آخری قسط

حنا سہیل ریاض سعودی عرب

آگے ہمارا سفر برسہ کا ایک پکنک پوائنٹ ہے آلودغ۔   ulugag  جانا تھا،  یہاں ہمیں دو دن رکنا تھا ،بچوں نے موسم اور ماحول کو خوب انجوائے کیا ۔یہ ایک برفانی جگہ اور پکنک پوائنٹ ہے، پہاڑی پر ہوٹل بنائے ہوئے ہیں  اور چاروں طرف سے وادی برف میں ڈھکی ہوئی تھی،اسکول کے طلبہ وطالبات بھی آئے ہوئے تھے،

ترکی کلچر میں آپ کو ماڈرن  اسلام نظر آتا ہے،، بچیوں کے کپڑے یونیفارم اسٹائل سب کچھ یورپین اسٹائل میں،اس کی وجہ یہی ہے کہ ترکی پر یورپ کے اثرات ہیں اور واحد اسلامی ملک ہے جو یورپ میں بھی ہے، پھر کمال اتاترک نے یہاں اسلام کو زبردستی ختم کیا اور مساجد پر تالے لگ گئے تھے  نائٹ کلب اور شراب عام ہیں  اور سافٹ ڈرنک کی طرح ملتی  ہیں لیکن اسلام پسندوں نے اپنی آہستہ آہستہ جگہ بنائی اور زور زبردستی کسی چیز کو ختم نہیں کیا ۔ ابھی بھی سب کچھ ہے اسی طرح  لوگوں پر اسلام پر عمل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، پردہ کرنے والی خواتین پردہ کر سکتی ہیں ہیں مساجد کھلی ہوئی ہیں ہیں پھر وہی بات کہ یہاں پردہ سر جو اسکارف سے ڈھکنے کا نام ہے ، الحمدللہ یہ بھی بہت اچھا ہے کہ پردہ کرنے والی خواتین کی بہت عزت کی جاتی ہے _

                                ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے وہاں  کچھ سعودی طلبہ بھی آئے ہوئے تھے، اگلے دن صبح ناشتے پر ویٹر سے کچھ فرمائش کرنے لگے جو ترک ویٹر کو سمجھ نہیں آئی پھر اس نے مینیجر کو بلایا اس کو بھی سمجھ نہیں آیا ہم اس صورت حال کو بہت انجوائے کر رہے تھے کہ اب  کیسے یہ آپنی بات سمجھائیں گے ہمارے صاحب کو جوش آ گیا اٹھ کر گئے اور کہا کہ" میں کیا  مددکر سکتا ہوں"  سعودی تو خوش ہوگئے کہ کسی کو عربی بھی آتی ہے،اور پھر انھوں نے بتایا کہ اُنھیں حمس چاہیے تھا ناشتے میں ،  خیر ان کا مسلہ حل ہوتے ہوتے میاں صاحب کی دوستی بھی ہوگئ ، بچے تو ناشتے کے بعد پھر اسکینگ کرنے چلے گئے ہمارے صاحب کو بھی جوش چڑھا ہوا تھا خود بھی تیار ہوکر میدان میں اتر گئے، بچے تو مزے سے ادھر اُدھر بھاگتے پھر رہے تھے ، میرا کام صرف فوٹوگرافی کرنا رہ گیا تھا ، میاں صاحب کئ بار گرے پھر چل پڑتے،

       "  آخر گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں "

ہمت نہیں ہاری اور جو ان کے نئے نئے سعودی دوست بنے تھے انھوں نے بھی مدد کی اور طریقہ سکھایا کہ اسکینگ کے لیے کمر کو آگے گھٹنوں کو بل دے کر زور لگانا ہوتا ہے ، آخر جب اس کھیل کود سے تھک گئے تو دوپہر کے کھانے کے بعد کیبل کار میں بیٹھنے کا پروگرام بنایا ، کھانا انتہائی لذیذ تھا، ترکی کھانے میں بےشمار قسم کے کباب ہوتے ہیں جس میں چیز کا استعمال بھی خوب کیا جاتا ہے ، بیگن اور ٹماٹروں کا استعمال بھی خوب تھا پھر میٹھا تو اتنا میٹھا کہ کھا کر چکر آجائیں ، انگوروں کا شیرہ وہیں دیکھا ہم نے ۔

    کیبل کار میں بیٹھنے کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑا قریب ہی اسٹیشن تھا۔ کیا خوب نظارہ تھا نیچے دیکھا تو برف میں کچھ فیملیز بیٹھی  تھیں، کچھ پکنک کے ارادے سے آئے ہوئے لوگ تھے، ہم کیبل کار سے برسہ تک آئے لیکن وقت کم ہونے کی وجہ سے پکنک پوائنٹ تک کھڑے رہے شہر میں نہیں گئے، واپسی پر رات ہونے لگی تھی اور آخری چکر تک کیبل کار کا،اپنے ہوٹل واپس پہنچے سب بچے اپنی اپنی کہانیاں سنا رہے تھے اور کل صبح نکلنے کے لئے پیکنگ بھی اسی حساب سے کررہے تھے کہ اب گھر جاکر ہی کھولیں گے سامان ، رات کو پھر ہوٹل انتظامیہ نے زبردست کھانا لگایا ہوا تھا ڈائننگ ہال میں ،کافی رش تھا کیونکہ چھٹیاں تھیں ترکی میں تو لوگ پکنک منانے آئے ہوئے تھے۔

صبح جلدی نکلتے ہوئے بھی دوپہر ہوگئ یعنی گیارہ بج گئے ہوٹل سے نکلتے وقت بھی ہوٹل کے مالک اور انکی بیوی ملنے آئیں ، ہمارا شکریہ ادا کرنے لگیں کہ ہم نے ٹھہرنے کے لیے ان کا ہوٹل منتخب کیا  دنیا میں کہیں اتنے مہمان نواز لوگ نہیں دیکھے جتنے یہاں دیکھے ، پاکستانی اور ترک بھائی بھائی ہیں وہ کچھ انگلش اور اپنی زبان میں سمجھانے کی کوشش کرنے لگیں ، میزبانوں کے ساتھ بھی ہم نے فوٹو لیے  اور پھر آگے کے لئے رخت سفر باندھا ، برف کی وادی میں چمکتی ہوئی دھوپ اور اس میں  گاڑی میں بیٹھ کر چاروں طرف نظارے کرتے جا رہے ہوں ، آگے ہماری منزل برسہ شہر تھا ، دلفریب منظر !

     راستے میں ایک جگہ رکنا تھا کیونکہ سنا تھا کہ کئی سو سال پرانے درخت کو ان لوگوں نے لوہے کے پائپ لگا کر تھام رکھا ہے  جی پی ایس کو اسی حساب سے سیٹ کیا اور نکل کھڑے ہوئے ایک جگہ راستہ پوچھنا بھی پڑا جب اس جگہ پہنچے تو وہ کوئی چھوٹے سے گاؤں میں ایک پکنکٹ اسپاٹ بنایا ہوا تھا اور اس درخت پر اس کی پوری تاریخ لکھی ہوئی تھی ؛  ہوٹل قدیم اور جدید کا امتزاج تھا خواتین وہاں لکڑیوں پر کھانا پکا رہی تھی تھی بہت بڑے بڑے دیگچے چڑھے ہوئے تھے اور چائے کی کیتلیاں بھی۔ خواتین بھی پرانے اسٹائل کے کپڑے پہنے ہوئے تھیں درخت کے نیچے کرسیاں میز رکھے تھے کہ آنے والے وہاں بیٹھ کر چائے وغیرہ کا لطف لے سکیں ، سامنے ہی تازہ پھلوں کی دکان تھی تھی سچ ایسا لگ رہا تھا جنت کے پھل ہوں ۔کچھ پھل بھی خریدے کہ راستے میں کھا سکیں اور وہاں بیٹھے ہی تھے  کہ میاں صاحب کو ماحول کی وجہ سے چائے یاد آگئی ، ؛میٹل پاس آیا تو اس کو آرڈر دیا تو بہت صاف اردو میں بات کرنے لگا معلوم ہوا کہ وہ لڑکا افغانی ہے  لیکن پاکستان میں آٹھ سال رہ چکا ہے اور وہ بھی کراچی میں سہراب گوٹھ میں ،  دل میں سوچا یہ تو انٹرنیشنل اور دونوں کا پڑوسی نکلا۔

                  جس درخت کو دیکھنے ہم وہاں رکے تھے وہ چھ سو سال پرانا تھا اس کی اونچائی 35 میٹر تھی اور چوڑائی 3 میٹر تھی یہ سلطنت عثمانیہ کے دور کی یادگار ہے جس پر لکھا ہوا تھا یہ سب ، عثمانی دور کی یادگار !   بہت ہی عجیب سا ماحول تھا اس پر چاروں طرف بیٹھے طرف بیٹھے لوگ سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے ، تو شراب نما جوس تھا یا جوس کے اندر شراب پی اور پلا رہے تھے ، ،، بچوں کے ساتھ وہاں سے نکلنے کی جلدی کی ، ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہمارا اپنا ہوٹل تھا برسہ شہر میں اور ہمیں وہاں عثمان غازی کا مزار بھی دیکھنا تھا ، _ آگے کی منزل آسان بھی تھی اور مشکل بھی تھی، ہوا یہ کہ برسہ شہر میں داخل ہوتے ہی ایسا لگا کہ پنڈی شہر میں داخل ہوگئے ہیں ، پتلی پتلی گلیاں ، صاف ستھری ، گھر سب پتھر کے بنے ہوئے، ایک مرتبہ سوچ آئی کہ کھو گئے ہیں جی پی ایس نے گھما دیاہےہم کو ، دل کی بات دل میں رکھی کہ کہیں میاں صاحب ناراض نہ ہو جائیں ، ،تھوڑی دیر ڈھونڈنے کے بعد بالآخر ہوٹل مل گیا ایک مصروف علاقے میں ہوٹل تھا اب گاڑی کہاں پارک کریں یہ پرابلم تھی، بیٹے کو اندر بھیجا اور میاں صاحب کے علاوہ سب اتر گئے ہوٹل انتظامیہ کے بندے نے گاڑی لے کر اپنی پارکنگ میں لگادی ، اندر کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی کبھی پاسپورٹ دیکھتی کبھی  بیٹے کو دیکھتی آخر اس نے پوچھ ہی لیا کہ وہ بھی ملائیشیا یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے ، اتفاق سے وہ بچی بھی وہیں پڑھتی تھی اسی یونیورسٹی میں،  اور چھٹیوں میں بواپس اپنے شہر آکر نوکری کررہی تھی اصل میں وہ سیریا یعنی شام کی لڑکی تھی ، ترکی میں بہت سے لوگ سیرین یعنی شامی ملے ، جنگ کی وجہ سے لبنانی اور شامی ،بہت جگہوں پر مہاجر بن گئے ہیں ، اللہ ان کے ملکوں کی حفاظت کرے ، کئی ایک کو بہت کسمپرسی کی حالت میں بھی دیکھا ۔ ترکی میں یہ لوگ عزت سے کما رہیے ہیں کوئی فقیر نہیں ہے کوئی مانگنے ولا ہاتھ نظر نہیں آتا بہت کم ہونگے، مجھے صرف ایک شامی عورت ملی بے چاری بھوک سے بےحال تھی،،،۔ 

            ہم اپنا سامان رکھ کر فوراً نکل گئے کیونکہ وقت کم رہ گیا تھا مغرب اور عشاء مسجد میں پڑھنی تھی ، ہوٹل کے سامنے سڑک پر بھی مسجد اور کسی سلطان کا مزار تھا ، وہاں انھوں نے سلطنت عثمانیہ کی یادگار بنائی ہے ، پورے علاقے میں قریب قریب کئی مساجد تھیں اور ان کے مساجد کے باہر  احاطے میں ان سلاطین کی قبریں ، ہم چلتے رہے سردی اور ہلکی بارش نے چلنے کو آسان کردیا تھا ، ہر مسجد تقریباً ایک ہی طرزِ تعمیر کا نمونہ تھی باہر وضوخانہ تالاب کی طرح اور فوارے بھی لگے ہوئے تھے ، سردی میں وضو کرنے کا لطف ہی دوبالا ہے ، بیٹیاں پیدل چلنے سے تھک رہی تھیں اور جوتے بھی گیلے ہو گئے تھے ، سو عثمان کے مزار پر اندر جانے کی ہمت نہ کرسکے اور باہر سے فاتحہ پڑھ کر آگئے ، ،واپس جب پیدل جا رہے تھے تھے تو راستے میں ایک جوتوں کی دکان سے میں نے اور بیٹیوں نے لانگ شوز خریدے، کیونکہ ہمارے جوتے اب چلنے سے انکار کرچکے تھے ، ایک شامی فیملی نے گھر میں ہی دکان کھولی ہوئی تھی ، ایک بہت پیاری خوبصورت گڑیا جیسی بچی بھاگ بھاگ کر ہمیں جوتے دکھا رہی تھی ، اسکے ماں باپ بھی ساتھ تھے ، ہم نے دکان میں ہی جوتے تبدیل کئے اور آگے ہی ایک صاف ستھرا ریسٹورنٹ نظر آگیا بھوک بھی چمک اٹھی تھی اتنا چلنے کے بعد ، ترکش برگر (ڈونر) آرڈر کیا اس میں چکن چھوٹے چھوٹے ٹکڑے شوارمہ کی طرح گرل کرکے ڈالے جاتے ہیں ، انتہائی لذیذ کھانے سے لطف اندوز ہونے کے بعد ، پھر پیدل چل پڑے اپنے ہوٹل کی طرف ، راستے میں چھوٹی چھوٹی تاریخی عمارتیں نظر آرہی تھیں مگر وقت ختم ہونے کی وجہ سے بند تھیں ، ہوٹل جاکے چینج کیا صبح واپس گھر لوٹنا تھا ، پھر پیکنگ کی ، اور اگلی صبح جلدی اٹھ کے ناشتا ہوٹل میں کرکے چیک آؤٹ کیا ، اور واپس استنبول کے صبیحہ گوگن SAW  ائیرپورٹ پہنچے گاڑی واپس کی جو ہمارے ساتھ 5 دن رہی، واپسی کا سفر ہمیشہ بور اور تھکا دینے والا ہوتا ہے _  

اس طرح ترکی کی حسین یادیں لیے ہم واپس گھر آگئے ، میں اپنے شریکِ حیات اور ہمسفر کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ ان سے جب بھی کہا  اب آپ کے ساتھ جانے کی خواہش  ہے انھوں نے اس خواہش کو پورا کیا ،اور خوب پورا کیا ،

شکریہ سہیل اختر صاحب!