-"ا نعم کے اندر اطمینان سا اتر گیا " جی بالکل اور اب آپ تھوڑی دیر سو جائیں"- وہ کمبل اوڑھانے لگی تو احمر ا یک دم اٹھ بیٹھا " اپنے بیٹے کو سرپرائز لنچ نہیں کھلائیں گی؟" اس کے شرارت بھرے لہجے پہ دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑے۔ ایک اطمینان بھری ہنسی۔
ام مہد پنڈی گھیپ اٹک

احمر کو اسکول وین میں بٹھا کر انعم بوجھل دل کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی- " کتنا مشکل ہے آج کے دور میں بچوں کو فتنوں سے بچا کر اسلام کی روشنی میں پروان چڑھانا" اس نے دکھ سے سوچا۔
گھر کے روز مرہ کے کام نمٹاتےہوئے احمر کا اترا ہوا ناراض چہرہ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آکے اس کا دل اداس کر رہا تھا۔ آٹھ سال کا بچہ جس کے آس پاس دنیا اتنی خوشنما تھی، دین کی حکمتوں کو سمجھنے کے لیے بہت چھوٹا تھا مگر تربیت کی بھی یہی عمر تھی۔ "ان شاء اللہ میں اسے منا لوں گی" یہ سوچ کر وہ زیرلب مسکرا دی۔ گھر کے ضروری کاموں سے فارغ ہو کر وہ کچن میں آگئی ۔ ملازمہ کو سبزی کاٹنے کا کہہ کر اس نے احمر کی پسندیدہ مینگو ڈیلائٹ تیار کرکے فریج میں رکھی اور پھر چائنیز رائس بنانے لگی۔ اس دوران مسلسل دعا پڑھتی رہی " رب یسرلی امری"-
احمر کی واپسی کا وقت ہو رہا تھا۔ وہ ملازمہ کو کھانا لگانے کا کہہ کر نماز کے لیے چلی گئی۔ نماز کے بعد اس نے خوب دعا کی" اے اللہ! میری اولاد کی تربیت میں میری رہنمائی فرما۔ مجھ پر جو ذمے داری تو نے ڈالی مجھے اس میں سرخرو کر۔ اس کو دنیا و آخرت میں کامیاب کر-"
وین کے ہارن کی آواز پر ملازمہ نے دروازہ کھولا۔ انعم نے دیکھا منہ ابھی تک لٹکا ہوا تھا- ملازمہ کو نہ خود سلام کیا نہ اس کے سلام کا جواب دیا۔ انعم نے دانستہ نظر انداز کردیا۔ کپڑے بدلنے سے کھانے کی میز پر آنے تک وہ اس سے اسکول کی باتیں کرتی رہی جن کا جواب وہ ہوں، ہاں میں دیتا رہا- "دیکھو آج ماما نے اپنے بیٹے کے لیے سرپرائز لنچ بنایا ہے-" ٹیبل پر موجود ڈشز کو دیکھتے ہی احمر کی آنکھوں میں ایک چمک سی ہوئی اور اگلے ہی لمحے معدوم ہو گئی۔ "وہ مجھے بھوک نہیں ہے۔ آج اسکول میں زویا کی برتھڈے پارٹی تھی۔ ہم نے پزا، ڈونٹ ، چپس اورکیک کھایا۔" اف پھر وہی موضوع جو پچھلے تین دن سے ان کے درمیان زیر بحث تھا۔ احمر کی سالگرہ اگلے ہفتے آنے والی تھی اور وہ اپنی سالگرہ اسکول میں منانا چاہتا تھا۔ انعم اس بات پر راضی نہ تھی۔ احمر " Frozen" کا goodie bag اس کے سامنے لہرا رہا تھا-" نجانے کتنے بچے آج اس تھیلی کے اندر بہت سی حسرتیں بھر کر لے گئے ہوں گے۔ " اس نے دکھ سے سوچا۔ احمر اب اس کو تفصیلات بتا رہا تھا بلکہ شاید جتا رہا تھا۔ " ماما اتنا اچھا arrangement کیا زویا کے پیرنٹس نے۔ پارٹی کا تھیم " فروزن" تھا۔ کیک، پلیٹس، کپ، بیک گرؤنڈ سب فروزن کا تھا۔ اور زویا نے ایلسا کا costume پہنا تھا۔" احمر خاصا مرعوب دکھائی دےرہا تھا۔ " سب کے parents اتنی اچھی celebration کرتے ہیں ۔ بس آپ ہی نہیں کرتے-"اس کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔
انعم نے اسے گلے لگا کے پیار کیا اور کمرے میں لے آئی۔ "اچھا آپ کو پتا ہے کہ جنت کے شہزادے کون ہیں؟ "احمر اس اچانک سوال پر الجھ سا گیا-
" جنت کے شہزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہیں- یہ دونوں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے نواسےتھے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں سے بہت پیار تھا مگر آپ ﷺ نے ان دونوں میں سے کسی کی سالگرہ کبھی نہیں منائی- اصل میں اسلام میں سالگرہ منانے کا تصور ہے ہی نہیں۔ یہ تو ہم نے دوسرے مذاہب سے لیا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے مدرز ڈے، فادرز ڈے، ہیلووین ڈے وغیرہ۔ افسوس کی بات ہےکہ ہم نے ان سب کو اپنے کلچر کا حصہ بنالیا ہے۔ اور ہمارے تعلیمی ادارے اس کلچر کو تقویت دے رہے ہیں۔ اب آپ دیکھو آج ایک بچے کی سالگرہ میں آپ کی پڑھائی کا کتنا حرج ہوا۔ اگر ہر ہفتے ایک سالگرہ منائی جائے تو کتنا حرج ہوگا۔ آپ کی ٹیچرز پہ بھی زائد بوجھ پڑتا ہے۔ اور اسکول میں صرف وہ کامیابی منانی چاہیے جو بچے نے اپنی محنت سے حاصل کی ہو جیسے امتحان میں کامیابی ، قرآن پاک مکمل کرنا، کوئی ریس جیتنا ۔ اور کسی کو سالگرہ منانی ہی ہے تو اپنے گھر میں منالیں بلکہ اسکول انتظامیہ کی یہ پالیسی ہونی چاہیے کہ اس قسم کی پارٹی کی اجازت نہ دیں جس میں ایک بچہ خوش ہو اور بہت سے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جائیں۔" وہ بہت نرمی سے کہتی رہی اور اس باراحمر خاموشی سے سنتا رہا۔ " اچھا تو کیا میری سالگرہ گھر میں بھی نہیں منائیں گے؟" بچہ ہی تھا نا۔ سوئی اب بھی وہیں اٹکی تھی۔ انعم نے پیار سے اس کے بال بگاڑے " منائیں گے مگر کسی اور انداز میں۔ آپ کو یاد ہے ہم نے ٹی وی پہ ایک پروگرام دیکھا تھا جس میں یتیم خانوں اور ایدھی سنٹر جیسے اداروں میں رہنے والے بچوں کو دکھایا گیا تھا؟" انعم نے یاد دلایا۔
"جی ماما! وہاں کتنے بچے تھے جن کے parents نہیں تھے۔ " احمر اداس ہوگیا۔
"ہم آ پ کی سال گرہ ایدھی سنٹر میں ان بچوں کے ساتھ منائیں گے۔ ان کو کھانا دےکر آئیں گے-" اس نے احمر کو آئیڈیا دیا۔ "اور ?goodie bags' گویا آئیڈیا قبول کر لیا گیا تھا۔ "جی جناب وہ بھی بنائیں گے۔ آپ کو پتا ہے کہ سردیاں آنے والی ہیں۔ تو ہم ان بچوں کے لئے کچھ گرم کپڑے لے جائیں گے۔ کچھ نئے اور کچھ پرانے جو آپ کو چھوٹے ہو گئے ہیں اور کچھ کھلونے بھی۔ اس طرح آپ بھی خوش ہو جائیں گے،وہ بچے بھی اور اللہ تعالیٰ بھی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم سالگرہ کےدن ہی ایسا کریں کیونکہ نیکی کا کوئی موسم یا دن نہیں ہوتا - یہ تو سدا بہار ہوتی ہے۔ میری جان ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی اطاعت اور اس کے بندوں کی مدد ہونا چاہیے۔"
"تو ٹھیک ہے میں اپنے دستانے اور ٹوپیاں بھی دوں گا" احمر ایک دم پرجوش ہوا-"ا نعم کے اندر اطمینان سا اتر گیا " جی بالکل اور اب آپ تھوڑی دیر سو جائیں"- وہ کمبل اوڑھانے لگی تو احمر ا یک دم اٹھ بیٹھا " اپنے بیٹے کو سرپرائز لنچ نہیں کھلائیں گی؟" اس کے شرارت بھرے لہجے پہ دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑے۔ ایک اطمینان بھری ہنسی۔