رخ کیا ، بچے اپنے شوق کی چیزیں دیکھ رہے تھے، میں نے اور ہمارے صاحب نے اپنی پسند کی چیزیں لیں، خاص طور پر بلو آنکھ کی طرح کا ڈیزائن بنا ہوا شو پیس ،

انگوٹھی یا گلے میں پہنے والی خاص ترک جیولری ، اور ترکیہ کی خاص مٹھائی جو پاکستانی حبشی حلوے سے ملتی  ہے ،جیلی جیسی مگر مزے دار ، وقت  گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا   اور جب صاحب جی نے شور مچایا، جلدی کرو بہت لمبا سفر ہے، رات ہوجائے گی ،تو بھاگے بھاگے ہوٹل پہنچے، دوپہر کا کھانا راستے میں کھانے کا پلان بنایا ،ساتھ ساتھ پیکنگ کی اور نکل کھڑے ہوئے اپنی اگلی منزل کی طرف، یعنی الوداخ براستہ بُرسہ۔

 انتہائی خوبصورت موسم اورراستے میں چاروں طرف حسین نظارے ، صاحب تو نظارے انجوائے کررہے تھے اور بچے آپنے اپنے موبائل میں لگے ہوئے تھے .

"اف  تم لوگ کیا کررہے ہو  اس وقت تو موبائل چھوڑ دو  باہر دیکھو ،"  میں نے  بچوں کی توجہ موبائل سے ہٹانا چاہی  مگر بچے بھی نا  کہنے لگے:" امی ایک جیسا نظارہ ہے، سب طرف ہرا ہرا ہے اور بھوک بھی لگ رہی ہے ".

 تھوڑی مسافت پر ایک ہوٹل کا بورڈ نظر آرہا تھا ، سوچا وہیں رکیں گے، فریش بھی ہوجائیں گے اس وقت 3 بج چکے تھے ،ہم جب ہوٹل میں کھانا کھانے رکے ۔ انتہائی حسین وجمیل خاتون ویٹر کو دیکھ کر میاں کی ساری ہمدردی اس طرف ہونے لگی، پتا نہیں کتنی دیر بے چاری کام کرتی ہوگی ،معلوم نہیں اس سنسان جگہ کیوں نوکری کررہی ہے ۔

 کھانے کا مینیو پوچھا اوریہ بھی کہ ہم  کتنی دیر میں پہنچ جائیں گے ، ہر بچے نے مختلف چیزیں  منگوائیں ؛صاحب زادے کو  ذرا یونیک کھانے کا شوق ہے! لہذا ان کے برگر کا سائز  اور سائیڈ ڈشز دیکھ کر بہنوں نے کہا ہم بھی شیئر کریں گے ،اسی طرح ہنسی مذاق کرتے ہوئے کھانا کھایا ، وہیں ظہر اور عصر پڑھی تاکہ بیچ میں رکنا نہیں ہو ، اور آگے کا سفر پھر سے شروع کردیا ۔

 استنبول سے برسہ تین گھنٹے کی مسافت پر ہے اور ہمیں اس سے آگے  جانا تھا ،واپسی پر برسہ میں رکنے کا پروگرام تھا ۔ شام ہوگئی اور ہلکی بارش کی وجہ سے سردی بڑھ گئی تھی ، ایک بار پھر ہمارے رہبر یعنی مسٹر  GPS   نے ہمیں غلط رخ پر ڈال دیا ۔ ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ رخ بدل گیا ہے، گاڑی پکے راستے سے کچے کی طرف جارہی تھی ایک گاؤں میں سے ہوتی ہوئی ، برابر سڑک کے ایک قبرستان بھی تھا ، صاحب سے کہا کہ کسی سے راستہ پوچھ لیں مگر ان کو اپنی مشین پر بھروسا تھا آخر گاڑی ایک ایسی جگہ کیچڑ میں پھنس گئی جہاں آگے پہاڑی جنگل تھا اور برابرمیں قبرستان ، میری تو جان ہی نکل گئ ، جتنی دعائیں یاد تھیں ساری  پڑھ لیں۔

 گاڑی سے اتر نہیں سکتے تھے کیونکہ آدھے آدھے  ٹائر کیچڑ میں تھے ، پاس کوئی آدم نہ آدم زاد ، دم خشک ہونے لگا ، ادھر میں کچھ بولتی اُدھر میاں صاحب کا غصہ تیز ہوتا :" تم تھوڑا صبر کرو گی کچھ سوچنے دو گی ۔" خاموش تو ہوگئی مگر آنسو آنکھوں سے بہنے لگے ۔

بچے بولے  :"پاپا امی رو رہیں ہیں"

ان کے پاپا بڑی بے نیازی سے کہنے لگے : "رونے دو "

 بیٹا بھی کہنے لگا '"امی!  اس میں رونے کی کیا بات ہے، سچ اتنا ایڈونچر لگ رہا ہے ۔"

میں سوچنے لگی کہ میں نے  تو کبھی ہارر کہانیاں پڑھتی نہیں  پھر میرے ساتھ کیوں ایڈونچر ہورہا ہے۔ یا اللہ جی !  پلیز یہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل کر دیجیے" ،  میاں جی کبھی گاڑی آگے کرتے کبھی پیچھے مگر ٹائر گھوم جاتے مزید اندر چلے جاتے ، اچانک گاڑی پیچھے ہوئی اور پیچھے کی طرف چلنے لگی ، رب کا شکر ادا کیا ،  آگے چڑھائی تھی اس لئے گاڑی آگے نہیں بڑھ رہی تھی ، اسی راستے سے  واپس ہولیے ، چھوٹا سا گاؤں تھا ،سردی کی وجہ سے لوگ گھروں میں تھے کوئی باہر نہیں تھا گھروں میں سے مرغیوں کی آوازیں آرہیں تھیں اور گھوڑے بھی باہر بندھے ہوئے تھے ، ایک بوڑھی عورت تنکوں کی ٹوکری میں سیب لیے کہیں جارہی تھی، کرد لباس پہنا ہوا تھا یعنی لمبی فراک اور خاص ڈیزائن کی سلی ہوئی  ڈھیلی سی شلوار ،  پرانے زمانے کی یاد آگئی  ۔ تھوڑا آگے بڑھے تو ایک بڑے میاں نظر آئے ان سے صرف یہ کہا برسہ انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے ایک طرف اشارہ کردیا، اب سارے بچے بولنے لگے :" پاپا یہ انکل تو نابینا تھے ان کے بتائے ہوئے راستے پر کیوں جارہے ہیں ، نابینا ہوتے ہوئے انہوں نے راستہ صحیح بتایا تھا ۔

 مین سڑک آگئ تھی سکون کا سانس لیا مگر میری طبیعت خراب ہونی شروع ہوگئی تھی، سر میں درد ہونے لگا کیونکہ میں نے سروائیکل درد کے لیے بیلٹ پہنی ہوئی تھی، اور بہت دیر ہوگئی تھی ، میاں جی کا رکنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا کہ میں آپنی بیلٹ کھول لیتی ، دوران خون ایک جگہ رک گیا تھا شاید اس وجہ سے درد تیز ہونے لگا ، راستے میں ہوٹل والوں کو فون کیا ریزرویشن کروائی ہوئی تھی ان سے راستہ کی لوکیشن بھیجنے کا کہا، اسی دوران گاڑی کے برابر سے ایک دوسری گاڑی والے کو میاں صاحب نے ہارن دے کر رکنے کا کہا  اور  ہوٹل کا نام بتا کر کہا کہ یہاں جانا ہے ان صاحب  کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہم کیا چاہ رہے ہیں ۔پھر ہوٹل فون کر کے ان کی بات کروائی دونوں نے آپس میں ترکی میں بات کی ، گاڑی والے آدمی نے کہا مجھے فالو کریں ،پھراس کے پیچھے کچھ دیر چلنے کے بعد uloda کا بورڈ آگیا ، اس شخص نے ہاتھ کے اشارے سے کہا اب اس سڑک پر آگے جائیں اور خود اپنے راستے چل پڑا ۔

یہاں سے پھر GPS کا کام شروع ہوا  GPS والی خاتون بھی  دنیا کو اپنے اشاروں پر خوب نچاتی ہے ،   مغرب ہو چکی تھی اندھیرا پھیل چکا تھا گاڑی اپنی رفتار سے آگے جارہی تھی کبھی ہم باہر تو کبھی راستے کا وقت دیکھتے کہ کتنا ٹائم رہ گیا ہے ، گاڑی کے شیشے بند ہونے کے باوجود کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہیں تھیں ۔

آخر رات 9 بجے ہم اپنے ہوٹل کے سامنے تھے، شکر ادا کیا کہ خیریت سے پہنچ گئے۔ ایسا لگ رہا تھا سب لوگ ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے کیونکہ ہوٹل انتظامیہ کے کئی فون اچکے تھے راستہ بتانے کے لیے ، سب سے پہلے کمرے میں گئے۔ میزبان اتنے آچھے کہ کھانے کا پوچھ رہے تھے کہ ڈائننگ ہال کھلا ہے، آپ کھانا کھا سکتے ہیں ،میری تو حالت عجیب تھی ، درد کی گولی مانگ لی اپنی پینا ڈول بھی کھا لی، لیکن طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی ، بچے اور میاں کھانے کے لیے گئے تو میں نے ہیٹر بھی بند کردیا بلڈ پریشر بہت بڑھ گیا تھا ، دماغ سائیں سائیں کرنے لگا ، یا اللہ سب کی پکنک نہ خراب ہو جائے میری وجہ سے، بچے اپنے کمرے میں سونے گئے میاں صاحب پریشان  پاس بیٹھے دعائیں پڑھ پڑھ کر دم کرنے لگے۔ سر بھی دبایا سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی تو کھڑکی بھی کھول دی ،  ہیٹر بند ہونے اور کھڑکی  کھلنے کے بعد  جب ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا تو سکون  ملا ، کچھ دعا  اور کچھ دوا کا اثر  بھی کام کر رہا تھا ۔ اسی دوران میں  سو گئی۔

گہری نیند  سے جب میری آنکھ کھلی تو ایک لمحے کو میں بھول گئ کہ کہاں ہوں ،پھر سب یاد آگیا سامنے سرتاج سو رہے تھے۔ خیال ہوا کتنا تنگ کیا ان کو ، اٹھ کر پانی پیا پھر سو گئی ، صبح اٹھی تو الحمدللہ ایک روشن اور حسین صبح تھی کھڑکی کھولی تو ساری وادی برف سے ڈھکی ہوئی تھی دور دور تک برف ہی برف  ، ایک خوش گوار احساس ہوا ، ہوٹل میں جب ناشتا کرنے گئے تو ہوٹل کے مالکان میاں بیوی وہاں موجود تھے سب سے بہت اخلاق سے مل رہے تھے جب ہمارا معلوم ہوا کہ پاکستانی ہیں سعودیہ سے آئے ہیں تو خاتون نے بچیوں کو پیار کیا اور گلے سے لگا لیا ۔  

ناشتے سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو   جس راستے سے ہم آئے تھے وہ دیکھ کر جان نکل گئی گہری کھائیاں رات کے اندھیرے میں نظر ہی نہیں آرہی تھیں  ، انجان راستے پر گاڑی چلاتے ہوئے بس کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں ،  بہت سے لوگ برف کے کھیل کھیل رہے تھے  ، بچوں اور ان کے پاپا بھی خوب موڈ میں آگئے اور آئس مین بنایا پھر ایک اسکینگ  سکھانے والے انسٹرکٹر سے بات کی کہ چار لوگوں کی ٹریننگ کے کتنے پیسے لیں گے   ،   وہاں ہر ہوٹل میں اسکینگ کا سامان موجود ہوتا ہے اور ٹرینر بھی ہوتا ہے ، بچوں اور ان کے پاپا نے تین گھنٹے کی ٹریننگ لی اورپھر میدان میں آگئے ۔ میں بس بچوں کو خوش دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔ ہوٹل بہت اچھا تھا ، چاہے ٹیرس پر بیٹھ کر انجوائے کرو یا نیچے اتر کر مزے کرو ، بچوں کی خوب ویڈیوز بنائیں ، برف باری کے دوران کھڑے ہوکے اس چیز کو بھی انجوائے کیا کہ اللہ کےبنائے ہر موسم میں سے یہ بھی ایک نرالا موسم ہے جب آسمان سے پانی کی بجائے سفید اولوں کی طرح برف گرے سبحان اللہ کیا نظارہ ہے یہ بھی۔ (جاری ہے )