یہ خاندان تقریبات کا دیوانہ تھا۔ چھوٹی بڑی تقریبات اکثر منعقد ہوتی رہتیں ۔ مگر میں کبھی بے حجاب ہو کر کسی محفل میں شریک نہیں ہوئی۔ ہمیشہ بڑی چادر یا بُرقع پہن کر بیٹھتی اور کسی کو مجھ پر اعتراض کرنے کہ ہمت نہ ہوتی کیوں کہ میری مہربان ساس کا تعاون جو ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا تھا۔ دیور اور نند کی شادی میں، میں نے اماں سے کہا کہ مہندی مایوں کی تقریبات نہ کریں، ہندوانہ رسمیں ہیں اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے۔ مگر وہ کہنے لگیں اب ان سب کو میں کیسے روکوں؟ بس تم شرکت نہ کرنا

ام محمد سلمان


وہ گرمیوں کے دن تھے بہت لمبے لمبے اور اداس سے... امی بھی کہیں گئی ہوئی تھیں۔ گھر میں بالکل بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔ چھوٹے بہن بھائی بھی ہ جانےکہاں غائب تھے۔ گرمی کی شدت سے نڈھال میں ابھی نہا دھو کے بیٹھی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی... اور یہ بھی کیا ستم کہ مابدولت اس وقت ایک پرانا، بے رنگ سا سوٹ پہنے ہوئے تھے، چوں کہ اس وقت ایک تاریخی واقعہ رونما ہونے جا رہا تھا.... سو اگر ہوتا یہ کسی ناول یا ڈائجسٹ کا قصہ تو محترمہ ہیروئن صاحبہ ایک خوب صورت رنگ کا جوڑا زیب تن کیے، کالے سیاہ لمبے ریشمی بال کمر پر پھیلائے، بڑی بڑی ستارہ آنکھوں میں گہرا کاجل اور گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگائے ایک ادا سے آکر دروازہ کھولتیں۔ ایک خوب صورت مسکراہٹ کے ساتھ مہمانوں کو خوش آمدید کہتیں...

مگر یہاں تو صورت حال چوں کہ مختلف تھی یا یوں کہیے کہ بالکل حقیقت تھی تو اس لیے ایسی کسی آئیڈیل سچویشن کا ظہور نہیں ہوا۔

یہاں تو بس میں تھی اور میری سادگی... ارے ہاں... بڑی بڑی سیاہ سرمہ لگی آنکھیں تو موجود تھیں الحمدلله " اور وہ لمبا سروقد بھی، ہرنی جیسی چال البتہ مفقود تھی۔ بھئی میں تو انسانوں کی طرح چلتی تھی نا! امی جان ایک ایک قدم پہ شیرنی کی نگاہ رکھتی تھیں۔ مجال ہے جو کبھی مذاق میں بھی اترا کر چلنے دیا ہو۔ امی سے چھپ چھپ کے کبھی دوپہر میں خواتین یا شعاع ڈائجسٹ پڑھ لیا کرتی تھی تو اس پر بھی کبھی اگر امی حضور کی نظر پڑ جاتی تو وہ بے نقط سناتیں کہ ہفتوں " لفظ" کانوں میں سیسہ انڈیلتے رہتے...! ہمیں تو سمجھ نہیں آتی پتا نہیں یہ آج کل کی مائیں کیسی ہیں؟ خواب کیوں دیکھنے دیتی ہیں لڑکیوں کو؟ ایک ہماری امی جان تھیں.... اللہ جنت نصیب کرے، سسرال کا ایسا خوفناک نقشہ کھینچتی تھیں کہ الامان و الحفیظ...( سسرال ہمیں ہمیشہ شیر کی کچھار جیسا لگتا تھا) مجال ہے جو کبھی کوئی خواب آنکھوں کے رستے دل میں اترنے دیا ہو...

سولہ گھنٹے کام میں لگا کہ رکھتیں اس پر بھی ان کی تسلی نہ ہوتی تھی۔ ذرا سا فارغ بیٹھے دیکھ لیتیں تو پیشانی پہ سلوٹیں نمودار ہوجاتیں۔ نیک بختو! بس یہی کام ہے تمہارا ؟ دو برتن دھو لیے چار روٹیاں پکا لیں ۔ ائے کچھ سینا پرونا سیکھ لو سسرال جا کے ماں کی ناک کٹواؤگی کیا!! ہم حیرت اور صدمے کے سمندر میں ڈوب ڈوب کر ابھرتے۔۔۔ سارا دن کام کرنے کے بعد بھی یہ صلہ...؟ کتنی مرتبہ تو نین کٹورے چھلک چھلک جاتے ۔۔۔۔ لیکن یہ آنسو بھی امی جان سے چھپانے پڑتے تھے، ورنہ ناشکرے پن کا ایک نیا محاذ کھل جاتا.....

امی جان نے یہ بڑا احسان کیا کہ گھر کے کاموں میں خوب طاق کردیا تھا اس کے علاوہ سینا پرونا، نٹنگ کرنا ،کڑھائی کرنا، رضائی میں دھاگے ڈالنا،ا زار بند بننا، تنور میں روٹیاں لگانے تک ہر کام سکھایا ۔۔۔ چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی خوب سنبھالا۔ اور اس پر بھی ہر وقت اماں کے عتاب کے نیچے رہتی تھی۔ اکثر و بیشتر امی جان یہ کہتے ہوئے پائی جاتیں "پتا نہیں سسرال جاکے کیا گل کھلائے گی۔۔۔؟" اور میں حیران ہو کے کہتی " ہائیں... امی حضور! گُل کھلا کھلا کے پورا باغ لگا دیا۔ ابھی بھی ہماری باغبانی مشکوک ہے؟ (آہ ۔۔۔۔ ہماری پیاری امی۔۔۔ اللہ تعالیٰ جنت کے بلند درجات نصیب فرمائے آمین ) ٭٭٭

ارے یہ ہم کہاں پہنچ گئے، ذکر ہو رہا تھا مہمانوں کی آمد کا.... دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی چچی جان کی آواز آئی۔ میں نے دروازہ کھولا ،دو تین خواتین بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ دعا سلام ہوئی، مہمانوں کو بٹھایا تو چچی جان امی کا پوچھنے لگیں۔ میں نے بتایا ، خالہ کے ساتھ کہیں گئی ہوئی ہیں۔ پھر میں ان کے لیے شربت بنا کر لائی، فریج میں آم رکھے تھے وہ بھی سلیقے سے کاٹ کر پیش کیے ۔

چچی جان مہمانوں کا تعارف کرانے لگیں... ایک ان میں بزرگ خاتون تھیں بڑی خوب صورت سی، چکن کی چادر اوڑھے ہوئے، پان کھا رہی تھیں اور کبھی کسی بات پر مسکراتیں تو اور بھی پیاری لگتیں۔ لو جی!! میں تو ہونے لگی بسمل... ہائے اللہ کیسی خوب صورت ہیں ،بڑھاپے میں بھی۔ (دل نے بے اختیار تمنا کی، یا اللہ! ایسا حسین بڑھاپا مجھ پر بھی آئے۔ آمین )

جب مہمان رخصت ہونے لگے تو وہی خوب صورت سی بزرگ خاتون اپنی چپل ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔ میں نے آگے بڑھ کے ان کی چپل ان کے قدموں میں رکھ دی۔ معزز خاتون بڑی خوش ہوئیں، ذرا کی ذرا مسکرا کے میری طرف دیکھا دعا دی اور چلی گئیں ۔

لیجیے جناب! یہ میری اپنی ساس سے پہلی ملاقات تھی۔
بعد میں چچی جان کے ذریعے پیغام آیا، "لڑکی پسند ہے۔"
لو جی ہو گیا رشتہ طے۔۔۔!! نہ گھر کی صفائیاں ہوئیں، نہ پردے اور قالین دھلے، نہ بستر کی چادریں تبدیل کی گئیں۔ نہ نئے برتن آئے نہ کیک پیسٹریاں اور شامی کبابوں سے دستر خواں سجایا گیا۔ بس کانچ کے گلاسوں میں روح افزا کا شربت اور اسٹیل کی پلیٹوں میں آم کی چند قاشوں پر مابدولت کو پسند کر لیا گیا۔۔۔ بس جناب جب کچھ ہونا ہوتا ہے تو اسباب خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ویسے سچ کہتی ہوں، ساس بہو کی اتنی آئیڈیل جوڑی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ( اجی اب یوں نہ کہیے گا کہ اپنے منہ میاں مٹھو... ٭٭٭

میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ مجھے اپنی ساس سے بہت زیادہ محبت تھی یا وہ مجھے بالکل اپنی ماں کی طرح عزیز تھیں۔ مگر ایک بات ہے میں نے ہمیشہ ان کی بہت عزت کی اور دل لگا کے ان کی خدمت کی۔ مجھے آج تک یاد ہے وہ میری شادی کا دوسرا دن تھا، میرے پردہ کرنے والی بات پہ سب سسرالی خواتین ناراض تھیں میری بڑی جیٹھانی نے مجھے تیار کیا (جیسا کہ عام طور پر دلہنوں کو صبح صبح تیار کر دیا جاتا ہے ) اور کہنے لگیں آؤ اب نیچے والے پورشن میں چلو ،وہاں سب مہمان بیٹھے ہیں۔ میں نے ذرا پس و پیش کا اظہار کیا کہ اس حلیے میں کیسے جاؤں؟ سب کے سامنے؟ اور کہا "پہلے مجھے ایک بڑی چادر دے دیں، ایسے سولہ سنگھار کر کے زرق برق کپڑے اور باریک سا ٹشو کا دوپٹا اوڑھ کر تو میں مہمانوں کے سامنے نہیں جا سکتی."

ایک تو ساری زندگی امی نے سوتی دوپٹوں میں ڈھک ڈھانپ کے رکھا اور اب یہ بے ہودہ سا مطالبہ کے دلہن یوں سولہ سنگھار کر کے مہمانوں کے بیچ جا بیٹھے جہاں محرم، نامحرم سب موجود ہوں۔۔۔ شرم سے زیادہ تو غصہ آرہا تھا ۔ مگر وہاں بھی غیض و غضب دیکھنے والا تھا... چھ سات خواتین مسہری کے چاروں طرف کھڑی تھیں۔ "ابھی کرواتے ہیں تمہیں پردہ.... یہاں کوئی پردہ وردہ نہیں ہے، ایسے ہی چلو ہمارے ساتھ "۔ دو چار تحکمانہ سی آوازیں ایک ساتھ سنائی دیں۔ میں بھی جم کر بیٹھی رہی، دل میں سوچا، جب اللہ کی رضا کے لیے پردہ کیا تو پھر ڈرنا کیا؟؟ مگر سچ بات ہے کہ دل اندر ہی اندر ہول رہا تھا !!

اسی کھینچا تانی میں وہی شفیق، خوب صورت سی خاتون آگے بڑھیں اور اپنی چادر اتار کر میری طرف بڑھا دی "لو دلہن! تم یہ اوڑھ لو" میں نے ایک نظر اس مہربان ہستی کی طرف دیکھا اور بس... کوئی لمحہ ہوتا ہے زندگی میں، جب کوئی انسان ہمیشہ کے لئے آپ کے دل میں اتر جاتا ہے۔

میرے ساتھ بھی اس دن یہی کچھ ہوا۔ ساسو ماں اپنے چشمے اور پاندان سمیت میرے دل میں براجمان ہو گئیں... کبھی نہ نکلنے کے لیے۔

بس وہ دن تھا اور میرے دل میں ہمیشہ ان کی عزت بڑھتی ہی گئی یہ اور بات کہ اس وقت ان خواتین نے مجھے ان کی پیش کردہ چادر اوڑھنے نہیں دی۔ مگر بعد میں ہمیشہ میری ساس کا تعاون میرے ساتھ رہا۔ جب تک گھر میں دیور جیٹھ ہوتے تب تک میں ایک بڑی چادر اوڑھے رکھتی، اور پھر مجھے ایسی عادت پڑی کہ ہر وقت ہی وہی چادر اوڑھے رکھتی تھی کبھی تو اماں حضور خود تنگ آجاتیں،” ائے بہو! اب تو گھر میں کوئی نہیں ہے اب تو اس دوشالے کو اتار پھینکو، تمہیں گرمی نہیں لگتی۔۔؟“ اور میں ہنس کہ کہتی "نہیں اماں، گرمی تو نہیں لگتی" کیوں کہ مجھے واقعی گرمی نہیں لگتی تھی اور بات تو دراصل یہ ہے جب جہنم کی گرمی کا خوف دامن گیر ہوجائے تو پھر دنیا کی گرمی کی کیا حقیقت ہے ۔(اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت کی فکر نصیب کرے)

٭٭٭ سسرال میں سب اکٹھے رہتے تھے۔ باورچی خانہ تو سب کا الگ الگ تھا مگر اٹھنا بیٹھنا اکثر ایک ساتھ ہی ہوتا تھا۔ لیکن میری مہرباں ساس نے میرے پردے کے معاملے ہمیشہ بہت تعاون کیا مجھ سے۔ میں، میرے میاں ،دو نندیں اور ایک دیور ہم اکٹھے تھے باقی سب جیٹھانیاں الگ الگ۔۔

اماں نے کبھی مجھ پر زور نہیں دیا کہ تم بھی وہاں بیٹھو، جہاں سب لوگ بیٹھے ہیں اور اگر کبھی بیٹھنا بھی ہوتا تو میں اکثر کسی نہ کسی کی آڑ لے کر بیٹھتی تھی کہ دیور جیٹھوں سے براہ راست سامنا نہ ہو۔

جب کبھی شادی شدہ نندیں رہنے کے لیے آتیں تو رات کو خوب رت جگا ہوتا۔ شروع دنوں میں، میں بھی بیٹھ جایا کرتی تھی کہ سب لوگ برا مانیں گے کہ ہمارے درمیان نہیں بیٹھتی ۔ مگر میری ساسو ماں مجھے تھوڑی دیر بعد ہی کہتیں جاؤ تم سو جاؤ جا کر، تمہیں نیند آرہی ہوگی اگر باقی لوگ اعتراض کرتے تو منہ توڑ جواب دیتیں، اسے اٹھنا ہوتا ہے فجر میں، تمہاری طرح دن چڑھے تک نہیں سوتی، وہ اگر آدھی رات تک جاگے گی تو نیند کیسے پوری ہوگی ؟ اور میں سکون سے اپنے کمرے میں آکر سو جاتی ۔ ٭٭٭

یہ خاندان تقریبات کا دیوانہ تھا۔ چھوٹی بڑی تقریبات اکثر منعقد ہوتی رہتیں ۔ مگر میں کبھی بے حجاب ہو کر کسی محفل میں شریک نہیں ہوئی۔ ہمیشہ بڑی چادر یا بُرقع پہن کر بیٹھتی اور کسی کو مجھ پر اعتراض کرنے کہ ہمت نہ ہوتی کیوں کہ میری مہربان ساس کا تعاون جو ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا تھا۔ دیور اور نند کی شادی میں، میں نے اماں سے کہا کہ مہندی مایوں کی تقریبات نہ کریں، ہندوانہ رسمیں ہیں اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے۔ مگر وہ کہنے لگیں اب ان سب کو میں کیسے روکوں؟ بس تم شرکت نہ کرنا میں نے کہا یہ سب لوگ مجھ پر باتیں بنائیں گے، مہمان بھی پوچھیں گے ؟ کہنے لگیں "میں دیکھ لوں گی سب کو کوئی کچھ کہے گا تو "

میں نے شادی میں بھرپور حصہ لیا مہمانوں کی آؤ بھگت اور ہر کام خوبی سے کیا مگر مہندی مایوں کی تقریبات میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے مجبور کیا ۔

وہ رات بھی مجھے آج تک یاد ہے جب نند کی شادی تھی، اسے رخصت کروا کے شادی ہال سے گھر لوٹے تو سب گھر والے اماں کی وجہ سے میرے ہی کمرے میں بیٹھے تھے۔ خواتین مسہری پر اور حضرات صوفوں پر براجمان تھے۔ سب کو چائے دے کر میں بھی اماں کے برابر میں ہی آ بیٹھی۔۔۔ میرا بیٹا سلمان اس وقت سال بھر کا تھا، بڑے سکون سے ان کی گود میں سو رہا تھا۔ رات کے تین سوا تین بجے تھے اور ابھی تک کسی کے اٹھنے کا ارادہ نہیں لگ رہا تھا ۔ اماں نے میرے کانوں میں سرگوشی کی... تمہیں تو نیند آرہی ہوگی نا! لو تم میرے پیچھے لیٹ کر سو جاؤ، سلمان کو میں نے سنبھال رکھا ہے اور خود تھوڑا سا آگے سرک کر میرے لیٹنے کے لیے جگہ بنا دی ۔ اور میں ان کی آڑ لے کر ان کی محبت کےسائے میں سکون سے سو گئی ۔

کون کہتا ہے ساسیں ظالم ہوتی ہیں؟ کسی نے میری ساس دیکھی ہوتیں تو پتا چلتا ساس کا دوسرا نام ایک "مہربان ماں" ہے ۔ بس اس ماں کو تسخیر کرنا ہوتا ہے محبت، خدمت اور خلوص سے۔ خلوص شرط ہے کہ ہر کام ہر محبت رضائے الٰہی کے لیے ہو تو پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔

وہ ہر بات میں، ہر چیز میں، ہر معاملے میں میرا خیال کرتی تھیں۔ کبھی میرے پکائے کھانے میں عیب نہیں نکالے ۔ پسند نہ آتا تو کہتیں اگلی بار جب پکاؤ تو مجھ سے پوچھ کر پکانا اور میں ہنس دیا کرتی تھی ٹھیک ہے اماں۔۔۔ میری نمازوں کی بھی خوب پروا کرتیں کبھی کوئی کام بیچ میں آجاتا تو کہتیں، نہیں نہیں پہلے تم نماز پڑھ لو ۔ سبزی لینے جاتیں تو مجھ سے مشورہ کر کے جاتیں ۔

میں اگر کبھی اداس بیٹھی ہوتی تھی تو کہتیں کیا ہوا میکے کی یاد آرہی ہے؟ چلی جانا آج شام کو، بہت دن سے میکے گئی بھی تو نہیں ہو ناں مگر رات کو جلدی گھر آجانا اور میں میکے جانے کی خوشی میں جلدی جلدی سارے کام نمٹانے لگتی اور وہ میری اس جلد بازی پر ہنسنے لگتیں "دیکھا کیسے خوش ہو رہی ہے میکے جانے کے نام سے " کبھی کسی بات ہر ہلکا پھلکا سا ڈانٹ بھی دیا کرتی تھیں، مگر قدرتاً مجھے ان کی ڈانٹ بری لگتی ہی نہ تھی، کبھی ان کے ڈانٹنے پر منہ نہیں بنایا بلکہ میں خود تھوڑی دیر بعد ان سے ایسے ہمکلام ہوتی ،جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ وہ بھی ہمیشہ ہنس کے بات کرتیں کبھی پچھلی بات کو لے کر گھوٹالہ نہیں بنایا میں بھی ان کے آگے پیچھے پھرتی۔ اماں آج کیا پکائیں گے؟

اماں چائے پینے کو دل چاہ رہا ہے تو بنادوں؟
کپڑے استری کردوں؟
صبح دوپہر شام پابندی سے ان کو دوا کھلاتی۔۔۔ چوں کہ شوگر کی مریضہ تھیں پھر آخری دو سال دل کا مرض بھی لاحق رہا۔

کہیں جاتیں تو میں اپنے ہاتھوں سے ان کے پاؤں میں جوتے پہنا کر تسمے باندھتی، جب وہ آتیں تو اتنی ہی محبت سے ان کے جوتے اتارتی۔ ان کا چشمہ اور چادر سنبھال کے رکھتی ۔ ان کا پاندان دھو دھلا کر صاف ستھرا کر کے رکھتی۔ کپڑوں پر اکثر پان کے دھبے لگ جایا کرتے تھے جنھیں بڑی محنت سے بلیچ لگا لگا کر صاف کرتی۔ سالن بناتے وقت اکثر انہی کی پسند کا خیال رکھتی تھی۔ جس وقت انھیں بھوک لگتی اسی وقت نرم ملائم تازہ روٹی ڈال کر دیتی۔

ہفتے میں دو مرتبہ باقاعدگی سے نہایا کرتی تھیں پھر جب ان کے بال سوکھ جاتے تو میں ان کے سر میں تیل لگاتی، ہلکے ہاتھوں سے مالش کرتی، سر میں کنگھی کرتی اور ان کی چوٹی باندھتی۔

وہ مجھ سے بہت خوش رہتی تھیں ایک بار بیٹھے بیٹھے کہنے لگیں اللہ کا شکر ہے ہمارا گھر تو جنت ہے ۔ کوئی راز کی بات ہوتی تو اپنی ساری بہوؤں میں سے صرف مجھے بتایا کرتیں۔ اور جب کوئی پریشانی کی بات ہوتی تو سب کو بتا دیا کرتیں سوائے میرے اور جب مجھے کہیں اور سے پتا چلتا تو میں پوچھتی، اماں مجھے کیوں نہیں بتایا آپ نے؟ تو ہنس کر ٹال دیا کرتیں۔۔۔ یہ تو مجھے ان کے انتقال کے بعد سمجھ آیا کہ انہوں نے مجھے کتنی پریشانیوں سے بچا کر رکھا تھا۔ کچھ رشتوں کی عظمت اور محبت شاید لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی اور جب بات رشتوں کا حق ادا کرنے کی ہو تو پھر تو شاید بالکل بھی نہیں۔

میں نے اپنی ساس کو ہمیشہ ایک منفرد نظر سے دیکھا۔ میں نے کبھی بھی انہیں اپنی ماں نہیں سمجھا، کیوں کہ اپنی سگی ماں سے تو ہم بڑے بے تکلف ہوتے ہیں، ضد بھی کرتے ہیں، ناراضی بھی، لاڈ بھی اور کبھی کبھی نافرمانی بھی کرجاتے ہیں مگر میں نے ان کو ہمیشہ اپنے شوہر کی ماں کی نظر سے دیکھا۔ ماں کا جو حق اپنے بیٹے پر ہوتا ہے، میں اس حق کو ادا کرنے میں اپنے شوہر کی معاون بنی رہتی تھی ۔ شوہر کی محبت اور خیر خواہی مجھے اس بات پہ مجبور کرتی تھی کہ ماں بیٹے میں میری وجہ سے کوئی دوری نہ آئے اور میرے شوہر پہ ماں کے حقوق کا کوئی مطالبہ نہ ہو وہ اس معاملے میں قیامت کے دن سرخرو ٹھہریں ۔

اور وہ تو بہت ہی اچھی مخلص اور مہربان خاتون تھیں۔ ان کے دم سے گھر میں رونق تھی، سچ کہا کسی نے بزرگ تو گھر میں برکت کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ جب وہ اپنے پلنگ پر دیوار کے ساتھ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوتی تھیں، گھر کتنا بھرا بھرا سا لگتا تھا۔ ان کے ہوتے مجھے کوئی ٹینشن کوئی فکر نہ ہوتی تھی۔ نہ گھر کے اخراجات کی فکر، نہ رشتہ داروں کی فکر، نہ خاندانی معاملات کی فکر۔۔۔۔ اور نہ ہی اپنے بچوں کی فکر۔ جتنی دیر میں کام کرتی رہتی، مجال ہے کہ بچے روئیں، خود سنبھالتی رہتیں ۔ اور اگر رونے ہی لگتے تو سارے کام چھڑوا دیتیں ،نہیں نہیں پہلے بچے کو سنبھالو، اسے نہ رلاؤ. دوپہر کو میں کام کاج سے فارغ ہوتی تو میرے دونوں بچوں کو خود سنبھال لیتیں، مجھے کہتیں "جاؤ تم سو جاؤ تھوڑی دیر، فجر کی اٹھی ہوئی ہو تھک گئی ہوگی نا!" میرے دونوں بچے ان کی شفقت کے سائے تلے شہزادے، شہزادیوں کی طرح پل رہے تھے۔

چائے تو بس میرے ہی ہاتھ کی بنی پسند کرتی تھیں۔ اور وہ دن تو میں کبھی نہیں بھول سکتی جب میری والدہ کے انتقال کو کچھ ہی دن گزرے تھے، میرے چھوٹے بہن بھائی مجھے یاد کررہے تھے اور گھر بلا رہے تھے ۔ میں اپنے شوہر سے ضد کررہی تھی مجھے دو دن کے لیے میکے جانے دیں مگر وہ مان نہیں رہے تھے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر تم چلی جاؤگی تو میری اماں کا خیال کون رکھے گا؟ اور میں اپنی جگہ سوچ رہی تھی یہاں اتنے سب لوگ تو ہیں، تین تین بہوئیں ہیں پوتیاں ہیں بیٹے ہیں، کیا سب مل کر بھی دو دن کے لیے ان کا خیال نہیں رکھ سکتے ؟

نادانی کی عمر تھی، سمجھ نہیں تھی اتنی، اس لیے ضد کیے جا رہی تھی مجھے ضرور میکے جانا ہے۔ اور شوہر مان نہ رہے تھے ۔ کہ اتنے میں اماں خود بول اٹھیں "جانے دو تم بہو کو اس کے میکے، یہاں بہت لوگ ہیں میرا خیال رکھنے کے لیے"

اور میں ہکا بکا ان کی شکل دیکھتی رہ گئی... لیکن پھر میاں صاحب مجھے میکے چھوڑ آئے۔ دو دن کے بعد جب واپس آئی تو میں دل ہی دل میں ساسو ماں سے خفا تھی مگر حسب دستور چہرے سے ظاہر نہ ہونے دیا مگر وہ اتنی ہی محبت سے مجھ سے میکے کا حال احوال پوچھتی رہیں، جیسے کوئی تلخ بات ہمارے بیچ ہوئی ہی نہ تھی ۔ پھر کہنے لگیں تم نہ تھیں تو مجھ سے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا گیا، تمہارے علاوہ کسی اور کے ہاتھ کی روٹی مجھ سے کھائی نہیں جاتی ناں! اور میری آنکھوں میں یک دم آنسو بھر آئے، مگر اماں آپ تو کہہ رہی تھیں کہ "جاؤ اسے چھوڑ آؤ، یہاں بہت لوگ ہیں میرا خیال رکھنے والے "

تو وہ ایک پھیکی سی مسکراہٹ سے بولیں اگر میں ایسا نہ کہتی تو وہ بے وقوف کب تمہیں میکے جانے دیتا؟ اور میں بے اختیار سسک اٹھی اپنی سوچوں پر شرمندہ ۔۔۔ میں کیا سوچ رہی تھی کہ میری سالوں کی خدمت پر پانی پھیر دیا اور انھوں نے کوئی کڑوا لفظ بولا بھی تھا تو میرے فائدے کے لیے تاکہ میں اپنے بہن بھائیوں کے پاس دو تین دن گزار لوں۔ میری میکے جانے کی خواہش پوری ہو جائے۔ بعض اوقات ہم کتنی غلطی کر جاتے ہیں حالات اور رویوں کو سمجھنے میں۔
٭٭٭
بھری پُری سسرال میں ان کا وجود کسی شجرِ سایہ دار سے کم نہ تھا، میرے لیے۔ آخری دنوں میں بہت زیادہ بیمار رہنے لگی تھیں آئے دن ہسپتال کے چکر لگتے میں اکثر ان کے پاس ہی ٹھہرتی ہسپتال میں، مگر رات کو وہ مجھے زبردستی گھر بھیج دیتیں کہ سلمان چھوٹا ہے، روئے گا تمہارے بغیر، اور کوئی دوسری بہو رات میں ان کے پاس رہتی ۔ اور یوں ہی ایک روز صبح صبح میرے شوہر مجھے ہسپتال لے کر گئے ۔ وہ اس وقت ایمرجنسی میں داخل تھیں، اکھڑی اکھڑی سانسیں چل رہی تھیں ۔ میرے شوہر ان کے سرہانے کھڑے ہوگئے اور میں ان کے قدموں کی طرف ان کے پاس ہی بیٹھ گئی اور آہستہ آواز میں سورہ یٰسین کا ورد کرنے لگی ۔ بس یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی ،میری نگاہیں انہی پر جمی تھیں کچھ بولنے کے قابل نہ تھیں بے ہوش تھیں ۔ اچانک آنکھیں کھولیں ایک نظر اپنے بیٹے (میرے شوہر) کی طرف دیکھا، ایک آخری ہچکی لی اور اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔

ان کی موت ایک بہت بڑا صدمہ تھا میرے لیے، امی کی وفات کے بعد ایک وہی تو تھیں جن میں ماں کا عکس نظر آتا تھا۔ پتا نہیں میری ساس میری کن نیکیوں کا صلہ تھیں۔ کبھی میں کام میں مصروف ہوتی تھی تو کتنی محبت سے کہتیں "ارے آجاؤ تھوڑا آرام کر لو تھک گئی ہوگی" اور میری ساری تھکن ان کے اس ایک جملے سے اتر جاتی تھی ۔ (اور آج جب تھکتی ہوں تو وہ یاد آتی ہیں) کبھی میاں غصہ کرتے تھے تو میری ڈھال بن جایا کرتی تھیں۔ وہ نہ رہِیں تو گھر بھی سونا ہو گیا ان کی زندگی میں جب میکے جاتی تھی تو واپسی پر وہ میری منتظر ملتی تھیں، ان کے بعد جب میکے سے واپس آتی تو خالی گھر کسی سِرائے کی طرح لگتا۔ اپنے کمرے کے بند دروازے کا تالا کھولتی تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی، ان کے ہوتے کبھی کمرےکو تالا لگانے کی نوبت نہیں آئی تھی ۔

چلی گئیں وہ اپنی زندگی کے دن گزار کر۔۔۔ مگر اپنی یادیں چھوڑ گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ہمیشہ انہیں اپنی رحمت کی چھاؤں میں رکھے ۔ وہ اپنے حسن سلوک کی بدولت آج بھی میری دعاؤں میں رہتی ہیں۔ جیسے ان کی زندگی میں ان کی خدمت کیا کرتی تھی مرنے کے بعد بھی ان کے لیے دعا و استغفار اور ایصالِ ثواب کرتی ہوں ۔ تاکہ جب آخرت میں ملیں تو مجھ سے یوں نہ کہیں "بہو! تمہاری محبت بس منہ دیکھے کی تھی؟ مرنے کے بعد تو تم نے مجھے بھلا ہی دیا تھا "

میں تو یہ چاہتی ہوں میری دعاؤں اور ایصال ثواب کے تحفے ان کو پہنچتے رہیں اور ان کی بلندی درجات کا سبب بنتے رہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں جنت الفردوس میں پھر اکٹھا کر دے۔ آمین یا رب العالمین ۔