بابا جانی میں نے کارٹون دیکھنا چھوڑ دیے ہیں اس لیے اب میں کارٹون والی کوئی چیز نہیں لیتا، بوجی نے بتایا تھا کہ یہ کارٹون ہمیں ہمارے دین سے دور کر دیتے ییں
مریم رحمن کراچی


بوجی مجھے معاف کردیں ، میری وجہ سے کبیر آپ سے دور ہو گیا۔ یہ الفاظ تھے یا گرم سیسہ ، اپنے سات سال کے بیٹے کی آواز میں یہ الفاظ کانوں میں پڑتے ہی اپنے کمرے سے صحن کی جانب بڑھتے یوسف صاحب کے قدم وہیں جم گئے۔

یوسف صاحب کا ایک ہی بیٹا تھا ، ایک مشہور کاروباری شخصیت کے حامل یوسف صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ کاروبار کیا کرتے تھے ، ان کی بیگم اسی کام کے سلسلے میں چار مہینے کے لیے بیرونِ ملک گئی تھیں ، بیٹا چھوٹا ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کی دیکھ بھال کے لئے ظہیر نامی ملازم رکھا ہوا تھا ، ملازم وفادار تھا ، معاذ کی پیدائش سے ہی اس کام پر لگا ہوا تھا، جسے پہلے تو ہفتہ اتوار کو چھٹی مل جایا کرتی تھی لیکن والدہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اب ان دنوں اسے ہفتہ اتوار بھی معاذ کے ساتھ گزارنے تھے۔

نہیں میرے بچے تم کبیر سے کم تھوڑی ہو میرے لیے آپ بھی مجھے اپنے بیٹے کی طرح ہی پیارے ہو۔ ظہیر جو خود بھی توقع کے برعکس اس کے الفاظ سن کر ورطہ حیرت میں چلا گیا تھا اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے پیار سے بولا۔

نہیں بوجی وہ بھی تو آپ کو یاد کرتا ہوگا ناں جیسے میں اپنے بابا کو یاد کرتا ہوں۔ سات سالہ ذہن ظہیر کے جواب پر مطمئن نہیں تھا تب ہی ایک اور بات کہہ ڈالی جو شاید وہ چھوٹی عمر میں ہی محسوس کرگیا تھا ، اور باہر کھڑے یوسف صاحب کی حیرت میں اپنے الفاظ سے مزید اضافہ کرتا جا رہا تھا۔

بوجی دراصل معاذ کا دیا ہوا ہی نام تھا ، ظہیر کا چار سالہ بیٹا کبیر اسے اپنی ننھی زبان میں ابو جی کے بجائے بوجی کہتا تھا ، بوجی کہتے کہتے وہ تو ابو جی کہنے لگ گیا تھا لیکن معاذ نے جب سے اس کے منہ سے بوجی سنا تو اس نے بھی بوجی ہی کہنا شروع کردیا ، ظہیر کو بھی اس نام سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔

میرے بچے آپ کے بابا آپ کے لیے محنت کرتے ہیں اور میں اپنے بیٹے کے لیے ، اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے ، کیا ہوا اگر کچھ دن کی دوری ہے آپ کی ماما آجائیں گی تو ان کے پاس چلا جایا کروں گا، ادھر آپ ہو نا!!میرے بیٹے کی طرح میرے پاس۔

جب کبیر چھوٹا تھا تب وہ بھی ظہیر کے ساتھ معاذ کے گھر آیا کرتا تھا لیکن جب سے وہ اسکول جانے لگا تب سے ظہیر نے اسے یہاں لانا چھوڑ دیا تھا۔

یہ حقیقت تھی کہ ظہیر اگرچہ ملازم تھا لیکن خیال وہ ایک باپ کی طرح ہی رکھا کرتا تھا اور معاذ تھا بھی کبیر کا ہم عمر ، وہ دونوں ہی ظہیر کے لیے ایک جیسے تھے۔ دیکھ بھال کے علاوہ ظہیر اس کی تربیت میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ اسی لیے ابھی بھی اسے سمجھا ہی رہا تھا۔

بوجی میں بڑا ہوگیا ہوں اب آپ چلے جائیں اپنے بیٹے کے پاس میں اکیلا رہ لوں گا۔ انداز ایسا جیسے خود ہی اقرار جرم کر رہا ہو ، اور ظہیر کے یہاں رکنے پر شرمندہ ہو ، باہر کھڑے یوسف صاحب جو کبھی اس طرح سے کسی کی باتیں چھپ کر سننے کے عادی نہیں تھے آج اپنی جگہ سے ہل نہیں پا رہے تھے، کہ کیا ان کے ہوتے ہوئے بھی وہ اکیلا تھا ؟

مجھے پتا ہے میرے بچے تم بڑے ہوگئے ہو اسی لیے تو بڑوں جیسی باتیں کرتے ہو، اب یونہی اداس بیٹھے رہو گے کیا ؟ اٹھ کر اپنا پروجیکٹ تو پورا کرو میں تب تک سینڈوچ لے کر آتا ہوں دونوں مل کر کھائیں گے، ظہیر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا اٹھ گیا۔

ظہیر بہت ہی پیار سے موضوع بدل کر اٹھ گیا تھا حالانکہ خود بھی اسی سوچ میں تھا کہ کاش یوسف صاحب اس پیارے سے بچے کو بھی کچھ وقت دے دیا کریں۔

کیا ہوا صاحب جی کچھ چاہئے تھا تو مجھے حکم کیا ہوتا ، آپ ٹھیک ہیں ؟ یوسف صاحب اس کے الفاظ کے گھیرے سے ہی نہیں نکل پائے تھے کہ کچن کی طرف جاتے ظہیر نے یوسف صاحب کو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر سوال کردیا۔
ہاں، صحن میں جا رہا ہوں جوس لا دینا مجھے۔
یوسف صاحب سرسری سا کہہ کر آگے بڑھ گئے، جبکہ ظہیر انہیں پریشان چھوڑ کر کچن کی جانب بڑھ گیا۔ صاحب جی ایک بات کرنا چاہ رہا تھا۔

جوس دیتے ہوئے یوسف صاحب سے آج وہ مخاطب ہو ہی گیا، اسے لگا یہی صحیح موقع ہے، کہیں نہ کہیں اس کا دل یہ خواہش کر رہا تھا کہ کاش اپنے بیٹے کے دل کی حالت سے یہ واقف ہوجائیں۔ ہاں کہو کیا کہنا ہے۔

یوسف صاحب کی طرف سے جواب حاضر تھا۔ جی وہ مجھے معاذ صاحب کے حوالے سے بات کرنی تھی۔ ابھی اتنا کہا ہی تھا کہ یوسف صاحب کا موبائل بج اٹھا اور ظہیر کی امید کی کرن ایک مرتبہ پھر بجھ گئی ، کہ اب بات پھر ادھوری رہ جائے گی یوسف صاحب اٹھ کر چلے جائیں گے۔
ہاں تم کچھ کہہ رہے تھے ظہیر؟
یوسف صاحب نے توقع کے برخلاف کال کاٹ کر دوبارہ اسے مخاطب کیا۔ صاحب جی، یوسف صاحب کو اسکول کے پروجیکٹ کے لیے کچھ سامان کی ضرورت ہے ، لیکن وہ آپ کے ساتھ جانے کا کہہ رہا تھا ، کیا آپ اس کے ساتھ سامان لینے چلے جائیں گے ؟

ظہیر اس کے باہر کے کام خود ہی کیا کرتا تھا اس کا سامان سارا اسے ساتھ لے جا کر خود ہی لاتا لیکن معاذ دیکھتا کہ اس کے دوست اپنے بابا کے ساتھ جا کر لیتے ہیں اور آتے وقت خوب مستیاں بھی کرتے ہیں تب سے اس کا دل بہت حساس ہوتا جا رہا تھا۔

ظہیر ہر بار اسے سمجھاتا اور اپنے ساتھ ہی لے جاتا وہ اسے ہر چیز دلا دیتا لیکن وہ بھی جانتا تھا کہ اپنے باپ کا وقت خرید کر وہ اسے نہیں دلا سکتا۔

کوشش تو اس نے معاذ کی خاطر کر دی تھی لیکن اب ڈر لگ رہا تھا کیونکہ جواب دینے کے بجائے یوسف صاحب پھر سے گہری سوچ میں چلے گئے تھے، اسے ڈر تھا کہ اب ڈانٹ پڑے گی۔ معاذ کو تیار کردو اس سے کہو کہ شام 5 بجے چلیں گے۔

ظہیر خاموشی دیکھ کر بھاری دل کے ساتھ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا واپس جا ہی رہا تھا کہ اچانک یوسف صاحب کی یہ آواز پر ایک مسکراہٹ نے لبوں کا احاطہ کرلیا اور قدموں میں جان آگئی اور تیز تیز چلتا یوسف صاحب کو حیرت میں چھوڑتا جلدی سے معاذ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

بیٹا ! یہ دیکھو ، تمہاری پسند کے اسٹیکرز ، اس پر تمہارا پسندیدہ کارٹون بنا ہے۔ سارا راستہ خاموشی سے گزارنے کے بعد مال میں کھڑے ہوکر وہ ایک اسٹیکر کو دیکھتے اپنے بیٹے سے رابطہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے ، جبکہ ان کی بات پر معاذ نے انہیں حیرت سے دیکھا۔ بابا جانی میں نے کارٹون دیکھنا چھوڑ دیے ہیں اس لیے اب میں کارٹون والی کوئی چیز نہیں لیتا، بوجی نے بتایا تھا کہ یہ کارٹون ہمیں ہمارے دین سے دور کر دیتے ییں ۔

جواب دے کر وہ پھر سے شیٹس دیکھنے لگ تھا جب کہ یوسف صاحب سوچنے لگے کہ واقعی ان کا بیٹا بڑا ہو رہا ہے اور ان کے بیٹے کی پسند تو انہیں معلوم ہی نہیں۔
واپسی کا سفر بھی بہت خاموشی سے گزرا ، گھر پہنچ کر معاذ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے رکا اور پلٹ کر دوبارہ مخاطب ہوا۔
بابا کل اسکول میں میٹنگ ہے ، پیرنٹس کو بلوایا ہے۔
کہہ کر رکا نہیں اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
یہ پہلی مرتبہ تھا جب وہ سوچ رہے تھے کہ وہ اس کے اسکول آخری مرتبہ کب گئے تھے ؟ اپنے بزنس سے نکل کر تو انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ بیٹے کے مستقبل پر بھی تھوڑی توجہ دینی چاہیے۔ اگلے دن توقع کے برخلاف وہ اسکول میں موجود تھے ، ورنہ ہر مرتبہ ہی آفس کے کام کا عذر پیش کر کے ظہیر کو ہی بھیج دیا کرتے تھے۔

اسکول کے اساتذہ انہیں ان کے بیٹے کی رپورٹس دکھا رہے تھے جو بہت بہترین تھیں ، کلاس کا سب سے بہترین طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہر میٹنگ میں اسے انعام دیا جاتا ، جسے وہ گھر میں نہیں دکھاتا تھا۔ معاذ سر جھکائے بیٹھا تھا اس کے لیے یہ سب نیا نہیں تھا، نیا تھا تو صرف یوسف صاحب کے لیے، انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کا بیٹا پڑھائی میں اتنا اچھا اور ذہین ہے۔

صاحب جی میں آج اسکول گیا تھا ، ہاں ظہیر اچھا ہوا ، وہ میرا کام نہ ہوتا تو میں تمہیں زحمت نہ دیتا، اور بتاؤ کوئی شرارت تو نہیں کی معاذ نے ؟
نہیں نہیں صاحب جی وہ تو بس۔۔
ابھی اتنی بات ہی کہہ سکتا تھا کہ یوسف صاحب کا موبائل بج اٹھا اور وہ بات کرتے کرتے باہر چلے گئے۔ پردے کے پیچھے چھپا یوسف اپنے باپ کی صورت پر اس کے پہلے انعام کی خوشی دیکھنے کے لیے منتظر تھا لیکن وہ دیکھے اور سنے بغیر ہی چلے گئے تھے کہ آج میٹنگ میں کیا ہوا۔

یہ پہلی میٹنگ تھی جو ظہیر نے اٹینڈ کی تھی اس کے بعد ہر میٹنگ میں ظہیر ہی جانے لگا اور آنے کے بعد بتانے کی کوشش کرتا تو یوسف صاحب کی مصروفیت کی وجہ سے کبھی بتا نہیں سکا۔ پہلی میٹنگ میں تو معاذ بہت رویا لیکن ظہیر نے اسے پیار سے بہلا دیا تھا ، اس کے بعد تو جیسے معاذ کو بھی عادت پڑ گئی تھی ۔

صاحب جی چائے۔
یوسف صاحب جو اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھ کر اپنے بیٹے کے حوالے سے ہی سوچوں میں گم تھے ظہیر کی آواز پر ایک دم اپنی سوچوں سے باہر آئے۔
ہاں یہاں رکھ دو۔
جواب مختصر دے کر گویا وہ اسے جانے کا کہہ رہے تھے۔
ظہیر جانتا تھا کہ وہ ملنسار سہی لیکن کم گو ہیں، زیادہ بات نہیں کرتے۔
صاحب جی ، ایک بچہ اپنے باپ کے ہوتے ہوئے اپنے باپ کی کمی محسوس کر رہا ہے ، اس کی مدد کر دیجیے۔ دوسرے لوگ کتنا ہی خیال رکھ لیں باپ کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔
ان کے مزاج کے مطابق ادب سے مسئلہ ان کے گوش گزار کیا۔
ہاں میں دیکھتا ہوں تم معاذ کو جوس دے آؤ۔
یوسف صاحب جو ظہیر کی بات سمجھ گئے ، اور خود بھی کہیں نہ کہیں ان ہی سوچوں میں گم تھے ، بات بدل کر اسے جانے کا کہہ گئے۔
رکو ایک منٹ!
ظہیر جو ابھی دروازے تک ہی پہچتا تھا یوسف صاحب کی آواز سن کی چونکا ۔ جی صاحب جی ؟
جس دن میری چھٹی ہوا کرے گی تم اس دن رات کو گھر جاسکتے ہو۔ جاؤ معاذ کو جوس دے دو انتظار کر رہا ہوگا۔ یوسف صاحب نے جیسے مسئلہ ہی حل کردیا۔
جی شکریہ صاحب جی۔
آواز سے ہی اس کی خوشی محسوس کی جا سکتی تھی ، یوسف صاحب اس کا جواب سن کر مسکرا دئیے، کیونکہ بیگم صاحبہ کے جانے کے بعد سے ظہیر یہیں رکا ہوا تھا ، اپنے گھر والوں سے دور۔

اپنی ضرورت کی وجہ سے یوں تو ملازم رکھنا بھی ضروری تھا لیکن اب وہ گھر آکر گھر کو ہی وقت دینے لگے تھے ، دیر سے ہی سہی لیکن اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی سب سے قیمتی دولت ان کا بیٹا ہے جسے ان کے وقت کی بہت ضرورت ہے ، وہ چھوٹی چیزوں میں بھی چاہتا تھا کہ اس کے بابا ہی خیال رکھیں جسے یوسف صاحب اب سمجھ گئے تھے۔ معاذ کے ایک جملے کی وجہ سے دو باپ اپنے بیٹوں سے دور ہونے سے بچ گئے ، کبھی کبھی چھوٹے بھی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو بڑوں کو گمراہ ہونے سے بچا لے۔