عمارہ فہیم

بچیاں مس سبزہ زار سے ملاقات کرکے بہت خوش تھیں ، اپنے پیارے پرچم کی اہمیت کو جاننے کے بعد اب وہ آج ہونے والے منفرد کام کو دیکھنے اور دیکھ کر سیکھنے اور سیکھ کر اسے عمل میں لانے کے لیے بے تاب تھیں ، اس لیے مومنہ بھی بغیر تاخیر ایک بار پھر رنگوں والی نشست کی طرف متوجہ ہوئی اور اس نے ہاتھ میں چھپی رنگ کی بوتل کو آگے کرکے بچیوں سے پوچھا :

”جی تو بچیو! کون سا رنگ ہے یہ ؟“

سب نے بیک زبان کہا :

” ہرا ہرا ۔“

مومنہ مسکرائی ۔

”جی ! مس سبزہ زار کے جیسا ہرا ہرا رنگ ! اور اب ہم مس سفیدی اور مس سبزہ زار کے ان رنگوں کو پہلے کپڑے پر استعمال کرنے کا طریقہ سیکھیں گے اور پھر برش کو پکڑنا اور اسے چلانا ، اس کے لیے پہلے لکیریں بنانا اور لکیروں سے باکس اور پھر لیو(پتا) بنانا سیکھیں گے ، تو چلیں ! ہم اپنا کام شروع کرتے ہیں ۔“

مومنہ نے بچوں کے شوق کو مزید ابھارنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہی، سب بچیاں الرٹ ہوکر بیٹھی ہوئی تھیں ۔

مومنہ نے کلر ٹرے کے ایک خانے میں دو ڈراپ سفید رنگ اور  دو سے تین ڈراپ بائینڈر ڈالا دونوں کو اچھی طرح مکس کیا ، اسی طرح دوسرے خانے میں دو ڈراپ ہرا رنگ اور دو سے تین ڈراپ بائنڈر ڈال کر مکس کیا۔ (کپڑے پر اپلائی کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ،ایک یا تو لکڑی کے فریم میں کپڑا لگا کر اس پر پینٹ کیا جائے یا پھر جو میٹ بچھا رکھا ہے اس پر کپڑے کو اچھی طرح پھیلا کر کارنر پر کوئی وزنی چیز رکھ دی جائے ، تو پھر آرام سے اپنا کام کیا جاسکتا ہے ۔) میٹ پر سفید رنگ کا کپڑا بچھایا اور کارنر پیپر ویٹ رکھ کر درمیان میں پن لگادیں تاکہ کپڑا کسی بھی حصے سے ہلے نہیں اور پینٹ خراب نہ ہو ۔

”جی طالبات! ہم اپنا کپڑا اچھی طرح سیٹ کرچکے ہیں اب ہم زیرو نمبر کا یہ برش لیں گے اور میں یہاں سب سے پہلے اس رومال نما کپڑے کے کنارے کنارے سفید اور ہرے رنگ سے سیدھی سیدھی لکیریں بناؤں گی ، اس کے بعد درمیان میں ایک اچھا سا ڈیزائن بنائیں گے لیکن آپ سب کا پہلا اسائمنٹ یہ ہے کہ اس پورے کپڑے پر فاصلے فاصلے سے سیدھی لکیریں بنائیں گی تاکہ برش پر گرفت مضبوط ہوجائے اور پینٹ کرتے وقت ہاتھ میں کپکپاہٹ نہ ہو ورنہ ڈیزائن خراب ہوجاتا ہے ۔“

مومنہ نے دو زیرو نمبر کے برش استعمال کیے ایک ہرے رنگ کے لیے اور ایک سفید رنگ کے لیے بار بار برش کو صاف کرنے سے رنگ بھی ضائع ہوتا ہے اور برش میں رہ جانے والا رنگ دوسرے کلر میں مکس ہوکر اسے بھی خراب کردیتا ہے ۔

اس نے رومال کے کناروں پر فاصلے فاصلے سے ہرے اور سفید رنگ کی سیدھی لکیریں بنائیں اور پھر درمیان میں پینسل کی مدد سے پاکستان کے جھنڈے کا اسکیچ بنایا اور دو نمبر کے برش کی مدد سے سفید حصے میں سفید اور ہرے حصے میں ہرا رنگ اس احتیاط سے بھرا کہ چاند اور ستارے والی جگہ پر رنگ لگ کر وہ نہیں ہوئی ( زیرو نمبر کے برش سے فلنگ صفائی سے نہیں ہوتی جبکہ دو یا تین نمبر کے برش سے فلنگ بہت اچھی ہوتی ہے البتہ اگر بہت باریک پتی ہو تو اس میں زیرو نمبر کے برش سے فلنگ کی جاسکتی ہے ) اور پھر چاند ستارے میں زیرو نمبر والے برش سے بہت احتیاط کے ساتھ سفید رنگ بھرا ۔

اس خوبصورت ڈیزائن کو تیار کرکے مومنہ طالبات کی طرف متوجہ ہوئی جو بہت انہماک سے سب دیکھ رہی تھیں ۔

”ہممم ! تو دیکھا آپ نے کہ ہم نے کس طرح سے سادے سے کپڑے کو خوبصورت پینٹ کرکے دلکش بنا دیا ، اب آپ سب ایسے رومال کے سائز کے دو کپڑے لیں گی اور ایک پر اس طرح فاصلے فاصلے سے سیدھی لکیریں بنائیں گی جبکہ دوسرے کپڑے پر ایک سیدھی کھڑی لکیر اور ایک لیٹی ہوئی لکیر کو ملا کر باکس( چوکور) بنائیں گی پھر اس باکس میں رنگ کو بہت احتیاط سے بھریں گی کہ رنگ باہر نہ آئے اور اندر بھی کوئی حصہ سوکھا نہ رہے ، جب ایک کپڑے پر آپ پینٹ کرلیں تو اسے کم از کم تین سے چار گھنٹے اور زیادہ سے ذیادہ تو چوبیس گھنٹے تک ایسے ہی سوکھنے دیں ، اس کے بعد آپ کپڑے کو الٹا کریں گی اور پیچھے کی طرف استری کریں  ( اس سے رنگ مضبوط ہوتا ہے ) ، تو آپ کے پاس اس طرح پیارے سے رومال پینٹ ہوجائیں گے ، اب رہ گئے اس کے یہ دھاگوں والے کنارے تو اس پر سلائی کی جاسکتی ہے ، اگر کڑھائی آتی ہے تو وہ بھی کی جاسکتی ہے ، اس طرح پیارے سے رومال تیار ہوجائیں گے ۔“

مومنہ نے بچیوں کو پریکٹیکل کرکے دکھانے کے ساتھ ہر بچی سے ورک کروایا تاکہ ان کی اصلاح کی جاسکے اور یہی نہیں انہیں بہت آسان ٹاسک بھی دیا تاکہ وہ جلد اور اچھا سیکھ سکیں ۔

”ٹیچر! اب اس کے بعد ہم کیا کریں گے ۔؟“

ایک بڑی بچی نے سوال کیا ۔

”جب تک آپ سب کا ہاتھ ان لکیروں اور فلنگ پر صاف نہیں ہوتا اس وقت تک ہم کلر تھیم کو سیکھیں گے اور ساتھ ساتھ ان لکیروں کی مدد سے نئی نئی چیزوں کو ڈرا کریں گے تاکہ جب ہم اپنی شرٹ وغیرہ پر آئیں تو ہمارا کام بہت پیارا اور خوبصورت ہو ، اس میں کہیں کوئی جھول نہ ہو ۔“

ویسے زندگی بھی تو کسی ورک و پینٹ وغیرہ سے کم نہیں ہوتی ، اس میں بھی اگر جھول، داغ آ جائے یا زندگی گزارنے کے طریقوں کے  خلاف زندگی گزاری جائے تو بھی ایسی زندگی بھی بے مول اور بد صورت ہوجاتی ہے ،جو دیکھنے والے کی آنکھوں کو تسکین دینے کی بجائے ایک بوجھ کی صورت اختیار کر جاتی ہیں ، جس طرح پینٹ ورک میں ہر اسٹیپ کا پرفیکٹ ہونا اور لکیروں اور فلنگ کا اچھا ہونا ضروری ہے اور یہ پریکٹس سے ہی بہتر ہوتا ہے اسی طرح زندگی کے جھول نکالنے کا بس ایک طریقہ ہے اور وہ ہے سنتوں کا اتباع کرتے ہوئے ، ٹوٹا پھوٹا جیسا آتا ہے بس پریکٹس کرنی ہے اور یہ پریکٹس ہی ان شاءاللہ ایک دن سارے کام کو پرفیکٹ کردے گی ۔

امید کرتی ہوں آج کی کہانی آپ کو اچھی لگی ہوگی ، اور آپ بھی رنگوں کے اس کھیل۔سے بہت کچھ سیکھ رہی ہوں گی ۔

اپنی آراء ضرور دیجیے گا ۔