اس ڈوبتے منظر نے ابا منزہ مسکراتی ہوئی ابا کے ساتھ چارپائی پر آبیٹھی اور ابا کو تصویر دکھانے لگی۔۔۔ڈوبتے سورج کی سرخی افق پر پھیلی تھی۔۔درخت شاکر کھڑے تھے باادب۔۔۔سڑک کے بیچوں بیچ گزرتی نہر کا پانی خاموشی سے رواں تھا۔نہر کے چھوٹے سے پل سے گزرتا ایک تنہا،مسافر اپنے دھیان میں مگن اپنی منزل کی طرف گامزن تھا
اجالا سحر

فضا خاموش تھی۔ساکت اور پرسکون۔
منزہ صحن میں چلتے پھرتے خاموشی سے معمول کے کام نبٹارہی تھی۔بی اماں جامن کے گھنے سائے تلے بچھے تخت پر آنکھیں موندے نیم دراز تھیں اور عادتا ہاتھ میں موجود تسبیح کے دانے گرائے جارہی تھیں۔ابا میاں حسب معمول حقہ لیے چھت پر جا چکے تھے۔۔۔
آج شام کا پہر اتنا خاموش کیوں ہے کام سے ذرا دھیان ہٹا تو منزہ کو خاموش ماحول بہت محسوس ہوا گھبرا کر بول اٹھی۔۔ تمہارے وہ چلتے پھرتے لاؤڈ اسپیکرز جو چھٹی پر تھے اسی لیے آج ماحول اتنا پرسکون ہے۔بی اماں نے فورا وجہ بتائی۔ سہ پہر چار سے شام چھ بجے تک آس پاس سےکچھ بچے بچیاں اس گھر کے صحن میں جمع ہوتے تھے کوئی اسکول کا بستہ تھامے،کوئی ہاتھ میں سپارا پکڑے اور کوئی خالی ہاتھ صرف جامن کی مظبوط شاخ سے بندھے جھولے کو جھولنے کے لئے۔
دن بھر کی معمول کی خاموش سرگرمیوں کے بعد یہ دو گھنٹے کی چہل پہل ایک رونق اور ان دیکھی خوشی لے کر آتی تھی۔
ورنہ تو منزہ کو محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کے روزمرہ کے کام اور اس کے بعد فارغ وقت میں ٹی وی اور موبائل تک محدود زندگی بہت زیادہ بور کردینے والی ہوتی۔
یہ اللہ کے باغ کے ننھے پھول دو گھنٹوں کے لئے ہی سہی اس صحن میں زندگی جگا دیتے تھے۔ورنہ گھر کی دیواروں پر چہار سو چھائی خاموشی کس قدر وحشت پیدا کرتی تھی۔منزہ کو اس کا بخوبی احساس تھا۔ لیکن بی اماں کے لیے صرف اتوار کا دن ہی وہ واحد پرسکون دن ہوتا تھا جب وہ جامن کی چھاؤں تلے نیم دراز ہوکراس کی خاموش چھاؤں کو انجوائےکرتی تھیں۔
اور منزہ کو اتوار کی یہ خاموشی کبھی تو بہت بھلی محسوس ہوتی اور کبھی وحشت میں مبتلا کردیتی جس طرح سے آج کر رہی تھی۔
بی اماں کے لئے تو اتوار کا دن عید کا دن تھا سو وہ بہت پرسکون ہو کر جامن کی چھاؤں سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔ ابامیاں چھت پر اپنے حقے کے سنگ اچھا وقت گزار رہے تھے دن ڈھلنے ہی والا تھا منزہ بھی چھت پر چلی آئی۔جاتے دن اور آتی ہوئی رات کا نظارہ اسے ہمیشہ سے بھلا لگتا تھا۔ کام ختم کر لیا منزہ۔ابامیاں نے اسے چھت پر دیکھا تو سوال کیا۔جی ابا!کھانا بھی تیار ہے لے آؤں؟ نہیں۔۔۔مغرب پڑھ کر کھاؤں گا بیٹا۔۔۔
ٹھیک ہے ابا۔منزہ بنیرے سے جا کھڑی ہوئی۔۔قدرت کا نظارہ خوبصورت تھا موبائل ہاتھ میں پکڑے وہ قدرت کے شاہکار کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے لگی۔
تصویر کے کیپچر ہونے کی مخصوص آواز آئی۔۔۔اب کس منظر نے جکڑ لیا۔۔۔ابا کو منزہ کی عادت معلوم تھی سو سوال کیا۔۔ اس ڈوبتے منظر نے ابا منزہ مسکراتی ہوئی ابا کے ساتھ چارپائی پر آبیٹھی اور ابا کو تصویر دکھانے لگی۔۔۔ڈوبتے سورج کی سرخی افق پر پھیلی تھی۔۔درخت شاکر کھڑے تھے باادب۔۔۔سڑک کے بیچوں بیچ گزرتی نہر کا پانی خاموشی سے رواں تھا۔نہر کے چھوٹے سے پل سے گزرتا ایک تنہا،مسافر اپنے دھیان میں مگن اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔۔۔جاتے سورج کی پیلی روشنی اور آتی رات کا سرمئی اندھیرا۔۔۔۔۔دونوں مل کر ایک حسین منظر بنارہے تھے۔
ابا نے ایک نظر تصویر کو دیکھا پھر بنیرے سے پرے نظر آتے منظر کو موبائل منزہ کے ہاتھ میں پکڑایا حقے کا لمبا کش لیا اور بولے۔۔۔دنیا اور زندگی۔۔۔لمبی سانس لی ہر انسان ابھرتا ہے پھر ڈھلتا ہے آخر میں ڈوب جاتا ہے۔جیسے یہ منظر۔۔یہ نظارہ یہ سورج یہ شام،رات اور چاند اپنے مدار میں ابھرتے اور ڈوبتے ہیں۔اور نہر کی پل پر چلتا یہ بظاہر بے فکر مسافر۔۔۔ہم سب زندگی کے اس منظر کے ایسے ہی مسافر ہیں۔۔ہمیشہ آگے کی جانب، خاتمے کی طرف بڑھتے ہوئے۔ ابا منزہ کی بات سے گہری سوچ میں غوطہ زن ہوئے۔
ہم انسان جوانی میں ابھرتے ہیں۔۔۔اپنے خاندان کی پوری زندگی پر چھا جاتے ہیں۔۔۔بالکل سورج کی طرح سے۔۔۔لوگوں کو اپنی جوانی اپنے بازو کی طاقت سے تپش دیتے ہیں پریشان کرتے ہیں۔۔۔پھر ہم پر ادھیڑ عمری آتی ہے۔۔۔جاتی ہوئی جوانی اور آتا ہوا بڑھاپا۔۔بالکل دن رات کے آنے جانے کی طرح۔۔۔اپنا نارنجی رنگ شام کی سرمئی چادر پر ڈال کر گزرتے وقت کو دھوکا دینے کی ایک لاحاصل اور ناکام سعی کرتے ہیں اور آخر میں زندگی کے خاتمے پر قبر کا اندھیرا کالی رات کی طرح ہم پر چھاجاتا ہے۔زندگی ختم ہوجاتی ہے تمام منظر گم ہوجاتے ہیں۔
منزہ او منزہ رات ہوگئی بچے اب نیچے بھی چلی آؤ کوئی بلب جلاؤ اور مغرب کی تیاری پکڑو منزہ جو ابا میاں کے چہرے پر زندگی بھر کے آتے جاتے مناظر پر غور کر رہی تھی بی اماں کی آواز پر چونک اٹھی۔۔۔۔آئیں ابا آپ کو وضو کروادوں سیڑھیوں کی جانب بڑھتے ہوئے منزہ نے کہا ابا بھی حقہ سنبھالتے سیڑھیوں کی جانب بڑھے اور پیچھے کو ڈوبتا پیلا سرمئی منظر آخری نارنجی شفق پھینک کر گویا مسکرا کر اس وعدے کے ساتھ شام کے کالے سائے میں چھپ گیا کہ وہ کل پھر سے ضرور آئے گا۔ (ختم شد)