دروازہ کھولا ۔۔۔قصائی سلیم موٹا ہاتھ میں بڑی سی طشتری لیے کھڑا تھا لو بھائی مرسلین آج تمھاری بھابھی نے بہت عرصے بعد بہت مزیدار چکن قورمہ بنایا ہے ۔۔سوچا مل کے کھاتے ہیں ۔۔

ارم رحمان لاہور

طلوع آفتاب کے بعد سے محلے کی مسجد میں ایک اعلان کئ بار سننے میں آیا۔۔اعلان کچھ یوں تھا ۔۔۔
""محلے دارو!
ایک دوسرے کے رشتے دارو! اللہ کے پیارو!
ہمارے محلے کے یتیم و مسکین
میاں مرسلین کی اکلوتی بیوہ مرغی فربہی مائل ،اکڑیلی ، نخریلی کالے پروں والی نام حسینہ اور اس کے دائیں پنجے میں لال ڈوری بندھی ہے ، کافی دنوں سے کڑک ہو چکی تھی ، اچانک کل رات دڑبے سےغائب ہوگئ ہے اگر کسی کو ملے یا کسی کی نظر پڑے تو فورا مرسلین میاں کواطلاع دے کر ثواب دارین حاصل کرے۔۔وہ بہت اداس ہیں ۔۔۔۔ کڑک سمجھ کے ذبح کرنے والے کو ہضم نہیں ہوگی یاد رکھنا"""
مولوی صاحب نے سن کر لیت و لعل سے کام لیا لیکن جب پیارے سے مرسلین میاں نے آٹھ آنسو بہائے اور چار پیسے ہاتھ میں رکھے تو چارو ناچار مولوی صاحب کو اعلان کرنا پڑا اور اس اعلان کے بعد مولوی صاحب سارا دن کسی کو نظر نہیں آئے ان کی جگہ ان کے شاگرد نے مسجد سنبھالی
مرسلین میاں پورے محلے کے چہیتے لاڈلے تھے اپنے بابا کے مرنے کے بعد ان کی پرچون کی دکان اور نکڑ کے مکان کے تن تنہاوارث اپنی اماں کےساتھ ہنسی خوشی رہ رہے تھے
دیکھنے میں بھی بہت پیارے گورے چٹے من موہنی صورت والے بھورے۔گھنگریالے بال منحنی وجود اور درمیانہ قد۔۔اور اللہ نے نظر بد سے بچانے کا انتظام۔خود ہی کردیا تھا دائیں گال کے وسط میں کالا مسسہ نظر بٹو کا کام کرتاتھا اور شوق بھی ایسے کہ شوق سے زیادہ سر درد ، ایک سال تک بکری پالی۔۔اماں جی کی مفت کی بے گار۔۔۔ سارا دن اس کی مینگنیاں صاف کرتے گزرتا پھر چارہ پانی
۔۔خیر بقرعید پر پکاکے کھالی
پھر بلی لے آئے اور گھر کے چوہوں کی شامت اور بلی بی کی ضیافت کے علاوہ گھر میں ہر جگہ بدبو اور بلی کے بچوں کا ڈھیر
اماں جی نے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تو آدھ درجن چوزے لے آئے ایک کونے میں دڑبا بنایا اور لگ گئے ان کی دیکھ بھال میں ۔۔
ایک پیر دکان میں دوسرا گھر میں
ہر وقت کا گھڑی پھیرا
لیکن معصوم چوزے دل بہلانے کا سامان تھے۔۔ بیمار پڑے تو اماں نے دو دن میں دو چوزوں کی یخنی بنادی۔۔ایک کو بلی لے گئ ایک قضائے الہیٰ سے وفات پاگیا اب رہ گئے ایک مرغا اور مرغی اور چھ ماہ کی کھلائی پلائی دیکھ بھال نے انھیں جوان کر دیا۔۔۔ اور مرغا گبرو اور مرغی حسینہ ہنسی خوشی رہنے لگے
پھر سردیوں میں انڈے کھانے کو ملے تو انسیت اور بڑھ گئ
بس ایک دن گبرو پھڑکا ۔۔تڑپا اور اللہ کو پیارا ہونے کے قریب ہوا تو
اماں نے ذبح کروادیا اور دونوں ماں بیٹا نے چکن پلاؤ کھاکر فاتحہ پڑھ لی۔۔
اب رہ گئ کڑک حسینہ ۔۔مرسلین میاں کی تنہائی کی ساتھی۔۔ آج وہ بھی غائب ہوگئ۔۔
مرسلین میاں کی بے بسی،
بے چارگی قابل دید تھی۔۔۔
فجر کے وقت دڑبا دیکھا تو حسینہ کو نا پاکر بدحواس ہوئے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا ۔۔وہ۔نہیں ملی۔۔ پھر مسجد دوڑے مولوی صاحب انکاری ہوئے کہ یہ کوئی اعلان ہے
چار پیسے دیے آٹھ آنسو بہائے
مولوی صاحب کو ترس آگیا اور مرسلین میاں کا تحریر شدہ اعلان تین چار بار جوں کا توں کیا اور تنگ آکر اپنے گھر کو نکل لیے۔۔۔
مرسلین میاں منہ لٹکائے
گھر پہنچے تو اماں نے بیٹے کی اتری صورت دیکھی تو فورا پراٹھا چائے پیش کی ۔۔ وہ کھانے کے بعد مرسلین میاں دکان کی بجائے اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑ گئے گھنٹہ بھر بعد پھر اماں کو فکر ہوئی کہ بچہ غم سے نڈھال ہے فورا" سویاں پکائیں ۔۔میوے ڈال کر ۔۔۔ پیار پچکار سے بیٹے کو کھلائیں ۔۔
مرسلین میاں دکان پہ جانے کو راضی نہیں تھے ۔خیر اماں جی بھی چپ ہورہیں دوپہر کو گرماگرم آلو انڈوں کا سالن دو گھی میں چپڑی روٹیوں کے ساتھ دیا خیر مرسلین میاں کی کچھ ڈھارس بندھائی اور آرام کرنے کو کہا اور مرسلین میاں کھاناکھا کے قیلولے کے چکر میں تین گھنٹے سوتے رہے
اور خواب میں بھی خود کو اپنی کالی حسینہ کے پیچھے دوڑتے بھاگتے دیکھا۔۔کبھی اسے دانہ چگتے دیکھا کبھی اسے موٹی روٹی کے چھوٹے ٹکڑے کھلاتے دیکھا کبھی گوبھی کے پتے کبھی کیڑے مکوڑے غرضیکہ تین گھنٹے حسینہ کی فلم چلتی رہی اور شاید جب فلم ختم ہوئی یا خواب میں حسینہ نظروں سے اوجھل ہوئی تو مرسلین میاں کی آنکھ کھل گئی دیکھا تو مغرب کا وقت ہوگیا تھا
دل گرفتہ ہو کر اٹھے وضو کیانماز پڑھی۔۔اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کے دعا کی یا مولا جو تجھے منظور۔۔ اور پھر چارپائی پکڑلی
7 بجے کے تھوڑا بعد دروازے کسی نے کھٹکھٹانے کی بجائے توڑنے کی کوشش کی تو اٹھ کے دوڑے دروازہ کھولا ۔۔۔قصائی سلیم موٹا ہاتھ میں بڑی سی طشتری لیے کھڑا تھا لو بھائی مرسلین آج تمھاری بھابھی نے بہت عرصے بعد بہت مزیدار چکن قورمہ بنایا ہے ۔۔سوچا مل کے کھاتے ہیں ۔۔ مرسلین میاں بادل نخواستہ اسے کمرے میں لے آئے
دسترخوان بچھایا
چکن قورمہ دہی کارائتیہ ۔۔سلاد اورگرم گرم نان سلیم موٹے نے فورا" ایک ران نکلالی اور مرسلین میاں کی پلیٹ میں ڈال دی ران دیکھ کر میاں مرسلین کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ اگر آج میری حسینہ پکتی تو اس کی ران بھی ایسی ہی ہوتی! دسترخوان بچھایا
چکن قورمہ
اگر آج میری حسینہ پکتی تو اس کی ران بھی ایسی ہی ہوتی!