عمارہ فہیم

کھلے صحن میں پلنگ بچھا ہوا تھا ، مومنہ و اریبہ دونوں عصر کی نماز سے فارغ ہوکر ساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھیں ۔

”مومنہ ! میں کیا سوچ رہی ہوں۔“

اریبہ نے بسکٹ چائے میں ڈبو کر منہ میں ڈالتے ہوئے پر سوچ لہجے میں کہا، تو مومنہ اسے حیرت سے دیکھنے لگی ۔

”کیا ہوگیا ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟“

اپنی طرف مومنہ کو ایسے دیکھتے ہوئے دیکھ کر اریبہ نے آبرو اچکا کر پوچھا ۔

 ”میں دیکھ رہی ہوں کہ تم سوچتی بھی ہو؟ اتنی عقلمندی اور سمجھداری والے کام کب سے کرنے شروع کردیے۔“

مومنہ نے آہستہ آہستہ جملہ مکمل کرکے اپنی زور دار ہنسی روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھا اور اربیہ نے پاس پڑا کشن اٹھا کر مومنہ کے مارا جو مومنہ سے ٹکراتے ہوئے کمرے کے دروازے کے بیچ میں جا گرا، ابھی دونوں کی جنگ شروع ہی ہوئی  کہ اندر سے آواز سنائی دی ۔

”لڑکیوں !دماغ خراب ہوگیا ہے کیا !جو تکیے بستر اٹھا اٹھا کر پھینک رہی ہو ، لگتا ہے کھال مسالامانگ رہی ہے یا پھر دماغ کو علاج کی ضرورت پیش آگئی ہے ۔“

 

مومنہ اور اریبہ کی امی جو کچن میں اپنے کام میں مصروف تھیں، کسی کام سے باہر آئیں تو عین ان کے سامنے کشن دروازے پر جا گرا ، بس اب تو دونوں کی خیر نہیں تھی ، اس لیے ماؤں سے صلح کرنے میں ہی دونوں کی  بچت اور خیر تھی ۔

 

” نہیں نہیں! چچی وہ تو بس ایسے ہی گر گیا ۔“

اریبہ نے صلح کے لیے پہل کی ۔

”ہاں پیر لگ گئے نا کشن کے ۔“

مائیں تو مائیں ہوتی ہیں ان سے کون جیت سکتا ہے اریبہ معذرت کرتے ہوئے چپ ایک کونے ہوگئی۔

” ماں! یہ تو اریبہ کی بچی نے پھینکا ہے ، ایسے ہی ساری چیزیں پھیلاتی ہے یہ ، اور تائی جان بھی اس پر خوب غصہ کرتی ہیں ، مگر مجال ہے جو یہ سمجھے ۔“

 

مومنہ کو اریبہ کے تاثرات کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیےبغیر اسے دیکھے جلدی جلدی بول کر بات پوری کرتے ہوئے کشن ماں سے لینے لگی ۔

”بڑی آئیں! اریبہ یہ کرتی وہ کرتی ، خود کیا کرتی ہو ، خود بھی کم نہیں ہو ، دونوں ایک جیسی نالائق لڑکیاں آگئیں اس گھر میں ۔“

”سوری چچی ! سوری ماں ! آئندہ ہم خیال رکھیں گے ۔“

ماں نے دونوں کی اچھی سے رگڑائی کی ، تو جلدی سے دونوں نے معافی مانگی تو ماں کچن کی طرف واپس چلی گئیں ۔

 

بہت سی لڑکیاں یہ سمجھتی ہیں کہ مائیں ڈانٹ ڈپٹ کرکے ظلم کررہی ہیں ، یہ ظلم نہیں یہ تو ہماری بھلائی ہوتی ہے ،تاکہ کوئی اور ہمارے کاموں میں نقص نکال کر ماؤں کی تربیت یا ہماری اپنی ذات پر انگلی نہ اٹھائے ،

کہتے ہیں نا ! جس برتن کو جتنی اچھی طرح مانجا جائے، رگڑا جائے اس میں اتنی ہی چمک پیدا ہوتی ہے، اچھی مائیں ہمیشہ اپنی بیٹیوں کو پالش کرتی ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں نکھارتی ہیں ، ان کی ڈانٹ میں بھی بہت سا پیار چھپا ہوتا ہے، ایسا قیمتی پیار جو کہیں اور ہمیں نہیں مل سکتا ، اس لیے والدین کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے ، ان کی ہر بات کو بہت توجہ اور دھیان سے سننا چاہیے۔

 

ماں کے جانے کے بعد مومنہ نے اریبہ کو پکارا ۔

”یہ تو بتاؤ کیا سوچ رہی تھیں ۔“

”نہیں بتاتی ، تم کرلو اپنے ڈرامے ۔“

”اچھا بابا سوری! چلو اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھیں ، وہ تو بس مذاق کررہی تھی میں ۔“

”ہونں ! مذاق کررہی تھیں ۔

 

سنو اب ! میں سوچ رہی تھی کہ تم اتنی اچھی ڈیزائننگ کرتی ہو ، کیوں نا اس کا کوئی کورس کروانا شروع کردو، اس طرح تمہارے کام میں نکھار بھی آ جائے گا اور کسی کا فائدہ بھی ہوجائے گا ۔“

اریبہ نے ایک مخلص دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اچھا آئیڈیا دیا تھا ۔

”ارے واہ ! کیا آئیڈیا ہے ، یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا ۔“

”کیونکہ تم اریبہ کی طرح عقل مند نہیں ہو ۔“

 

امی ابو سے اجازت لے کر اریبہ اور مومنہ نے مل کر سب سے پہلے ایسا وقت مقرر کیا جس میں گھر والوں کو بھی مسئلہ نہ ہو اور ان کی پڑھائی کا بھی حرج نہ ہو ، پھر کورس کی تشہیر شروع کردی ، اس طرح ابتدامیں دو تین طالبات نے رجسٹریشن کروالی ۔

 

”آج ہماری طالبات کا پہلا دن ہے تو سب چیزیں تیار ہیں نا! “

مومنہ نے اریبہ کو پلنگ کھڑی کرکے چادر بچھا کر مومنہ کی طرح میٹ پھر اخبار اور رف کپڑا بچھا کر سب چیزیں سیٹ کرتے ہوئے دیکھا ۔

”ارے واہ میری پہلی اسٹوڈنٹ تو بڑی جلدی سب سیکھ گئی ہے بھئی ! “

”ویری فنی! یہ بتاؤ آج کی کلاس میں کیا سکھاؤ گی ۔“

”ظاہر ہے آج پہلی کلاس ہے ، تو سامان سے تعارف کرواؤں گی ، پھر کچھ ہم رنگوں کی سنیں گے اور کچھ ہم اپنی سنائیں گے ، اس کے بعد رنگوں سے کھیل کھیل میں بہت قیمتی اور خوبصورت چیزیں بنائیں گے ۔“

جب تک لان کلاس کا نقشہ پیش کرنے لگی، طالبات بھی آگئی تھیں ، حال احوال اور آپس کے مختصر تعارف کے بعد مومنہ نے سب کا تعارف رنگوں کی دنیا سے کروانا شروع کیا۔

 

”طالبات! رنگوں کی اس دنیا میں آپ سب کو خوش آمدید! ہم ان رنگوں، ٹرے، برش وغیرہ سے تب ہی کچھ انوکھا اور اچھا تیار کرسکتے ہیں، جب ہم ان سے دوستی کرلیں ، اور جس وقت ہم ان سے دوستی کرلیں گے نا! تو جان لیں ارد گرد کے رنگ ، لوگ اور موسم کو سمجھنا ہمارے لئے آسان ہوتا جائے گا ۔

اس لئے آج ہم رنگوں کی دنیا میں استعمال ہونے والی چیزوں سے جان پہچان بنائیں گے ۔

 

کلر ٹرے: یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح مختلف رنگوں اور لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا جاسکتا ہے، ہر کوئی اپنے دائرے میں کیسے جی سکتا ہے ۔

رنگ : یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کون سا رنگ کس تاثر کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔

 

برش : یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح پھیکی سی زندگی کو رنگین کرکے بنایا جاسکتا ہے ، اور کس طرح غم کے بادلوں کو ہلکا کیا جاسکتا ہے۔

یہ سب چیزیں مل کر ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ مل جل کر جب کچھ کیا جائے یا زندگی گزاری جائے تو زندگی بہت خوبصورت ہوجاتی ہے ، جبکہ الگ الگ رہنے میں سب کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ان میں کوئی بھی چیز اکیلے کچھ نہیں کرسکتی ، اسی طرح ہمارے ارد گرد موجود ہر رشتہ بہت اہم ہے ، زندگی گزارنے کے لیے سب رشتوں کو ان کے الگ الگ خانے میں رکھ کر اگر زندگی کے برش سے رنگوں کو استعمال کریں تو زندگی بہت خوبصورت اور مثالی ہو جائے گی ۔“

 

مومنہ نے رنگوں سے تعارف کروانے کے ساتھ روشن قندیلوں کو رشتوں کی خوبصورتی بھی بہت ہی اچھے انداز میں سمجھائی تو ہر ایک کے چہرے پر اتنی ضروری باتیں جان کر الگ ہی خوشی تھی ۔

 

پیچھے کھڑی مائیں بہت مطمئن تھیں کہ ان کی بچیاں ایک اچھی جگہ آئی ہیں جہاں سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ۔

 

دوسری طرف اریبہ مومنہ کو داد بھری نگاہوں سے دیکھ کر سراہ رہی تھی ، اور واقعتا مومنہ سراہے جانے کے لائق تھی کیونکہ اس کی ماں نے اس کی بہت اچھی تربیت کی تھی اور اب وہ  دوسروں کی  تربیت کے  لیےکمر کس چکی تھی ۔