بچپن کتنا سنہرا ہوتا ہے نا۔ کوئی فکر نہ اندیشہ۔ دوستوں میں لڑائی ہوجاتی اور دوسرے ہی لمحے سب مل کے کھیلنے لگ جاتے، پہل دوج، چھپن چھپائی، لڈو، کیرم، اونچ نیچ کا پہاڑ، پکڑم پکڑائی، آنکھ مچولی، کبڈی، فٹ بال، کرکٹ، گوگو اور کتنے کھیل کھیلتے لیکن دل نہ بھرتا۔

روبینہ عبد القدیر

اسے بارش اور بارش کی سوندھی خوشبو بہت پسند تھی۔ جب بھی بارش ہوتی اپنے دوستوں کے ساتھ باہر گلی اور کھیل کے میدان میں جا کر خوب نہاتا۔ وہ سب ایک دوسرے پر پانی اچھالتے، گھٹنوں تک جمع پانی میں تیرنے کی کوشش کرتے اور جب سردی سے تھر تھر کانپتے تو گھروں میں جا کر دبک جاتے۔ پھر جب بارش تھم جاتی تو سب یار دوست مل کر اچھی چکنی مٹی کی تلاش میں نکل جاتے۔ چکنی مٹی سے پلیٹیں، توا، گلاس، مٹکا، دیگچی، صوفہ، کرسیاں اور نہ جانے کیا کیا بناتے۔ اور جب کوئی کھلونا اچھا بن جاتا تو فخر سے سب کو دکھایا جاتا اور بہت احتیاط سے دھوپ میں سکھانے کے لیے رکھ دیا جاتا۔ اور اگر کوئی کھلونا ٹھیک نہ بنتا تو اسے توڑ دیا جاتا۔ لیکن سوکھنے کے بعد بھی وہ کھلونے ایک دو دن سے زیادہ نہ چلتے اور ریت کی مانند بکھر جاتے۔ وہ سب دوست بھی تو اب بکھر ہی گئے تھے۔ سوچتے سوچتے وہ مسکرایا۔

چاچا فرید کے گھر ٹی وی تھا۔ نیلام گھر، عینک والا جن، الف نون جیسے ہر پروگرام وہ ابا سے چھپ کر چاچا کے گھر دیکھنے جاتا۔ اور چاچا کے گھر والے سب مل کر ان ڈراموں پر تبصرے کرتے تو کتنا مزہ آتا۔ 

گرمیوں کی چھٹیوں کا بےتابی سے انتظار رہتا۔ صبح سویرے اسکول جاتے وقت اتنی نیند آتی کہ دل کرتا سوئے رہیں اور جب چھٹیاں ہوتیں تو اسکول کے وقت پر ہی آنکھ کھلتی اور نیند نہ آتی۔ جون کی چلچلاتی گرمی میں لوگوں کے گھروں میں لگے آم کے درخت دیکھ کر دل للچاتا اور گرم لمبی دوپہروں میں جب سب سو رہے ہوتے تو وہ سب دوست چپکے چپکے جاتے اور پتھر مار کر کیریاں توڑنے کی کوشش کرتے۔ قسمت ساتھ دیتی تو کیری گر جاتی ورنہ گھر والے اٹھ جاتے۔ اور پھر سب کیری کے شکار کے بعد نمک اور چاٹ مسالا لگا کر کیریاں کھاتے۔ اور انہیں کیریاں کھاتے دیکھ کر بہنیں ہنستیں کہ یہ کھٹی چیزیں کھانا تو لڑکیوں کا کام ہے۔

عمران سیریز، عمرو عیار اور اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول اور کہانیاں تو وہ سب دوست پیسے ملا کر خریدتے پھر باری باری سب پڑھتے۔

بچپن کتنا سنہرا ہوتا ہے نا۔ کوئی فکر نہ اندیشہ۔ کھیلنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا اور سو جانا بس یہی زندگی ہوتی ہے۔ دوستوں میں لڑائی ہوجاتی اور دوسرے ہی لمحے سب مل کے کھیلنے لگ جاتے، پہل دوج، چھپن چھپائی، لڈو، کیرم، اونچ نیچ کا پہاڑ، پکڑم پکڑائی، آنکھ مچولی، کبڈی، فٹ بال، کرکٹ، گوگو اور کتنے کھیل کھیلتے لیکن دل نہ بھرتا۔ دل جیسے مچل اٹھا تھا۔ بچپن کی حسین یادوں نے اسے بےچین سا کردیا اس کا جی چاہا وہ دوڑ کر جائے اور اپنے بچپن میں سانس لے۔ سب دوستوں کو کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئے اور مل کر سب بچے بن جائیں۔ اپنے اس خیال پر وہ خود ہی ہنسا۔

"پاپا آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔؟" موبائل میں گیم کھیلنے میں مشغول بیٹے نے ہنسی کی آواز  سن کر مصروف انداز میں پوچھا۔

"بس بیٹا تم کیا جانو بچپن کی رنگینی۔ بچپن تو وہی تھا جو ہم نے جیا اور جس کی یاد آج بھی دل کو میٹھا سا درد دیتی ہے۔ تم لوگ جب بڑے ہو جاؤ گے نا تو کبھی بھی اپنا بچپن یاد نہیں کرو گے۔" وہ اسے دیکھ کر دھیرے سے بولا لیکن اس نے سن لیا تھا۔

"لیکن کیوں پاپا؟؟" وہ منہ بنا کر بولا۔

"جس بچپن میں اسکول، ٹیوشن، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، موبائل، ویڈیو گیمز، فیس بک، واٹس اپ ہو اس الیکٹرونک بچپن کی کون سی یاد ہے جو تم لوگوں کو ایسے مسکرانے پر مجبور کرے گی؟؟ وہ اس کے موبائل پر نگاہیں جمائے بولا۔

"افف آپ اتنی مشکل باتیں کرتے ہیں۔ میری پوری گیم سلو کردی۔" بیٹے نے سر جھٹک کر دوبارہ سر گیم میں دے دیا۔

شاید بچپن تو وہی تھا جو واقعی بچپنے میں گزرا ورنہ آج کل کے بچے تو بچپن میں ہی بڑے ہوجاتے ہیں دور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے اس نے آنکھیں موند لیں۔