ارے بھئی خوش خبری....!! تیسرے نمبر والے فہیم میاں جو ابھی کنوارے ہی تھے اور چھت پر کن سوئیاں لے رہے تھے، تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے نیچے آئے اور بولے :” برابر والی گلی میں غفار چاچا کا بیل ذبح ہو گیا ہے۔ بس تھوڑی دیر میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ام محمد سلمان

” ائے میمونہ.... کدھر ہو؟ ارے بھئی جلدی سے آٹا گوندھ کے دو تین پھلکے ڈال کر رکھ دو۔ فیاضن کے گھر سے کلیجی آتی ہی ہو گی بس۔“ اماں بی اپنے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے چھوٹی بہو سے مخاطب ہوئیں۔
” جلدی کر لو میمونہ! بھوک سے دم نکلا جا رہا ہے سچی! ایک تو یہ دل نگوڑا ایسا چٹورا ہے کہ بقرعید کے دن کلیجی سے کم پہ تو راضی ہی نہیں ہوتا۔ کہنے کو گھر بھرا پڑا ہے نعمتوں سے.. مگر مجال ہے جو منہ میں ایک دانہ بھی گیا ہو یا ایک گھونٹ چائے ہی حلق سے اتری ہو صبح سے... بس بھئی کھائیں گے تو کلیجی ہی کھائیں گے، وہ بھی اپنی فیاضن کے گھر کے پلے دنبے کی!
اے ماشاءاللہ اب تک تو قربانی ہو گئی ہو گی۔ کل ملی تھی تو کہہ رہی تھی صبح آٹھ بجے ہی قصائی آ جائے گا ان شاء اللہ! لو بس فیاضن کا پوتا آتا ہی ہوگا کلیجی لے کے... وہ کہتے کہتے پھر ڈیوڑھی میں جا کھڑی ہوئیں اور ادھر ادھر جھانکنے لگیں ۔
” ارے کلیم! ذرا ادھر تو آؤ... یہ معراج بھائی کا بیل بھی ابھی تک ایسے ہی کھڑا ہے۔ کوئی ہائے ہُلّا نہیں گلی میں۔ ارے بھئی کیا مسئلہ ہو گیا ذرا پوچھو تو جا کر... آخر پاس پڑوس کا معاملہ ہے۔ ایسی بے نیازی اچھی نہیں (وہ بھی بقرعید کے موقع پر) ۔
کلیم میاں موڑھے پر بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ منمناتی آواز میں بولے... ”ابھی دیکھ آتا ہوں اماں بی! ذرا چائے پی لوں ۔“
” ائے کلیم میاں! بھاڑ میں جائے یہ چائے کی پیالی! یہاں ہمارا بھوک سے دم نکل رہا ہے اور تمہیں چائے کی پڑی ہے۔“ ” اماں بی! آپ بھی حد کرتی ہیں ایمان سے... اب گلی میں جا کر پوچھتا کیا اچھا لگوں گا کہ قصائی کیوں نہیں آیا ابھی تک؟ واہ بھئی واہ! مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہو جائے گا۔
اور یہ بھوکی کیوں بیٹھی ہیں آپ؟ دیکھیں تو شمسہ نے کیسا مزیدار زردہ بنایا ہے چاولوں کا۔ کھا کر دیکھیے نا...!!! سب بھول جائیں گی کلیجی ولیجی...! کلیم نے چمچ بھر کے زردہ منہ میں رکھا اور اوپر سے چائے کی چسکی لی... واہ مزہ آ گیا! زردہ بنانے میں تو ہماری بیگم شمسہ کا جواب نہیں!“ ہونہہہہہ... اماں بی نے منہ پھیر لیا...!! یہ بے وقت کی راگنی انھیں پسند نہیں آئی ۔ ویسے بھی دل تو اس وقت دنبے کی بھنی ہوئی گرما گرم، خوشبو دار، چٹ پٹی کلیجی میں اٹکا تھا۔ جو ابھی تک آئی نہیں تھی اور وہ کب سے راہ تکے جا رہی تھیں۔
” اری گڑیا ادھر آؤ!“ اب کی بار پوتی کو آواز لگائی... ” اماں بی! ذرا ٹھہر جائیں میں میک اپ تو کر لوں! نئے چمکیلے جوڑے پر یہ دھلا دھلایا سا منہ بھلا کہاں اچھا لگے گا۔ بس ابھی آئی تھوڑا سا ہائی لائٹر لگا لوں...!“ ” آئے ہائے گڑیا... اس لائٹر سے آگ نہ لگا لی مکھڑے کو۔“ اماں بی بھوک سے بلبلا کے جل کر بولیں ۔ اماں کو آگ بگولہ دیکھ کر میمونہ دوڑی چلی آئی...” اما‍ں بی! آپ کو زیادہ بھوک لگ رہی ہے تو میں رات کا سالن گرم کر دوں؟ “
” ارے کہہ دیا نا نہیں! بس کلیجی ہی کھانی ہے۔ نہ جانے فیاضن کا پوتا کہاں رہ گیا! وہ دوپٹے سے پسینہ رگڑتے ہوئے پریشانی سے بولیں اور دھم سے کرسی پہ بیٹھ گئیں۔
” ارے صفوان! ایک گلاس ٹھنڈا پانی لا کر پلاؤ جلدی... گرمی بھی تو کیسی شدید ہو رہی ہے میرے اللہ! انھوں نے چھت سے لٹکے پنکھے کی طرف احتجاجی نظروں سے دیکھا جو اچھا خاصا تیز چل رہا تھا مگر اتنی گرمی کا مقابلہ روم کولر نہیں کر پا رہے تو بے چارہ پنکھا کیا کرے! یہ لیں اماں بی! ٹھنڈا ٹھار پانی!! صفوان اسٹیل کا چمک دار گلاس لیے ان کے سامنے کھڑا تھا۔ پانی پیا تو کچھ جان میں جان آئی۔
” ارے اماں بی آپ سے کس نے کہا تھا اپنی قربانی عید کے دوسرے دن پر ڈال دیں۔ اچھا بھلا قصائی نے دوپہر ایک بجے تک آنے کا کہا تھا... مگر آپ کی ضد کہ قربانی صبح سات بجے ہی کرنی ہے چاہے باسی کو کرنی پڑ جائے ۔ کلیم میاں اس بار اعتراض کیے بنا رہ نہیں سکے۔
” تو مجھے کیا پتا تھا میرے بچے کہ یہ سارے پڑوسی بھی اپنے جانوروں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں گے۔ غضب خدا کا... ابھی تک دائیں بائیں کسی کا جانور نہیں گِرا، اور یہ اپنے معراج بھائی تو عید کی نماز پڑھتے ہی قصائی کو ساتھ لے آتے تھے، اب کی بار جانے کیا ہوا“ انھوں نے اپنے گلابی اور سفید پھول دار سوتی دوپٹے سے ایک بار پھر چہرے سے پسینہ صاف کیا۔
” اماں میں ابھی باہر سے آ رہا ہوں۔ معراج چاچا کہہ رہے تھے کہ ان کا قصائی سہ پہر تین بجے تک آئے گا۔ اور بھائی مستقیم کی اہلیہ کی طبیعت خراب ہو گئی ہے اس لیے وہ بھی قربانی کل پر لے گئے کہ جب بھابھی ہی ٹھیک نہیں تو گھر میں سنبھالے گا کون! اکیلے مستقیم بھائی کے بس کی تو بات نہیں پوری بچھیا کا گوشت بانٹنا اور فریزر میں حصے بنا کر سنبھال کر بھی رکھنا۔“ کلیم میاں سے چھوٹے سلیم میاں وہیں پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
” ارے بھئی خوش خبری....!! تیسرے نمبر والے فہیم میاں جو ابھی کنوارے ہی تھے اور چھت پر کن سوئیاں لے رہے تھے، تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے نیچے آئے اور بولے :” برابر والی گلی میں غفار چاچا کا بیل ذبح ہو گیا ہے۔ بس تھوڑی دیر میں گوشت بن کر آ جائے گا۔ ارے بھابھی جان! مسالے وغیرہ تیار کر لیں، لہسن ادرک پیس کر رکھ لیں ، پیاز کاٹ لیں ... بس گوشت آتے ہی فوراً ہانڈی چڑھا دیجیے گا۔ بھوک تو مجھے بھی بہت شدت کی لگی ہے۔“
” ہاں ہاں میں سب تیاری کر رہی ہوں آپ لوگ فکر نہ کریں“ میمونہ بھابھی خوش دلی سے بولیں۔
اماں بی باورچی خانے میں گئیں تو دیکھا شمسہ اور میمونہ نے سب مسالے تیار کر کے رکھے ہیں۔ پتیلا بھی چولہے پر رکھا تھا۔ بس گوشت آنے کی دیر تھی۔” بھئی عید الاضحٰی کے یہ دن تو اللہ میاں کی طرف سے ہم مسلمانوں کی ضیافت کے دن ہیں، تب ہی تو مجھے اتنا مزہ آتا ہے بقرعید کا گوشت کھانے میں۔ سچ کہتی ہوں بہو! زندگی گزر گئی مگر جو ذائقہ اور لذت ان قربانیوں کے گوشت میں ہوتی ہے وہ اور کہیں نہیں ملتی۔“ دونوں بہوؤں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
” اماں بی! میں تو کہہ رہا ہوں غفار چاچا کے ہاں سے جو گوشت آئے اس کا پلاؤ بنوا لیجیے گا۔ بڑا ہی دل چاہ رہا ہے خوشبو دار باسمتی چاولوں کا پلاؤ کھانے کو۔ چاول تو میں نے دو دن پہلے ہی لا کر رکھ دہے تھے۔ ایسے زبردست اے ون کوالٹی کے چاول لایا ہوں اماں بی! آپ کھائیں گی تو طبیعت باغ و بہار ہو جائے گی ان شاء اللہ ۔“
” ارے واہ میرا بچہ! صدقے جاؤں! انھوں نے خوش ہو کر بیٹے کی بلائیں لیں۔ بیٹا یہی بات تو لوگ جانتے نہیں کہ بریانی اور پلاؤ کا ذائقہ بڑھانے کے لیے چاولوں کا انتخاب بہترین ہونا چاہیے۔ جتنے اچھے چاول اتنا اچھا پلاؤ اور بریانی۔ “
” ویسے غفار چاچا کا تو بیل بھی بڑا تگڑا تھا ماشاءاللہ! پانچ چھے من کا تو لازمی ہوگا۔“ کلیم میاں نے سب کی معلومات میں اضافہ کیا۔ ارے ہاں بیٹا! جانور چھوٹا ہو یا بڑا... بس اللہ تعالیٰ ہم سب کی قربانیاں قبول فرمائے۔ اماں بی نے بڑے جذب سے کہا۔ آمین
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی... ارے جلدی دیکھو! فیاضن کا پوتا آیا ہوگا کلیجی لے کر ۔ اماں بی شوق و مسرت سے بولیں ۔
سلیم میاں دروازے پر گئے تو منہ لٹکائے واپس آئے اور بولے...” فقیر تھے اماں بی! گوشت مانگنے آئے تھے۔“ اسی اثنا میں ان کی نظر گھڑی پر پڑی... لو بھئی بارہ بج گئے اور یہاں کلیجی کا نام و نشان نہیں۔ ائے شمسہ ذرا فون لگاؤ فیاضن کو، پوچھوں تو سہی کیا معاملہ ہوا۔ اور جو اطلاع فون پر ملی وہ ان کا بی پی لو کرنے کے لیے بہت کافی تھی۔ فیاضن کے ہاں اچانک مہمان آ گئے تھے اور ساری کلیجی صبح ہی صفا چٹ ہو گئی تھی۔ بے چارہ شرمندہ شرمندہ سی معذرت کررہی تھیں کہ اپنی سہیلی کے لیے کلیجی نہیں بھیج سکیں اور گوشت بھی وقت پہ نہیں بنا۔ قصائی کلیجی نکال کر دے گیا کہ ابھی آکر باقی کام کرتا ہوں!
اماں بی کا سارا جوش اور ولولہ جاتا رہا۔ گھڑی بھر کو تو چپ پی لگ گئی۔ پھر مری مری سی آواز میں بولیں... لاؤ بہو! دو چمچ زردہ ہی لا دو. ان پیٹ میں دوڑتے چوہوں کو تو کچھ سکون ملے ۔ ” ارے اماں بی آپ فکر نہ کریں بس غفار چاچا کے ہاں سے گوشت آتا ہی ہوگا۔ پلاؤ کھائیں گے مزے سے! “ اماں بی نے بجھے دل سے دو لقمے زردے کے لیے۔ اور دل ہی دل میں تہیہ کیا کہ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں کرنی۔ اپنی قربانی پہلے دن ہی کرنی ہے ان شاء اللہ!
تھوڑی دیر سب ساتھ بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، اذان ہوئی تو سب نماز پڑھنے چل دیے۔
دوپہر کے ڈھائی بج گئے سب لوگ نماز پڑھ کے بھی کب کے واپس آ گئے مگر غفار چاچا کے ہاں سے ابھی تک گوشت نہیں آیا تھا۔
” ارے بھئی کیا بات ہو گئی آج؟ بقرعید کا پہلا دن، مسلمانوں کا ملک، مسلمانوں کا محلہ، چاروں طرف سب کے جانور آئے تھے اور گوشت ابھی تک کہیں سے نہیں آیا...!! الٰہی خیر! یہ کیا ہو گیا ہے سب کو۔“ ” ہاں اماں بی! اب تو دائیں بائیں تین چار قربانیاں اور بھی ہو چکیں مگر گوشت نہ جانے کیوں نہیں آیا ابھی تک کہیں سے بھی!!“ کلیم میاں کو بھی تشویش ہوئی۔
” وہ میں غفار چاچا کے چھوٹے بیٹے سے ملا تھا مسجد سے واپسی پر.. بتا رہا تھا اس بار سارا گوشت سوزوکی میں بھر کے غریبوں کی بستی میں بھجوا دیا ہے۔ بس اپنے گھر اور خاص خاص رشتے داروں کے لیے جو رکھا سو رکھا، باقی سب غرباء میں بانٹ دیا۔“ فہیم نے اطلاع دی۔
” ائے غضب خدا کا... مانا کہ غریبوں کا حق اپنی جگہ مگر پڑوسی کیا ہوئے بھئی؟؟ کیا بقرعید کے گوشت میں پڑوسیوں کا کوئی حصہ نہیں! سب تعلق داروں اور غریبوں میں بٹ رہا ہے۔“ اماں بی انتہائی دکھی لہجے میں بولیں ۔
” ائے شمسہ بیٹی! میرے لیے ایک گلاس شکنجبین بنا لاؤ ذرا... ارے بھئی میمونہ! تم یوں کرو رات کی سبزی گرم کر لو اور دو چار انڈوں کا آملیٹ بنا لو... چلو جلدی کرو شاباش... بھوک سے دم ہی نکلا جا رہا ہے ایمان سے....! اماں بی نے اپنے گلابی اور سفید دوپٹے سے ایک بار پھر پسینہ صاف کیا... اور کسی کو خبر نہ ہو سکی پسینے کے قطرے زیادہ تھے یا آنسوؤں کے....!