جس طرح اس رنگوں کی دنیا میں چیزوں کی اہمیت ہے ویسے ہی کچن کی دنیا میں مسالوں کو بہت اہمیت حاصل ہے ، بہت سے کھانے ایسے ہیں جن میں زیادہ مسالے استعمال نہ بھی کریں تو چیز بہت اچھی بن جاتی ہے ، جیسے قیمہ ، اسے کم پیاز، ٹماٹر، نمک، مرچ ڈال کر بھی بنایا جاسکتا ہے

عمارہ فہیم کراچی

رات کے کھانے کے وقت جب ماں نے سالن دیکھا تو انہیں اس میں کچھ کمی لگی، ذائقہ اچھا تھا اس کے باوجود کوئی کمی تھی مگر کیا ؟
یہ تو مومنہ و اریبہ ہی بتا سکتی تھیں اور سب کے سامنے سوال کرنے سے بچیوں کی دل آزاری ہوسکتی تھی، (کہ اتنی محنت سے بنایا اور ماں کو اب بھی کمی لگ رہی ہے ) اسی لیے سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد چچی جان مومنہ کے کمرے میں آئیں جہاں دونوں لڑکیاں اس وقت بیٹھ کر کالج کا کام کیا کرتی تھیں ۔ سلام کرکے ماں اندر کمرے میں داخل ہوئیں ۔
”ماں ! آپ اس وقت !“
مومنہ نے حیران ہوکر سوال کیا ، اس وقت ماں ان کے کمرے میں بہت کم ہی آیا کرتی تھیں، کیونکہ یہ وقت دونوں بچیوں کے کالج کے کام کا ہوتا تھا ۔
”کیوں کیا میں نہیں آسکتی ؟“
ماں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے سوال پر سوال کیا ۔
”نہیں نہیں ماں ! یہ مطلب نہیں تھا ۔“
دونوں اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئیں اور ماں نے بغیر تمہید باندھے سوال کیا ،تاکہ بچیوں کا وقت بھی بچ جائے ۔ ”آج قیمہ دونوں میں سے کس نے بنایا ؟ “
”ہم دونوں نے مل کر بنایا تھا ، کچھ چیزیں اریبہ نے ڈالیں اور کچھ میں نے ۔“
مومنہ و اریبہ نے ایک دوسرے کو حیران ہوکر دیکھا ، دل میں دونوں کو لگ رہا تھا شاید ماں داد دینے آئی ہیں کیونکہ دسترخوان پر تو سب کو کھانا پسند آیا تھا ۔
”ہمم اچھا ! چلو بتاتی جاؤ دونوں میں سے کس نے کیا کیا ڈالا اور کیا کام کیا ؟“
ارے یہ کیا داد ملنے کے بجائے اب نیا سوال دونوں کے سامنے موجود تھا ۔
مومنہ و اریبہ نے اپنی اپنی ترتیب بتائی ۔
” اچھا شاباش! مرچیں ڈال دیں، لہسن ادرک، گرم مسالا، ٹماٹر ڈال دیئے۔ چلو اس کو چھوڑو پہلے یہ بتاؤ کہ آپ کی رنگوں کی دنیا میں سے اگر آپ کسی چیز کو ہٹا دو ، بھول جاؤ تو کیا اس سے کام میں کچھ اثر پڑے گا ؟؟ “
”جی چچی ! ضرور فرق پڑے گا ۔“
اریبہ نے جواب دیا ۔ ”فرق تو پڑے گا ، مگر کام پر بھی ڈپینڈ کرتا ہے کہ ہم کیا بنا رہے اور کررہے ہیں ؟ بعض کاموں میں کوئی چیز سکپ کرنے سے فرق نہیں پڑتا اور بعض کاموں میں پڑتا ہے .
اگر صرف شیڈ دینے ہیں تو بغیر بائنڈر وغیرہ ملائے ہلکا سا کلر ٹچ کرکے بھی دیا جاسکتا ہے ، دو رنگوں کو نقطہ کے برابر کسی کاغذ یا ٹرے پر لگاکر مکس کرکے شیڈ بنا کر لگا سکتے ہیں ۔ لیکن بہت سے کام ایسے ہیں جس میں کس بھی چیز کو سکپ نہیں کیا جاسکتا .“ مومنہ نے وضاحت دی ۔
”گڈ ! جس طرح اس رنگوں کی دنیا میں چیزوں کی اہمیت ہے ویسے ہی کچن کی دنیا میں مسالوں کو بہت اہمیت حاصل ہے ، بہت سے کھانے ایسے ہیں جن میں زیادہ مسالے استعمال نہ بھی کریں تو چیز بہت اچھی بن جاتی ہے ، جیسے قیمہ ، اسے کم پیاز، ٹماٹر، نمک، مرچ ڈال کر بھی بنایا جاسکتا ہے مگر یہ اس وقت بھنا بھنا ہی اچھا لگے گا ، زیادہ شوربہ نہیں رکھا جاسکتا جبکہ اگر شوربے والا سالن بنانا ہو تو پیاز تھوڑی زیادہ رکھی جائے گی اور نمک مرچ کے ساتھ پسا دھنیا پاؤڈر بھی ڈالا جائے گا اور مسالےکو اچھی طرح بھون کر شوربہ بنایا جائے گا، پیاز ، ٹماٹر، دھنیا ، دہی،ان سب سے مسالابنتا ہے ۔“
دونوں لڑکیاں توجہ سے ماں کی بات سن رہی تھیں ۔
”ماں! تو کیا ہم نے سالن ٹھیک نہیں بنایا ؟ “
مومنہ کے دل میں سوال کافی دیر سے اچھل کود کر رہا تھا ، اور بالآخر وہ زبان سے باہر آ ہی گیا ۔ ”کھانا آپ دونوں نے ماشاءاللہ بہت اچھا بنایا تھا ، بس ایک دو چیزوں کی کمی لگی ہے وہ آپ کو بتا رہی ہوں اس کو آگے سے یاد رکھنا، ایک تو یہ سالن میں کون سے مسالے استعمال کیے جاتے ہیں یہ یاد کر لو دوسرا کوئی بھی سالن ہو یا کسی بھی چیز کا مسالا ہو اسے اچھی طرح بھونا جاتا ہے ، اس سے کھانے کی رنگت اور ذائقے دونوں پر فرق پڑتا ہے ۔ جب مسالا کم بھونا ہوگا تو کھانے میں کچا پن محسوس ہوگا، آپ لوگوں نے کوشش اچھی کی تھی لیکن سالن کو تھوڑا سا اور بھونا جاتا تو اس کا ذائقہ اور بھی اچھا ہوجاتا ۔“
”شکریہ ماں! ہم آگے سے اس کا خیال رکھیں گی ۔“
دونوں نے ماں کا شکریہ ادا کیا ۔
اگلے دن کالج سے آکر مومنہ و اریبہ نے نماز ادا کرکے کھانا کھایا اور نئی کلاس کی تیاری کرنے لگیں ۔ طالبات اپنے وقت پر کلاس کے لیے آکر اپنی نشست پر بیٹھ چکی تھیں ، اور باری باری ہر طالبہ گزشتہ کلاس میں سیکھے گئے ہوم ورک مومنہ ہو چیک کروارہی تھیں۔
”ٹیچر ! آج ہم کیا کریں گے ؟ ہم نے فلاور بنانا اور لیو بنانا سیکھ لیے ۔“ کلاس کی سب سے شرارتی بچہ ضحی نے سوال کیا ، بظاہر کام کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی تھی، ہر ایک کو تنگ کرنے میں اسے بہت مزہ آتا تھا لیکن حقیقت سب سے ذہین بچی تھی ، سب سے اچھا کام اسی کا ہوتا تھا ۔ ”حیرت ہے آج ضحی صاحبہ سوال کررہی ہیں ، لگتا ہے آج کوئی نئی شرارت ذہن میں نہیں آرہی ۔“ مومنہ نے مسکراتے ہوئے آبرو اچکا کر ضحی کی طرف دیکھ کر کہا تو ضحی محترمہ دانتوں کی نمائش کرنے لگیں ۔ ”اب یہ ڈینٹونک کا اشتہار تو نہ دو ۔“
برابر میں بیٹھی ہوئی مریم نے منہ دبا کر کہا جسے ضحی میڈم کے کانوں نے سن لیا ۔ ”تمہیں کیوں تکلیف ہورہی ہے ؟ “
”مجھے تو کوئی تکلیف نہیں ہورہی ہاں البتہ ۔۔۔“ مریم بھی دو بدو جواب دے رہی تھی ۔
”ارے ارے ! یہ جنگ کیوں شروع ہوگئی بھئی، ایک تو بات کوئی نہیں ہوتی ہمیں لڑنا پہلے ہوتا ہے ۔“ اریبہ نے درمیان میں آکر بیچ بچاؤ کروایا ۔
”بچو ! آپس میں لڑنا جھگڑنا بہت غلط بات ہے ، اچھے بچے ہمیشہ مل جل کر رہتے ہیں ، یہ لڑائی جھگڑا کرنا اچھی عادات نہیں ہوتیں ۔“
مومنہ نے پیار سے سمجھایا تو مریم و ضحی دونوں نے معافی مانگی۔ ”ہممم! آج ہم پھولوں پتیوں کی مدد سے خود بغیر کسی چھاپے کے ہاتھ سے بیل بنائیں گے۔“ ” مگر ٹیچر ! وہ تو بہت مشکل ہوگا ، ہم کیسے بنائیں گے۔؟“ ضحی کے لہجے میں آج کے کام کو لے کر الجھن تھی ( اور ہونی بھی چاہیے بھلا! خود سے کوئی اتنی جلدی کیسے کوئی ڈیزائن بنا سکتا ہے؟ )
”لگتا ہے سب کو ٹینشن ہوگئی ہے، آج کے کلاس ورک کا سن کے ، کوئی بات نہیں جب میں نے شروع شروع میں یہ کام کیا تو مجھے بھی بڑی ٹینشن ہوتی تھی ، کہ کیا کروں کیسے کروں؟ مگر جب ہم پریکٹس کرتے ہیں تو عادت ہوجاتی ہے اور مشکل بھی نہیں لگتا ۔“
مومنہ نے مسکرا کر بچیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور پہلے بٹر پیپر شیٹ لی ، ایک کونے میں پہلے گلاب کا پھول بنایا ، پھول کے ایک طرف سے مد کی شکل میں پانچ سے چھ انچ لمبی ڈنڈی بنائی اور ڈنڈی پر فاصلے سے کراس میں پتیاں بنائیں ، پتیوں کے درمیان میں پیش کی شکل میں مڑی ہوئی چھوٹی چھوٹی سی ڈنڈیاں (شاخیں) بنائیں اب جہاں پہلے والی چھ انچ کی ڈنڈی( شاخ ) ختم ہوئی تھی وہیں دوبارہ ایک اور گلاب کا پھول بنایا پھول سے ساتھ اسی طرح پھر شاخ اور آخر میں پھر پھول بنادیا ۔
بٹر پیپر شیٹ کے ایک کونے سے شروع کیا گیا یہ ڈیزائن دوسرے کونے پر جاکر مکمل ہوچکا تھا اور ایک خوبصورت بیل تیار تھی ، لیکن مومنہ نے ڈیزائن کو یہیں پر روکا نہیں ۔
بلکہ اس نے شیٹ کا بیل والا حصہ نیچے کی طرف کرتے ہوئے اوپر کا خالی حصہ سامنے کیا اور وی کی شیپ میں چھ انچ کے گلے کا شیپ بنایا اور اب وہ شرٹ کے گلے کو ڈیزائن کرنے لگی تھی ۔
وی شیپ کی ہلکے ہاتھ سے لکیر بنانے کے بعد مومنہ نے وی کی سیدھی طرف والی لائن کے اوپر کنارے پر گلاب بنایا اور اسی طرح گلاب سے نیچے کی طرف ایک شاخ بنائی اور پھر ایک گلاب بنایا اس طرح وی کے ایک طرف کی بیل بن چکی تھی اب دوسری طرف کی بیل بنانی تھی، دوسری طرف بھی اسی طرح اوپر گلاب پھر شاخ بنائی لیکن یہاں شاخ کا سائز باقی کی شاخوں سے ایک ڈیڑھ انچ کم کرکے اور پھر گلاب بناکر دوبارہ سے شاخ کو وی شیپ کی نوک کے کراس میں ڈیڑھ دو انچ باہر نکال کر ختم کردی ۔
شیٹ کے درمیان درمیان میں فاصلے فاصلے سے چھوٹے چھوٹے ڈاٹ ڈال دیئے ۔ ”ٹیچر یہ ڈاٹ کیوں ڈالے ہیں ؟“
ایک چشمے والی بچی نے اپنا چشمہ ناک سے اوپر کرتے ہوئے سوال کیا ۔ ” اچھا سوال کیا ہے ۔
بچیو! یہ دامن اور آستین کی بیل ڈیزائن ہوگئی ، یہ اوپر شرٹ کا گلا ڈیزائن ہوگیا اور درمیان میں یہ جو ڈاٹ ہیں ، یہ اس لیے بنائے ہیں کہ اب آپ کے پاس آپشن ہے کہ چاہیں تو اس جگہ کو خالی چھوڑ دیں کچھ نہ کریں ، اور چاہیں تو یہاں چھوٹے چھوٹے پھول بنا سکتی ہیں ، فینسی کرنا ہے تو چپکانے والے نگ لگا سکتی ہیں ۔“ مومنہ نے بچی کے سوال کا بٹر پیپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ۔ ”واؤ ٹیچر! یہ تو بہت پیارا ڈیزائن بن جائے گا اور شرٹ بھی پیاری لگے گی ۔“ اسی چشمے والی بچی نے ایک بار پھر ناک پر جھولتا چشمہ اوپر کرتے ہوئے کہا ۔ ”جی ! واقعی یہ شرٹ پر بہت پیارا لگے گا ۔
مگر تب ہی جب ہم اس کا اصول یاد رکھیں گے ۔“
”کیسا اصول ٹیچر؟“
”ہم نے شروع میں جانا تھا کہ ہر کام کے کچھ اصول ہوتے ہیں ، جنہیں فالو کرکے ہم وہ کام بہتر انداز میں کرسکتے ہیں، ایسے ہی یہاں بھی ایک اصول ہے کہ کام کو احتیاط ، صبر اور اطمینان سے کریں گے ورنہ ساری محنت برباد ہو جائے گی ، کیونکہ ہلکا پیپر ہل گیا تو ڈیزائن خراب ، کلر پھیل گیا تو ڈیزائن خراب اس لیے صبر کا دامن تھام کر احتیاط سے کام کریں گے تو کام اچھا اور پیارا ہوگا ۔“
مومنہ نے ماں سے سیکھا ہوا آج کا صبر ، احتیاط و اطمینان کا سبق بچیوں میں بھی منتقل کیا تو بچیوں نے خوش دلی سے اسے قبول کیا ۔
”جی ٹیچر ! ہم یہ اصول یاد رکھیں گے ۔“
سب بچیوں نے بیک زبان کہا ۔
”چلو چلو ! اہم آگے کا ہم بعد میں سوچیں گے ابھی وقت کم ہے اور کام بہت ہے ، اس لیے ہم یہ ڈیزائن کپڑے پر بنائیں گے ، مگر کیا ہم دوبارہ سے شرٹ پر ایک ایک چیز سوچ سوچ کر بنائیں گے ؟ اس طرح تو وقت بہت لگ جائے گا ۔ اور اس پیپر پر ڈیزائن بنانے کا کیا فائدہ ہوا ؟ “
مومنہ نے دماغ پر انگلی رکھ کر بچیوں کی طرف دیکھ کر سوال کیا ۔ ”جی ٹیچر وہی تو ہم بھی سوچ رہے ہیں مگر سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ۔“ مریم نے بھی مومنہ کے انداز میں سر پر آنکھ کے کنارے سے کچھ اوپر انگلی رکھ کر سوچنے والے انداز میں انگلی کو پھیرتے ہوئے کہا ۔
”یہ بٹر پیپر تو ہمارے لیے بہت قیمتی ہوگیا ہے کیونکہ اس پر ہم نے ایک ڈیزائن ایجاد کیا ہے اس لیے ہم اسے تو محفوظ رکھیں گے ، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس ڈیزائن کو شرٹ پر کیسے لائیں؟ تو اس کے دو جواب ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم اس ڈیزائن کے کنارے پر باریک سوئی کی مدد سے باریک باریک سوراخ کرلیں اس طرح یہ ایک چھاپہ بن جائے گا جسے ہم باآسانی استعمال کرسکیں گے ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک ٹریس پیپر لیں اسے شرٹ پر احتیاط سے بچھائیں اور پھر اس ٹریس پیپر پر اس بٹر پیپر کو احتیاط سے رکھیں اور ڈیزائن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے کاپی کرلیں اس طرح سارا ڈیزائن شرٹ پر بن جائے گا ۔“ مومنہ نے ٹریس پیپر سے ڈیزائن شرٹ پر بناتے ہوئے بچیوں کو ڈیزائن کر شرٹ پر اتارنے کا طریقہ بتایا ۔ اور ڈیزائن مکمل ہونے کے بعد سب بچیوں کے بٹر پیپر پر باری باری یہ ڈیزائن کاپی کروا کر گھر سے یہ ڈیزائن شرٹ پر اتار کر لانے کا ہوم ورک دیا ، تاکہ انہیں خود سے ڈیزائن کاپی کرنا آ جائے ۔
ہوم ورک دینے کے بعد دعا پڑھ کر کلاس کا اختتام کیا گیا اور ساری چیزیں سمیٹ کر مومنہ و اریبہ شام کی چائے کی تیاری کرنے لگیں ۔