عرفان حیدر

وہ چلتا چلتا ایک کتاب فروش کی دکان پر رکا۔ پہلے تو اس نے دکان کا بغور جائزہ لیا، پھر اندر داخل ہوگیا۔

”کیمسٹری کی ہیلپ بک چاہیے! دہم کلاس کے لیے۔“ اس نے دریافت کیا۔

”بھائی پرانا  اسٹاک ختم ہوچکا ہے۔ اب ایک ہفتے بعد نیا  اسٹاک آئے گا۔“ کاﺅنٹر پر کھڑے لڑکے نے جواب دیا۔

”اتنا انتظار تو ممکن نہیں ہے“ وہ پریشان تھا۔ ”کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میری مطلوبہ کتاب کہاں سے ملے گی؟“

”ہاں، پر وہ دکان یہاں سے دور ہے۔“ اس نے دھیرے سے جواب دیا۔

”آپ بتائیے میں وہاں چلا جاﺅں گا۔“ اس نے سامنے کھڑے لڑکے کو یقین میں لیتے ہوئے کہا۔

”تم یہاں سے ایف بلاک کی گلی نمبر سات میں جانا۔ اس گلی میں دائیں طرف گیارھویں نمبر پر ایک چھوٹا سا گھر ہوگا۔ گھر کے گیٹ کا رنگ جامنی ہے۔ اس گھر میں ہی انھوں نے دکان بنائی ہوئی ہے۔ تمھیں وہاں سے یہ کتاب لازمی مل جائے گی۔“ لڑکے نے اشاروں کے ساتھ اسے راستہ سمجھایا۔

”چلو ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔“ اس نے کہا اور دکان سے نکل گیا۔

٭٭

 ایک وسیع و عریض لیب جو برقی قمقوں سے جگمگا رہا تھا، وہاں تین اطالوی باشندے محو گفتگوتھے۔ لیب میں ایک نئی اور انوکھی دنیا بسی ہوئی تھی، یقینا جو اسے پہلی بار دیکھتا وہ تو دنگ ہی رہ جاتا ۔ جدید ٹیکنالوجی اور جدید آلات سے مزین لیب میں ذرہ برابر بھی بیرونی شور نہیں تھا۔

”نیند نیند نیند!“ مسٹر ٹام سوچتے سوچتے بولا۔ ”لیکن بغیر نیند کے کیسے؟“

”جناب مجھے نہیں لگتا کہ یہ ممکن ہے۔“ ساتھ بیٹھے لڑکے جونی نے یہ کہا تو مسٹر ٹام درہم برہم ہوگئے۔ ٹام نے اپنے ہاتھ میں موجود ریموٹ کا ایک بٹن دبایا اور غصیلی نظروں سے جونی کو تکنے لگا۔ اسی لمحے جونی جس کرسی پر بیٹھا تھا، اس کے ایک بازو نے حرکت کی اور اس کی شکل انسانی ہاتھ جیسی ہوگئی۔ اس مصنوعی ہاتھ سے ایک زور دار تھپڑ جونی کی گال پر رسید ہوا اور وہ دور جا گرا۔

”ٹام کی ڈکشنری میں نا ممکن لفظ نہیں ہے۔ میں جو چاہوں، وہ میں کرسکتا ہوں۔“ اس نے اتراتے ہوئے کہا۔

”اب آپ کا کیا پلان ہے؟“ دوسرے لڑکے ٹونی نے پوچھا۔ جونی بھی گال پر ہاتھ رکھے واپس اپنی کرسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گرنے کی وجہ سے اس کے ہونٹ میں سے خون بھی بہنا شروع ہوگیا تھا۔

”سنو! سب سے پہلے مجھے“

٭٭

سورج کے غروب ہونے کا وقت آ پہنچا تھا اور چاند آسمان کا مہمان بن کر مشرق میں نمودار ہوچکا تھا۔ وہ کافی دیر سے بغیر رکے چل رہا تھا۔ اس وقت وہ جس علاقے میں موجود تھا، وہ کافی سنسان تھا۔

”وہ رہا جامنی رنگ کا گیٹ!“ وہ خوش ہوکر بولا اور تیزی سے قدم اس گیٹ کی طرف بڑھانے لگا۔

”جی فرمائیے۔“ اس نے دروازے پر دستک دی تو ایک جوان لڑکے نے دروازہ کھولا۔

”وہ مجھے کیمسٹری “ ابھی وہ اتنا ہی بولا تھا کہ سامنے کھڑا لڑکا بولا۔ ”ہاں آجاﺅ، آجاﺅ۔“

وہ بلا جھجھک گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر واقعی چھوٹا تھا۔ میزبان لڑکے نے اسے کمرے میں بلایا۔ کمرے کا بلب بند تھا۔ اس نے بلب جلایا تو سامنے کاﺅنٹر والا لڑکا موجود تھا۔ جسے دیکھتے ہی اس لڑکے کے قدم رک گئے جو یہاں کتاب خریدنے آیا تھا۔

”آپ“ وہ اب گھبرا چکا تھا۔

”ہاں میں، پر شاید تم مجھے جانتے ہو؟“ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

”ہاں ۔ ہم ہم ابھی کاﺅنٹر پر ملے ملے تھے۔“ اس کے جسم میں ڈر کی ایک لہر دوڑ رہی تھی۔

”نہیں تم نے مجھے پہچاننے میں غلطی کردی تھی“ اس نے اپنے چہرے پر لگا ماسک اتارا۔ ”دراصل تم جو مجھے اب دیکھ رہے ہو۔“

”تم تو ایک غیر ملکی ہو “ اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔ اس سارے وقت میں وہ اپنے پیچھے کھڑے لڑکے کو بھول چکا تھا مگر پیچھے کھڑا لڑکا اسے نہیں بھولا تھا۔ وہ لڑکا پیچھے کی طرف سے آیا اور اس کی بازو پر انجیکشن لگانے لگا۔ انجیکشن لگتے ہی وہ لڑکا بے ہوش  ہو کر گر پڑا۔

”پہلے چوہے کا تو شکار ہوگیا“ کاﺅنٹر والا لڑکا جو کہ اصل میں ٹونی تھا بولا۔

”چلو اب دوسرے کی تیاری کریں۔“ دوسرا لڑکا جس نے انجیکشن لگایا تھا، اس نے بھی ماسک اتارا اور ہنستے ہوئے بولا۔ یہ دراصل جونی تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭

ٹاﺅن میں ہنگامہ مچ چکا تھا۔ ٹاﺅن کا ایک لڑکا جس کا نام فارس تھا وہ لاپتا تھا۔ اس لڑکے کا والد پولیس انسپکٹر تھا۔ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔ پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد کے ساتھ انسپکٹر ٹاﺅن کے ہی ایک گھر کے سامنے جا پہنچے، اور گھر کے دروازے پر دستک دی۔

”کون آگیا ہے اس وقت؟“ اندر سے آواز آئی۔

”میں انسپکٹر علی ہوں۔“ اس نے تیزی سے جواب دیا۔

”انسپکٹر صاحب آپ وہ بھی اس وقت۔“ وہ گھبرا گیا تھا۔

”میرا بیٹا فارس آج تمھاری دکان پر آیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ لاپتا ہے۔“ انسپیکٹر نے سخت لہجے میں کہا۔

انسپیکٹر صاحب! آج جب میں عصر کی نماز پڑھنے گیا تو پیچھے دکان پر لڑکا موجود تھا۔ جب میں نماز ادا کر کے واپس آیا تو لڑکا دکان پر نہیں تھا۔ میں نے اپنا سامان چیک کیا تو وہ کچھ لے کر نہیں بھاگا تھا۔ مجھے کافی حیرت ہوئی ،پر جب میں نے سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ دیکھی تو واقعی ایسا ہی تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں لے کر بھاگا تھا۔ لیکن انسپکٹر صاحب جس وقت وہ بھاگا تھا اس سے ایک منٹ قبل ہی ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکا دکان سے گیا تھا۔“ دوکان دار سلیم نے ایک بار میں سارا مدعا بیان کردیا۔

”کیا وہ سی سی ٹی وی فوٹیج مل سکتی ہیں؟“ انسپیکٹر نے دریافت کیا۔

”جی ہاں، چلیے دکان پر۔“ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

وہ سب دکان دار کے گھر سے اس کی دکان کی طرف جانے لگے۔ دکان گھر کے قریب تھی ، اس لیے زیادہ وقت نہیں لگا۔

”وہ آپ کی دکان پر دسویں جماعت کی کیمسٹری کی ہیلپ بک لینے آیا تھا۔ کیا وہ آپ کے پاس ہے؟“ انسپیکٹر علی نے ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد کہا۔

”جی ہاں۔ یہ دیکھیے۔“ سلیم نے کتاب سامنے لا کر رکھ دی اور جواب دیا۔

”یعنی کہ فارس لاپتانہیں ہے اغواہوا ہے۔“ سب انسپکٹر فہیم نے کہا۔

”ہاں وہ لڑکا پہلے اسے کتاب کے نہ موجود ہونے کا کہتا ہے۔ پھر وہ اسے کسی جگہ کا راستہ بتاتا ہے۔ “ انسپکٹر علی نے ویڈیو میں لڑکے کے اشاروں کو زوم کر کے دیکھا اور بولے۔

”اور پھر وہ لڑکا آپ کے بیٹے کے پیچھے چلا گیا ہوگا“ سلیم نے اپنی طرف سے اندازہ لگایا۔

”ہاں۔“ انسپکٹر نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”تمھارے پاس اس لڑکے کے بارے میں کیا معلومات ہیں اور کب سے تمھارے پاس کام کررہا ہے؟“

”اسے دکان پر کام کرتے ہوئے دو ماہ ہوئے ہیں۔ مجھے اس نے یہی بتایا تھا کہ اس کے والدین مر چکے ہیں اور ادھر وہ ایک ہاسٹل میں رہتا ہے۔ مجھے اس کی مجبوری پر ترس آگیا تھا ،اس لیے اسے کام پر رکھ لیا تھا۔ حالاں کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی۔“ سلیم نے تفصیلی جواب دیا۔

”سب انسپکٹر فہیم!“ انسپکٹر علی نے اسے مخاطب کیا۔ ”اس لڑکے کی تصویر لو اور ہاسٹل سے اس کی معلومات لے کر پندرہ منٹ میں تھانے پہنچو۔“

”جی سر!“

”حوالدار اللہ بخش! سی سی ٹی وی فوٹیج تھانے لے آﺅ۔ جس نے بھی فارس کے ساتھ یہ کیا ہے میں اسے جلد از جلد حوالات کے پیچھے دیکھنا چاہتا ہوں۔“ انسپکٹر علی نے حکمیہ انداز میں کہا اور دکان سے جانے لگے۔

٭٭

مسٹر ٹام کے لیب میں فارس کو لایا جا چکا تھا۔ ٹونی اور جونی نے فارس کو ایک سپیشل مشین میں ڈال دیا تھا، جہاں وہ مشین اس کا ڈی این اے حاصل کرنے والی تھی۔ ٹام آگے بڑھا اور مشین کے سفید رنگ کے پائپ کو فارس کی کمر کی ہڈی پر جوڑنے لگا۔ جوڑنے کے بعد اس نے اپنے اسپیشل کمپیوٹر پر ڈیٹا سیٹنگ کی۔ مشین کو ان- پٹ دینے کے بعد اس نے ایک سرخ بٹن دبایا جس سے مشین نے کام کرنا شروع کردیا۔

”اب تم لوگ اگلے شکار کی تیاری کرو تاکہ تجربہ پورا ہو اور میں اپنی سوچ کو حقیقت کا رنگ دے سکوں۔“ ٹام نے ہنستے ہوئے جونی اور ٹونی کو کہا۔

”باس! اس بچے کا کیا ہوگا؟“ جونی نے پوچھا۔

”جیسے ہی مشین بون میرو لے لے گی یہ مرجائے گا“

٭٭

سب انسپکٹر فہیم ہاسٹل سے بہت جلد واپس آگیا تھا۔ انسپکٹرعلی تھانے میں ہی موجود تھے۔ رات کے اس پہر وہ ایک عجب بے چینی کا شکار تھے۔ فہیم جیسے ہی تھانے میں داخل ہوا اس نے دیکھا کہ انسپکٹرکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا سر چکرانے لگا تھا اور وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑا تھا۔

”سر! سر کیا ہوا آپ کو؟“ فہیم بھاگا بھاگا آیا اور پوچھنے لگا۔

”کچھ نہیں بس گھبراہٹ ہورہی ہے۔ آخر بیٹا ہے فارس میرا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دے گا۔“ وہ گھبرائے ہوئے تھے مگر فہیم کو امید دے رہے تھے۔

”خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔“ فہیم نے کہا۔ ”ہاسٹل کے مالک نے کہا کہ ایسا کوئی شخص ان کے ہاسٹل میں نہیں رہتا تھا۔“

”یعنی کہ وہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔“ انسپکٹر علی نے سوچتے ہوئے کہا۔

”کتاب فروش کی دکان کے قریب جتنی دکانیں کھلی تھیں، ان سے معلوم کیا تو پتہ چلا ہے کہ فارس بلاک ایف میں گیا تھا۔ بلاک ایف کے ایک دکاندار نے اسے گلی نمبر سات میں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے بعد اسے کسی نے نہیں دیکھا۔“

”یعنی وہ بلاک ایف کی گلی نمبر سات“ انسپیکٹر ایک دم متحرک ہوگئے۔ ”ہم ابھی بلاک ایف جارہے ہیں۔“

٭٭

پولیس کی سات آٹھ گاڑیاں بلاک ایف پہنچ چکی تھیں۔ پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد انسپکٹر علی کے ساتھ موجود تھی۔

”گاڑیاں یہیں پر کھڑی رہیں۔ آپ سب خاموشی سے گلی نمبر سات کو گھیرے میں لے لیں۔“ انسپکٹر علی نے ہدایات دیں۔

”انسپکٹر صاحب! گارڈ نے بتایا ہے کہ گلی کے گیارھویں گھر میں ایک مشکوک آدمی رہتا ہے۔ اس کی کوئی فیملی نہیں ہے نہ وہ کسی سے ملتا جلتا ہے۔ کبھی کبھار اس کا ایک ہم عمر لڑکا اس کے گھر آتا ہے۔ بلاک میں کوئی بھی اس کو اچھے سے نہیں جانتا۔“ حوالدار اللہ بخش نے تفصیلات بتائیں۔

”وہ جامنی گیٹ ہے نا؟“

”جی ہاں!“

”چلو سپاہیو! دیکھتے ہیں کون ہے وہاں“ انسپکٹر کے کہتے ہی سب آرام آرام سے چلنے لگے۔

گھر کو گھیرا جا چکا تھا۔ کھڑکیوں اور دروازوں پر اہلکار موجود تھے۔ وہ سب انسپکٹر کے اشارے کے منتظر تھے۔

”ایک دو تین۔“ تین کہتے ہی کھڑکیوں اور دروازے کو توڑ کر اہلکار اندر داخل ہوگئے۔ گھر میں ایک ہی آدمی میں موجود تھا، جو اس وقت شراب نوشی کررہا تھا۔ پولیس کو دیکھتے ہی وہ اچھل پڑا۔ اس نے کمرے کی طرف جانے کی کوشش کی تو انسپکٹر علی نے اپنی پستول سے اس کی ٹانگ کا نشانہ لیا اور وہ گر کر چلانے لگا۔ سپاہیوں کی بندوقوں کا رخ اس شخص کی طرف تھا۔ انسپکٹر آگے بڑھے اور اسے سر کے بالوں سے پکڑ جھنجھوڑنے لگے۔ اس نے انسپکٹر پر تھوکنا چاہا مگر اس کی یہ کوشش ناکام رہی۔ اب انسپکٹر کا ہاتھ اس کے گلے پر تھا اور انھوں نے اسے ایک زبردست تھپڑ دے مارا تھا۔

”دو منٹ!“ انسپکٹر اچانک رک گئے۔

انھوں نے جیب میں سے کٹر نکالا اور اس کے چہرے کی جلد کی اوپری سطح کو چیرنے لگے۔ یہ دیکھتے ہی سب دنگ رہ گئے کہ اس کا ماسک اترنے لگا۔ اب انسپیکٹر نے اس کو اکھاڑنا شروع کردیا اور چند سیکنڈز میں ماسک اتر چکا تھا۔

”تو یہ ہے تمھارا اصلی چہرہ!“ انسپیکٹر نے اس کے بال کھینچ کر جھٹکا دیتے ہوئے پوچھا۔

”فارس کہاں ہے؟“ انسپیکٹر نے اس کی گردن دبوچ کر کہا۔

”سرسر!“ سب انسپکٹر بھاگا بھاگا آیا۔

”ہاں بولو فہیم۔“ انسپکٹر نے فہیم کی طرف دیکھا۔

”ایک بری خبر ہے۔“ فہیم نے سر جھکا لیا۔

”بولو بھی سہی“ وہ پریشان ہونے لگے۔

”سر فارس کی لاش ملی ہے۔“ فہیم کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔

”کیا!“ وہ گھٹنوں کے بل گر پڑے۔

”سر یہ وقت بیٹھنے کا نہیں ہے۔ فارس کی کمر کی ہڈی پر بہت بڑا زخم ہے۔“

”کیا!!!“

”اسے ڈاکٹر زین کے پاس لے جاﺅ۔“ کچھ دیر بعد انھوں نے اپنے آنسو پونچھے اور خود کو سنبھالتے ہوئے بولے۔

”حوالدار! میں صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے ہر حال میں اس آدمی سے معلومات چاہتا ہوں۔“ انسپکٹر نے حوالدار سے کہا۔

٭٭

انسپکٹر علی اور سب انسپکٹر فہیم ڈاکٹر زین کی لیب میں تھے۔ فارس کی لاش کا پوسٹ مارٹم اور میڈیکل رپورٹ ہوچکی تھی۔

”فارس کا بہت جدید مشینوں اور کمپیوٹر سسٹم کے ذریعے بون میرو لیا گیا ہے۔ ایسی مشینیں ہمارے ملک کی کسی لیب میں موجود نہیں ہے۔ وہ کسی خاص مقصد کے لیے بون میرو کا استعمال کرنا چاہتے ہوں گے۔ میں یہ کہنا تو نہیں چاہتا مگر فارس بہت اذیت برداشت کرکے موت کی نیند سویا ہے۔“ ڈاکٹر زین تفصیل بتائی۔

علی اور فہیم دونوں کی آنکھیں اشک بار تھیں علی نے اپنے آنسو صاف کیے اور بیٹے کو ماتھے پر بوسہ دیا۔

”فارس! جس نے تمھارے ساتھ یہ کیا ہے اس کا انجام اس سے بھی بدتر ہوگا۔“

”اللہ پاک اس پھول کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔“ ڈاکٹر زین نے افسردگی سے دعائیہ کلمات کہے۔

”آمین!“

”سر حوالدار کی کال آئی ہے۔ وہ آدمی بول پڑا ہے۔“ فہیم نے بتایا۔

”ڈاکٹر آپ ہمارے ساتھ چلیے۔“ انسپیکٹر نے ڈاکٹر زین سے کہا۔

”ضرور۔“

٭٭

”ہمارا باس ٹام ایک سائنسدان ہے۔ ہم تینوں اٹلی سے آئے ہیں اور کئی سالوں سے تمھارے ملک میں ہی موجود ہیں۔ چار سال پہلے اس ٹاﺅن سے ایک کلو میٹر دور جنگل میں ہم نے ایک انڈر گراﺅنڈ لیب بنائی تھی۔ گزشتہ چار سال سے ہم اسی لیب میں کام کررہے ہیں۔ جونی اور ٹونی یعنی میں اور ٹونی ٹام کے دو ہاتھ ہیں۔ کچھ دن پہلے ہم نے ایک نئے پروجیکٹ پر کام کرنے کا سوچا تھا۔ یہ پروجیکٹ ٹام کا ہے۔ وہ ایک ایسا انسان بنانا چاہتا ہے، جسے سونے کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے لیے وہ انسان کے ڈی این اے کو اتنا طاقتور بنانا چاہتا ہے کہ انسان سو ہی نہ پائے۔ اس طاقتور ڈی این اے کو بنانے کے لیے ہمیں ایک بچے کے بون میرو کی ضرور تھی سو ہم نے فارس کو اغواکیا۔ اب اس کے ڈی این اے سے وہ طاقتور ڈی این اے بنے گا جو انسان کی نیند ختم کردے گا۔ اس طاقتور ڈی این اے کے بننے کے بعد ہم ایک اور بچے کو بھی اغواءکرنے والے تھے جس پر ہم پہلے تجربہ کرنے والے تھے۔ تمھارے ملک میں ہونے کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ تمھیں اور تمھارے وسائل کو استعمال کرکے خود کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں تاکہ ساری دنیا ہمارے سامنے جھکے۔ ہم ایک ایسی فورس بنانے والے تھے جو انسانوں سے بہت زیادہ طاقتور ہوتی پر اب شاید ایسا نہ ہو۔“

جونی نے سب کے سامنے ایک ایک بات تفصیل کے ساتھ بتائی۔

”اس بات کا تو یقین کرلو کہ اب ایسانہیں ہوسکتا لیکن اگر تم زندہ رہنا چاہتو ہو تو ہمیں لیب تک لے چلو۔“ انسپکٹر نے پستول کو لہراتے ہوئے کہا تو وہ جھٹ سے بولا:

”ہاں ٹھیک ہے میں تمھیں لے جاتا ہوں۔“

٭٭

”بس اب تم جونی کو ساتھ ملاﺅ اور ایک بچہ اٹھا لاﺅ۔ اب ہماری منزل ہم سے ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔“

”لیکن نہیں تمھاری منزل تمھارا انجام تم تک خود ہی چل کر آگیا ہے۔ “ انسپکٹر نے لیب میں فائر کر کے کہا۔

”خبردار! اگر دونوں میں سے کسی نے کوئی حرکت کی۔ “ سب انسپکٹر فہیم نے باآواز بلند کہا۔

”تم یہاں کیسے؟“ وہ ہڑبڑا گئے۔

”تمھارے یار کی مہربانی سے۔“ انسپکٹر علی نے آگے بڑھ کر ٹام کو اور فہیم نے ٹونی کو جکڑ لیا۔ علی جس کا دل بیٹے کی موت کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا، اس کے ہاتھ میں بیٹے کے قاتل کی گردن تھی۔ ”انھیں اتنا مارو کہ بس ان کی سانسیں چلتی رہیں۔ حوالدار! جونی تمھارے حوالے ہے۔“ انسپکٹر علی نے حکمیہ انداز میں کہا۔ لڑائی شروع ہوئی اور دس منٹ تک جاری رہی۔ یہ یک طرفہ لڑائی تھی شاید وہ تینوں لڑنے میں ماہر نہیں تھے۔ اس وقت ان کی حالت یہی تھی کہ بس سانسیں چل رہی تھیں اور وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔

”ڈاکٹر زین! ان کے بون میرو ہائی ریٹ پاوور پر نکال لو اور ان کی ناپاک لاشیں اور بون میرو ان کے ملک بھجوا دو۔ ہم فارس کی نمازہ جنازہ ادا کرنے جارہے ہیں۔“ انسپکٹر علی نے کہا اور وہاں سے جانے لگے۔