مورگن ایک بائیولاجسٹ تھا۔ وہ ایک لڑکے میں  زنانہ خلیے شامل کر کے اسے لڑکی بنانے اور لڑکی میں  مردانہ خلیے شامل کر کے اسے لڑکا بنانے کا تجربہ کرنا چاہتا تھا۔

 عرفان حیدر

وہاں ہر سو گھنا اور خاموش اندھیرا طاری تھا۔ اس سڑک کے دونوں اطراف اونچے اونچے درخت تھے، جس کی وجہ سے وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ حشرات کی پراسرار آوازیں ماحول کو پرخوف بنا رہی تھیں۔ اس سڑک پر دور دور تک روشنی کی ایک کرن بھی نہیں تھی۔

ایسے میں اچانک وہاں ایک عجیب سی مکینکی آواز سنائی دینے لگی۔ آہستہ آہستہ وہ آواز بڑھ رہی تھی، یعنی لمحہ بہ لمحہ آواز پیدا کرنے والی چیز قریب آرہی تھی۔ مزید نزدیک آنے پر یہ صاف پتا چل گیا کہ وہ شور ایک موٹر سائیکل کا تھا۔ موٹر سائیکل چلانے والا نقاب پوش رات کے اس پہر بے خوفی سے سفر کررہا تھا۔ وہ موٹر سائیکل کو اس حد تک تیز چلا رہا تھا کہ جہاں سے وہ گزرتا زمین تک سہم جاتی تھی۔

غالباً بیس سے پچیس منٹ بعد وہ ایک عمارت کے سامنے رکا۔وہ عمارت زیادہ بڑی نہیں تھی مگر اس کی تعمیر جدید طرز کی تھی۔ مرکزی دروازے کے اوپر ایک ہی بلب موجود تھاجس کی روشنی اس ویرانے کے اندھیرے سے لڑ رہی تھی۔

وہ اندر داخل ہوا جہاں ایک بیس سالہ لڑکا اور اسی کی ہم عمر لڑکی نقاب پوش کے منتظر تھے۔

”ایڈرین اور روما! تم لوگ تیار ہو؟“ اب وہ شخص نقاب اتار چکا تھا۔

”ہاں۔ ہم تمھارا ہی انتظار کررہے تھے۔“ ایڈرین نے جواب دیا۔

”یہ لو تمھارے پیسے“ اس نے دو بیگ ان دونوں کی طرف بڑھائے۔ دونوں نے ایک ایک بیگ کھولا جو ڈالرز سے بھرے ہوئے تھا۔

”شکریہ مورگن۔ پر ہمیں اس بھی زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اب ہم سو سال مزید جوان رہیں گے۔“ روما نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”مجھے مشین کو شروع کرنے میں پندرہ بیس منٹ لگیں گے تب تک تم لوگ اپنے مستقبل کی پلاننگ کر لو۔“ مورگن نے بات ختم کی تو تینوں کے چہروں پر ہنسی تھی۔

٭٭٭٭٭

مورگن ایک بائیولاجسٹ تھا۔ اس کا نیا پراجیکٹ بہت زیادہ خطرناک تھا۔ اس لیے وہ شہر سے دور اس پر کام کرتا تھا۔ دراصل وہ ایک لڑکے میں مصنوعی طور پر زنانہ خلیے شامل کر کے اسے لڑکی بنانے اور لڑکی میں مصنوعی طور پر مردانہ خلیے شامل کر کے اسے لڑکا بنانے کا تجربہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ ایک خطر ناک تجربہ تھا اور اس کے لیے اسے ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی چاہیے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی اپنی جان داﺅ پر لگا کر اس تجربے کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔ لہٰذا مورگن نے ایک اور گھناﺅنا کھیل کھیلا۔ اس نے شہر سے ایک لڑکے ایڈرین اور لڑکی روما کو ڈھیروں پیسوں کا لالچ دے کر اور انھیں یہ کہہ کر کہ اس تجربے سے تمھارے جسمانی خلیے مزید سو سال تک جوان رہیں گے، اپنے خطر ناک تجربے کے لیے جال میں پھنسا لیا تھا۔ وہ دو نوں مورگن کے اصل کھیل سے بالکل لا علم تھے۔

٭٭٭٭

روما اور ایڈرین خوشی اور تجسس کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا تھے۔ وہ دونوں شیشے کے بنے دو بڑے سلنڈروں میں داخل ہوگئے تھے۔ مورگن کے چہرے پر اس وقت ایک خطر ناک اور زہریلی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے آپریشن کو شروع کرنے کے لیے سسٹم کو کمانڈ دی اور کرسی پر ڈھیلے ڈھالے انداز میں براجمان ہوکر نتائج کا انتظار کرنے لگا۔

”صرف ایک تجربہ مجھے اربوں کے کاروبار کا مالک بنا دے گا۔ میں دنیا کا امیر ترین اور طاقت ور ترین انسان بنوں گا۔“ مورگن اپنی خواہشوں کے سمندر میں غرق ہوچکا تھا۔

سلنڈروں کے پیچھے ان دونوں کی وحشت ناک چیخوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا جن کا شور سلنڈر سے باہر ذرا سا بھی نہیں آرہا تھا۔ وہ دونوں لاشعوری طور پر سلنڈر میں مختلف عجیب و غریب حرکات کررہے تھے جس سے واضح ہورہا تھا کہ وہ دونوں ہوش میں ہی نہیں ہیں۔ بالآخر وہ دونوں اپنے اپنے سلنڈر میں ایک طرف گر گئے تھے۔ سلنڈروں کے اوپر اچانک سپارکنگ شروع ہوئی اور پوری عمارت کے تاروں میں موجود کرنٹ کا بہاﺅ اسی طرف ہوگیا۔ ایک کان پھاڑ دینے والی آواز کے ساتھ عمارت میں آتشیں دھماکا ہوا اور ذرہ ذرہ خاک ہوگیا۔ مورگن کا فطرت کے ساتھ کھیل اس کی عبرت ناک شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا تھا۔